چھپکلیوں کا قبرستان
چھت کو جانے والے راستے پر امی ابو ہمیشہ تالا لگاکر رکھتے تھے۔ مگر ان تینوں کو ہمیشہ چھت پہ جانے کا تجسس رہتا اور پھر ایک دن نعمان نے چھت کے دروازے پر لگے تالے کی چابی تلاش کر ہی لی۔ جو امّی نے کچن کی ایک الماری میں چھپا کر رکھی تھی۔
نعمان نے فرحان کو بتایا اور فرحان نے نادیہ کو۔ یوں تینوں نے پلان بنایا کہ دوپہر کو جب امّی قیلولہ کے لیے سب کو بیڈ روم میں لے کر جائیں گی تب امّی کے سونے کے بعد تینوں باہر آ جائیں گے اور چھت کا نظارہ کریں گے۔
مگر ایسا ہو نہ سکا۔ لیکن ایک شام پڑوس سے ایک آنٹی آ گئیں۔ امی ان کے ساتھ ڈرائینگ روم میں بیٹھی چائے نوش فرماتی رہیں اور وہ تینوں چابی لے کر آہستہ آہستہ قدموں سے چھت پر چلے گئے۔
بہت کھلی فضا دیکھ کر سب کو اچھا لگا۔ اچانک نعمان کی نظر چھت کی دیوار سے ساتھ موجود چھپکلی پر پڑی۔ اس نے ہاتھ پہ لفافہ چڑھایا اور اسے دبوچ لیا اور پھر خود ہی چھوڑ دیا۔ تینوں نے اس حرکت کو بہت انجوائے کیا۔
فرحان کے اندر ایک سوچ نے انگڑائی لی۔ کیوں ناں ہم چھپکلیوں کو پکڑ کر ان کو دُم سے باندھ دیا کریں تو نادیہ کہنے لگی کہ اگر دیوار کے سائیڈ پہ کیل ٹھوک کر دھاگے کو اس کے ساتھ باندھا جائے تو کیسا رہےگا اور اگلے دن آ کے دیکھا کریں گے۔
اس کے بعد اس کاروائی پہ عمل درآمد ہونے لگا۔ نعمان نے گھر کا سودا سلف لانے والے بابا جی سے کیل منگوا لیے اور تینوں نے ایک شام اوپر جا کر احتیاط اور آرام سے چاروں اور فاصلوں پر کیل ٹھوک دئیے۔
اب روز شام میں تینوں مل کر چپکلیاں پکڑتے، دم باندھتے اور اسے کیل کے ساتھ باندھ کر نیچے آ جاتے اس کے بعد پڑھائی،کھیل یا ٹی وی میں مصروف ہو جاتے۔
چھپکلیاں بیچاری بے بس آخر کار دم توڑ جاتیں مگر ان کے ڈھانچے دھاگوں کے ساتھ بندھے رہ جاتے۔
تینوں اپنی بہادری پہ بہت خوش ہوتے کہ بچے تو چھپکلیوں سے ڈرتے ہیں اور ہم اتنے بہادر ہیں کہ نہ صرف انھیں پکڑتے ہیں بلکہ باندھتے بھی ہیں اور اتنے سارے ڈھانچے بھی جمع کر لیے ہیں۔
امی کو شک ہونے لگا کہ گھر میں شام کے وقت آخر اتنی خاموشی کیوں ہوتی ہے۔ یہ تینوں تو شام میں کھیلنے کے عادی ہیں۔ کبھی کرکٹ، کبھی بیڈ منٹن تو کبھی ٹینس مگر اب بیٹ اور ریکٹ کو سکون کیونکر میسر ہے۔
انھوں نے تینوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی شروع کر دی پھر بھی معلوم نہ ہو سکا کیوں کہ چھت کو جانے والا رستہ گیسٹ روم سے ہو کر جاتا تھا اور وہ کمرہ تو ہمیشہ بند ہی ملا اور تینوں کا کمرہ بھی بند ہوتا تھا۔ باہر صحن میں بھی اُدھم نہیں، ٹی وی لاؤنج بھی ویران۔۔۔ آخر کار ایک دن امّی چھت تک پہنچ ہی گئیں۔ تینوں ڈھانچے گن رہے تھے۔
امی نے آخری سیڑھی پہ قدم رکھتے ہی چھت کے چاروں اور دیکھا تو چیخ پڑیں۔ یہ کیا۔۔۔ چھپکلیوں کا قبرستان بنا رکھا ہے گھر کو۔۔۔“
اور تینوں کو کان سے پکڑ کر نیچے لے آئیں۔ شکایت ابو تک پہنچ گئی۔ رات کو ابو کی عدالت میں تینوں کو حاضر کر لیا گیا۔ جس عدالت کے وکیل و جج دونوں ابو ہی تھے۔
پہلے تو ابو بہت ہنسے۔ مگر جب انھوں نے امّی کو غصے میں دیکھا تو سنجیدہ ہو گئے اور تینوں کو پاس بٹھایا۔ نرمی سے سمجھانے لگے۔
بچوں یہ کھیل دلچسپ ضرور ہے۔ جس کے باعث تم نے اپنی بہادری تو ثابت کر دی مگر کیا یہ سوچا ہے کہ اس کھیل سے کتنی جانیں ختم ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ظلم ہو گیا تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائیں گے۔
اب سب اللہ جی سے معافی مانگو کہ آئندہ اس کی کسی بھی مخلوق کو تنگ نہیں کریں گے اور کسی کی جان سے کھیل کر خود کو بہادر ثابت نہیں کریں گے۔
تینوں نے پہلے امّی سے معافی مانگی پھر اللہ تعالیٰ سے اور امی نے خوش ہو کر تینوں کوگلے سے لگا لیا۔
- کتاب : Inpage File
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.