چیونٹی کی کہانی
سارہ کے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا باغ تھا جہاں کچھ ہرے بھرے پیڑ پودے اور گھاس موجود تھی۔ لیکن جب سخت گرمی پڑتی تو وہاں گھاس اور پیڑ پودوں کی ہریالی ماند پڑتی جاتی۔ پرندے اور دوسرے جانور بھی اپنے اپنے بلوں، گھونسلوں اور گھروں میں دبکے بیٹھے رہتے۔ لیکن اس سخت گرمی میں درخت کی جڑوں سے چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار نہ جانے کہاں سے نکل آتی اور اپنے سر پہ کوئی دانہ اٹھائے باغ میں جگہ جگہ سے گزرتی دکھائی دیتیں۔
سارہ اپنی امی کے ساتھ روزانہ شام کو باغ میں جب کھیلنے جاتی تو دن بھر کی بچی کھچی باسی روٹیوں کے ٹکڑے، باجرہ اور چاول وغیرہ پرندوں اور جانوروں کے لیے ساتھ لے جاتی اور جہاں پرندے نظر آتے وہاں اُچھال اچھال کر بکھیرتی اور پرندے ان دانوں کو کھانے کے لیے لپک کر زمین پر آ جاتے اور ایک دوسرے کو ٹھونگیں مار کر دانے اچک کر لے جاتے۔ ایک روز باغ کے مالی نے سارہ کو منع کیا کہ وہ یوں کھانے پینے کی چیزیں باغ میں ہر طرف نہ پھیلایا کرئے کیونکہ اس طرح باغ میں چیونٹیاں اور وہ کیڑے مکوڑے بھی پھیل جاتے ہیں جو باغ کو خراب کرتے ہیں۔ مالی نے سارہ کو سمجھایا کہ وہ ان دانے سارے باغ کی گھاس میں بکھیرنے کے بجائے انہیں کسی کونے میں یا درخت کے سائے میں کسی مٹی کے برتن میں رکھ دیا کرئے تاکہ باغ میں آنے والے جانور خود ہی ایک جگہ سے کھانا کھا لیں اور باغ بھی صاف دکھائی دے۔
ایک دن سارہ کی امی نے ایک مٹی کے بڑے کٹورے میں پانی اور کچھ سوکھی روٹی کے ٹکڑے رکھ کر اس سے کہا کہ وہ یہ کٹورا باغ میں درخت کی چھاؤں میں رکھ آئے تاکہ وہاں یہ دانہ پانی ٹھنڈا بھی رہے اور جانور و پرندے اپنی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ کھانا بھی کھا لیں۔
سارہ نے جلدی سے جوتے پہنے اور گھر سے باغ کی جانب کٹورا لے کر چل دی۔ اگرچہ یہ باغ سارہ کے گھر کے بالکل سامنے تھا لیکن اس سخت چلچلاتی گرمی میں دو قدم چلنا بھی مشکل تھا۔ اس کو گرمی سے بہت پسینہ آنے لگا۔ جب وہ پانی کا کٹورا باغ میں رکھ کر اپنے گھر کی طرف لوٹ رہی تھی تب اس نے دیکھا کہ اتنی گرمی میں بھی چیونٹیوں کی ایک پوری فوج لائین سے باغ کے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف آنا جانا کر رہی ہے اور زمین پر گھاس سے جگہ جگہ چیونٹیوں نے مٹی باہر نکالنا شروع کر دی ہے۔ سارہ کو باغ میں چیونٹیوں کا یوں جگہ جگہ سوراخ کرنا پسند نہ آیا۔ اسے لگا کہ یہ چیونٹیاں سارے باغ میں پھیل کر باغ کی گھاس کو خراب کر رہی ہیں۔ اس نے اپنا پیر چیونٹیوں کی قطار پر رکھا اور اپنے جوتے سے مٹی برابر کرتے ہوئے اُن سوراخوں کو بند کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ ابھی وہ ایسا کر ہی رہی تھی کہ اچانک بہت ساری چیونٹیاں غصے میں اس کے پیر پر چڑھنے اور جوتے میں گھسنے لگیں۔ جب سارہ کو جوتے کے اندر چیونٹیاں رینگتی محسوس ہوئیں تو وہ پاؤں پٹختے ہوئے گھر کی جانب دوڑی۔ اتنی دیر میں ایک دو چیونٹیوں نے اس کے پاؤں پر کاٹنے کی بھی کوشش کی۔ سارہ زور زور سے اپنی امی کو پکارنے لگی
’’امی! یہ چیونٹیاں مجھے کاٹ رہی ہیں‘‘
اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی امی کو آواز لگائی اور درد سے چلاتے ہوئےایک جوتا پاؤں سے اتار کر پھینکا اور دوسرا پہنے پہنے بھاگ کر کمرے میں گھس گئی۔ سارہ کی امی اس کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گئیں اور تقریباً دوڑتے ہوئے سارہ کے پاس آکر اس سے پوچھا
’’کیا ہوا بیٹی! تم تو باغ میں پانی رکھنے گئی تھی پھر یہ چیونٹیاں کہاں سے ساتھ لے آئیں؟‘‘
’’امی! میں نے چیونٹیوں کی لمبی قطار کو پاؤں سے توڑنے کی کوشش کی تھی کیونکہ وہ باغ میں گھاس پر جگہ جگہ سوراخ کرکے مٹی باہر پھینک رہی تھیں اور باغ کی خوبصورتی کو خراب کر رہی تھیں‘‘
سارہ نےاپنا پیر کھجلاتے ہوئے کہا۔
ارے نہیں سارہ! تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ یہ چیونٹیاں باغ خراب کر رہی ہیں۔ یہ بھی قدرت نے پیدا کی ہیں اور ان کی موجودگی بھی اس باغ کا ایک حصہ ہی ہے۔ چونکہ یہ بارش اور سردی میں زندہ نہیں رہ سکتیں اس لیے یہ صرف گرمیوں کے موسم میں زمین کے اندر سے باہر نکلتی ہیں اور اپنا رزق تلاش کرکے زیر زمین اپنے گھروں میں لے جاتی ہیں۔ یہ چیونٹیاں بہت محنتی ہوتی ہیں اپنے وزن سے کئی گنا زیادہ وزن کا دانہ اپنے سر پر اٹھاکر بہت محنت سے اپنے گھر لے جا سکتی ہیں۔ یہ نہایت محنتی اور متحد جاندار ہیں۔ تمہیں انہیں تنگ نہیں کرنا چاہئے۔۔۔ جب بلا وجہ تم کسی بھی جاندار کو پریشان کروگی تو وہ پلٹ کر ایسا ہی غصہ دکھائےگا جیسا ان چیونٹیوں نے کیا”
سارہ کی امی نے سارہ کو غسل خانے کی جانب لے جاتے ہوئے کہا۔
امی! اللہ میاں نے چیونٹیاں کیوں بنائی ہیں؟ نہ تو یہ خوبصورت ہیں اور نہ کار آمد بلکہ الٹا انسانوں اور جانوروں کو کاٹتی ہیں۔۔۔ سب ہی ان سے بچنا چاہتے ہیں اور ان سے اپنے گھروں کو صاف رکھنا چاہتے ہیں مگر پھر بھی یہ زمین کے اندر گھر بنا لیتی ہیں”
سارہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ چیونٹیوں کے کاٹنے سے اس کے پیر میں جلن ہو رہی تھی اور پاؤں کا انگوٹھا بھی سرخ ہو گیا تھا۔
امی نے سارہ کے پاؤں دھلاتے ہوئے سمجھایا
اور کہا کہ
“اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی بھی مخلوق بےکار پیدا نہیں کی۔ چیونٹیوں کے بھی قدرت نے فائدے رکھے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ انسان اس چھوٹی سی مخلوق سے متحد، منظم اور محنت کا سبق سیکھے۔ یہ ننھی سے مخلوق ایک ہاتھی کو بھی زمین پہ گرا دینے کی طاقت رکھتی ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ یہ چیونٹیاں کتنی دلچسپ مخلوق ہیں“
سارہ کو چیونٹیوں کے اہم اور طاقتور مخلوق ہونے پر حیرت ہو رہی تھی۔ وہ ان کے بارے میں مذید جاننے کے لیے بےچین ہو گئی۔ جب سارہ کی امی اس کے پاؤں پر چیونٹیوں کے کاٹنے کی جگہ پر مرہم لگا رہی تھی تو اس نے تجسس سے اپنی امی سے کہا
’’امی! آپ مجھے بتائیے کچھ ان ننھی منی طاقتور مخلوق کے بارے میں۔۔۔ یہ چھوٹی سی چیونٹی ہاتھی کو کیسے گرا سکتی ہے؟‘‘
سارہ کی امی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ
“آج رات کو میں تمہیں چیونٹیوں کے بارے میں بتاؤں گی، میرے پاس ایک چیونٹیوں پر تصویری کتاب بھی ہے اس میں سے تمہیں کچھ پڑھ کر سناؤں گی اور تصویریں بھی دکھاؤں گی۔ ابھی تم اپنے بستر پہ بیٹھ کر اپنی کلر بک میں تصویریں بناؤ اور رنگ بھرا تب تک میں کچھ گھر کے کام کر لوں “
اس روز دن بھر سارہ چیونٹیوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ رات کو کھانے اور دانت مانجھنے کے بعد جب وہ بستر پہ سونے کے لیے لیٹی تو اس نے اپنی امی کو یاد دلایا کہ آج انہیں چیونٹی کی کہانی سنانی ہے۔
سارہ کی امی نے پہلے سارہ کے پاؤں میں چیونٹی کے کاٹنے کا نشان دیکھا جو مرہم لگانے سے ٹھیک ہو گیا تھا۔ انہوں خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے بتایا کہ چیونٹیاں کبھی کبھی بہت خطرناک طریقے سے کاٹ لیتی ہیں اور ان کے کاٹنے پر انسان کئی دن تک سوجن اور جلن محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا بڑا اور طاقتور ہاتھی اپنی نازک سونڈ میں پرچیونٹی کے کاٹنے سے بہت ڈرتا ہے۔ وہ اس تکلیف کو بالکل برداشت نہیں کر پاتا اور کبھی کبھی تو درد سے بےہوش ہو جاتا ہے۔
سارہ کا تجسس بڑھ گیا تھا وہ چیونٹیوں کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بے چین ہو گئی تھی۔ سارہ کی امی نے جانوروں اور حشرات پر ایک کتاب کتابوں کی الماری سے نکالی اور کچھ ورق پلٹنے کے بعد سارہ کو بتایا کہ یہ ننھی منی چیونٹیاں بہت عرصے سے سائنسدانوں کے لیے دلچسپ رہی ہیں۔ کیونکہ یہ منی سی چیونٹیاں زمین کے اندر انسانوں کی طرح اپنا پورا ایک شہر بسا کر نہایت منظم طریقے سے رہتی ہیں اور یہ تمام چیونٹیاں اپنے کام مختلف گروہوں میں تقسیم کر لیتی ہیں۔ قدرت نے چیونٹیوں کو کئی درجے میں بھی تقسیم کیا ہوا ہے اور ہر چیونٹی اپنی ذمہ داری اپنے درجے کے مطابق ادا کرتی ہے۔ جیسا کہ زمین کے نیچے بسے چیونٹیوں کے شہر میں ہر چیونٹی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ان میں کچھ مزدور چیونٹیاں ہوتی ہیں جن کا کام زمین کے اندر گھر بنانا اور گرمیوں میں مٹی باہر نکال کر دوسری چیونٹیوں کے لیے راستہ بنانا ہے، اس کے علاوہ کچھ محافظ چیونٹیاں بھی ہوتی ہیں جو زمین کے نیچے ملکہ چیونٹی اور اس کے انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ کچھ چیونٹیاں کھانا جمع کر کے ذخیرہ کرتی ہیں اور کچھ چیونٹیاں خاص طور پر دیگر حشرات اور جانوروں سے لڑنے اور گھر کو بچانے کی تربیت پاتی ہیں۔ یہ ساری چیونٹیاں رنگ اور سائیز میں پہچانی جاتی ہیں۔ یہ چیونٹیاں آپس میں بات چیت بھی کرتی ہیں اور ایک دوسرے کو ان کی خوشبو سے پہچانتی ہیں۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ دنیا میں چیونٹیوں کی اقسام کی تعداد بارہ ہزار کے قریب ہے۔ یہ ساری اقسام علاقے کے موسم اور زمین کی سختی اور نرمی کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ مختلف اقسام کی ان چیونٹیوں میں تین اہم قسم کی چیونٹیاں انسانوں کی زندگی کے لیے بھی فائدہ مند ہیں جو تقریباً ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔
پہلے نمبر پر شہد والی چیونٹیاں ہیں جن کے بارے میں سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ چیونٹیوں کی ایک انوکھی قسم ہے۔ ان قسم کی چیونٹیوں کے پیٹ میں شہد ہوتا ہے یہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں ہی رہتی ہیں۔ یہ زمین کے نیچے اپنی خوراک دوسری ان چیونٹیوں سے حاصل کرتی ہیں جو چیونٹیاں پھولوں کا رس چوس کر آتی ہیں اوربل میں فضلہ خارج کرتی ہیں۔ شہد والی چونٹیاں اس فضلے کو چوس لیتی ہیں، جس سے شہد بنتا ہے یہ شہد بہت قیمتی ہوتا ہے۔ ان شہد والی چیونٹیوں کی جسامت انگور کی طرح ہوتی ہے۔ یہ زمین کے نیچے یہ دوسرے حملہ آوروں کیڑوں سے خود کو محفوظ رکھتی ہیں لیکن زمین کے نیچے گہرائی میں نمی والا ماحول ان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ یہ چیونٹیاں خود اس ماحول سے بچنے کے لیے یہ اپنے خاص جسم سے ایک جراثیم کش مادہ خارج کرتی ہیں اور اس مادے کو وہ اپنے جسم پر چاروں طرف لگاتی رہتی ہیں۔ اس مادے سے وہ نمی والے ماحول سے زمین کے اندر محفوظ رہتی ہیں۔
ان چیونٹیوں سے دوسری چونٹیاں بھی شہد حاصل کرتی ہیں۔ دوسری چونٹیوں کا شہد حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ اپنے خاص انٹینا سے شہد والی چیونٹی کے انٹینے کو تھپتھپاتی ہے، جس سے شہد والی چیونٹی اپنا منہ کھول دیتی ہے اور یہ شہد حاصل کرتی ہے۔ شہد کی لینے اور دینےکے سلسلے کو کنٹرول کرنے کے لئے ان کے پاس ایک خاص والو ہوتا ہے جس میں وہ اضافی شہد ڈال دیتی ہیں اور ان کا نکلا ہوا شہد ضائع نہیں ہوتا۔ ان چیونٹیوں کی عمر چند ماہ ہی ہوتی ہے۔ ایسی چیونٹیوں کا شہد بہت کم مقدار میں ہوتا ہے لیکن یہ انسانوں کی بہت سی مہلک بیماریوں کی دوائیں بنانے میں کام آتا ہے۔
دوسرے نمبر پر فوجی چیونٹیاں ہیں۔ یہ چونٹیاں فوجیوں کی طرح رہتی ہیں۔ یعنی پورا لشکر بنا کر ایک ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے یہ اپنے گھر اکثر بدلتی رہتی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتی رہتی ہیں۔ یہ چیونٹیاں تقریباً بتیس دن کی مہم پر کام کرتی ہیں جس میں سولہ دن یہ آگے بڑھتی ہیں اور باقی سولہ دن آرام کرتی ہیں۔ آرام کے دنوں میں ان کی ملکہ انڈے دیتی ہے اور چیونٹیاں ایک دوسرے کی ٹانگوں میں ٹانگیں پھنسا کر یا ہاتھ سے ہاتھ جوڑ کر زنجیر بناتے ہوئے اپنی ملکہ کے گرد پردہ تانے رہتی ہیں۔ جس سے ملکہ اور بچے محفوظ رہتے ہیں۔ ان فوجی چیونٹیوں کو خوراک اکٹھی کرنے کے لئے گروپ میں بھیجا جاتا ہے جس میں وہ دوسرے کیڑے مکوڑے اور چھوٹے جانور شکار کرتی ہیں۔ ان کا لشکر تیس فٹ تک بڑا ہوتا ہے۔ یہ مری ہوئے جانور اور زندہ چھپکلیاں، چوہوں وغیرہ کا چٹ صفایا کر دیتی ہیں۔ ان مردہ جانوروں کے ٹھکانے لگنے کی وجہ سے ماحول میں جراثیم نہیں پھیلتے اور انسان بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
چیونٹیوں کی تیسری قسم زہریلے پودوں کے پتے کاٹنے والی چیونٹیوں کی ہے۔ یہ چیونٹیاں ایسی ہوتی ہیں جو پتے کاٹتی ہیں اور اپنے شہر میں گھر کی تعمیر کے لیے لے جاتی ہیں جب ان پتے کاٹنے والی چیونٹیوں کے دانتوں کا اثر کم ہو جاتا ہے تو یہ ریٹائرڈ ہو جاتی ہیں۔ یہ بوڑھی چیونٹیاں باقی چیونٹیوں کی نسبت کم کام کرتی ہیں لیکن پھر بھی یہ بوجھ اٹھا سکتی ہیں۔ یہ چونٹیاں اپنے وزن سے پچاس فیصد زیادہ وزن اٹھا سکتی ہیں۔ پھل دار درختوں کے ارد گرد جتنے بھی زہریلے پودے اور پتے پیدا ہوتے ہیں یہ ان کی خوشبو پہچانتی ہیں اور ان کو کاٹ کاٹ کر ختم کر دیتی ہیں۔
چیونٹیاں زمین پر بہت پرانی مخلوق ہیں۔ ان کا ذکر مذہبی کتابوں میں بھی آیا ہے۔ قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے سورہ نمل میں اس کا ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی چیونٹیوں کے کئی قصے دینی اور تاریخی کتابوں میں موجود ہیں۔
سارہ کی امی نے کتاب میں سے چیونٹیوں کی مختلف اقسام کی تصاویر سارہ کو دکھائیں تو اس کو یہ منی منی سی چیونٹیاں واقعی بہت بہادر اور کارآمد مخلوق محسوس ہوئیں۔ اس نے کتاب میں تصویر یں دیکھنے اور چیونٹیوں کے بارے میں اتنا جاننے کے بعد اپنی امی سے وعدہ کیا کہ اب وہ باغ میں چیونٹیوں کو کبھی نہیں مارےگی بلکہ اب ان کا بغور جائزہ لینے کی کوشش کرئے گی اور اپنے دوستوں کو بھی چیونٹیوں کی طرح محنتی، بہادر اور اتفاق و اتحاد سے رہنے کے بارے میں بتائےگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.