چپ کا بھوت
ایک تھے میاں خوشحال۔ والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ بڑے لاڈ پیار میں پرورش پائی۔ بڑے ناز نخرے اٹھائے گئے۔ اب اماؤں کا جو لاڈ پیار ہوتا ہے، وہ سارے کا سارا اولاد کو کھلانے میں صرف ہوجاتا ہے۔ انہیں ہر وقت یہی فکر دامن گیر رہتی ہے کہ ان کا لعل کچھ کھاتا ہی نہیں۔ سوکھ کے کانٹا ہوا جارہا ہے۔ چنانچہ ہر وقت اولاد کو ٹھسانے کی فکر میں لگی رہتی ہیں۔ بیٹا یہ بھی کھالے، وہ بھی کھالے، دیکھ میں نے تیرے لیے انڈوں کا حلوہ بنایا ہے، بادام کی لوز بنائی ہے، تو کبھی آلو کے پراٹھے بنائے ہیں، توکبھی مرغ مسلم تیار کیا ہے۔
اماں کے اس خوردنی لاڈ کا نتیجہ یہ ہوا کہ میاں خوشحال خوش خوراک بھی ہوگئے۔ اماں کو احساس تب ہوتا جب کہیں مہمان جاتیں اور خوشحال میاں بھی ساتھ ہوتے۔ میزبان جو بھی ناشتے کا سامان پلیٹوں میں سجا کے رکھتے خوشحال میاں ان کے ساتھ پورا انصاف کرتے۔ عام طور پر میزبان یہ امید کرتا ہے کہ مہمان تھوڑا بہت چکھ کر چھوڑ دے گا اور سامان واپس ڈبوں میں بھر کر رکھ دیا جائے گا جو کسی اگلے مہمان کے کام آئے گا۔ لیکن میاں خوشحال تو اس کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے تھے۔ اماں لاکھ اشاروں سے منع کررہی ہیں، کہنی سے ٹہو کے لگارہی ہیں، لیکن خوشحال میاں ایسے مصروف کہ نظر اٹھانے کی فرصت نہیں۔ رکابیاں ایسی صاف کرتے کہ میزبان کو دھلوانے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، ان کی خوش خوراکی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ دس بارہ روٹیاں اور چاول اور میٹھا الگ، ان کی ایک وقت کی خوراک ہوا کرتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جسمانی طور پر بھی خوشحال نظر آنے لگے۔ شادی سے پہلے ہی توند نکل آئ۔ ابا نے اپنے اثر رسوخ سے کسی سرکاری دفتر میں کلرک لگوادیا تھا۔ کرسی پر بیٹھ کر قلم گھسنا اور کھانا۔ جتنی خوشحالی نظر نہ آتی کم تھی۔
اب اماں کو اپنے لخت جگر کی شادی کی فکر ہوئی۔ اپنے گاؤں کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کی سگھڑسی لڑکی دیکھ کر رشتہ پکا کردیا۔ اس گاؤں میں زیادہ تر کسانوں اور جلاہوں کی آبادی تھی۔ زیادہ ترکسان کپاس کی کاشت کرتے تھے۔ جلاہوں نے گھر پر کرگھے یا پاور لوم لگا رکھے تھے۔ کھادی کا کپڑا بنا جاتا تھا۔ خوشحال میاں کے سسرال والوں نے عقل مندی یہ کہ کہ کپاس کی کاشت بھی کرتے تھے اور گھر پر پاورلوم بھی لگا لیا تھا۔ سسر کھیتی باڑی کرتے، عورتیں روئی کی پونیاں بناتیں اور لڑکے پاورلوم پر کپڑا بنتے۔ بازار میں روئی کے چڑھتے اترتے داموں سے بے پروا یہ گھرانا اچھا خاصا کما لیتا تھا۔ خوب دھوم دھام سے خوشحال میاں کی شادی ہوئی۔ دلہن ڈھیر سا جہیز لے کر آئی۔ رواج کے مطابق ولیمے کے بعد دلہن کے بھائی آکر اسے میکے لے گئے۔
اب خوشحال میاں کو چوتھی کے لیے سسرال جانا تھا اور بیوی کو واپس لانا تھا۔ خوشحال میاں سسرال جانے کو تیار ہوئے تو اماں نے سمجھایا کہ بیٹا ذرا ہاتھ روک کر کھانا۔ سسرا میں بے عزتی نہ ہو۔ لوگ یہ نہ کہیں کہ کیسا بھوکا ننگا داماد آیا ہے کہ کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ بات خوشحال میاں کی بھی سمجھ میں آگئی۔ سسرال پہنچے۔ بڑی خاطر مدارات ہوئی۔ جاتے ہی ناشتے کا اہتمام ہوا۔ لیکن خوشحال میاں نے شرما حضوری تھوڑا سا ٹونگ کر ہاتھ روک لیا۔ رات کو چوتھی کی دعوت تھی۔ ترتراتے ہوئے پلاؤزردے، قورمے، قلیے، کی اشتہا انگیز خوشبوئیں ماحول کو مرغن بنائے ہوئی تھیں۔ دسترخوان بچھا۔کئی قسم کے کھانے دولہا میاں کے سامنے چنے گئے۔ لیکن خوشحال میاں کو اماں کی نصیحت یاد آگئی۔ بمشکل ہاتھ روکا۔ دوچار روٹیوں اور تھوڑی سی بریانی پر اکتفا کی۔ جی تو چاہتا تھا کہ پورے ڈونگے صاف کر جائیں لیکن دل پر جبر کر اٹھ گئے۔ سسرال والوں پر دھاک بیٹھ گئی۔ جنوائی جی تو بہت کم خوراک ہیں۔
خیر محفل برخواست ہوئی۔ خوشحال میاں بھی اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لئے آگئے۔ لیکن نیند کہاں آتی۔ جو کھایا تھا وہ تو پیٹ کے ایک کونے میں پڑگیا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی ہضم ہوگیا۔ ساری رات بھوک کے مارے کروٹیں بدلتے گذر گئی۔ پیٹ میں چوہے فٹ بال کھیل رہے تھے۔
آخر صبروضبط کی انتہا ہوگئی تو رات کے پچھلے پہر بستر سے اٹھے۔ کمرے سے باہر جھانکا۔ ہر طرف سناٹا تھا۔دبے پاؤں باہر نکلے اس تلاش میں کہ شاید کہیں کچھ کھانے کو مل جائے، لیکن کہیں کچھ نظر نہیں آیا۔ پچھلے برآمدے میں چھت سے ایک چھینکا لٹک رہا تھا۔ اس میں مٹی کی ایک چھوٹی سی مٹکی رکھی ہوئی تھی۔ خوشحال میاں کی جان میں جان آئی۔ سوچا یقیناً کھانے پینے کا سامان ہوگا۔ مٹکی اونچی تھی۔ خوشحال میاں نے پاس پڑے ہوئے ایک ڈنڈے سے مٹکی کے تلے میں ضرب لگائی۔ مٹکی پھوٹ گئی۔ اس میں شہد بھرا ہوا تھا۔ خوشحال میاں نشانہ سادھ کر منہ کھول کر کھڑے ہوگئے۔ کچھ شہد منہ میں گیا، کچھ سر پر ٹپکا، کچھ چہرے پر لگا، کچھ کپڑوں پر گرا۔ خوشحال میاں دونوں ہاتھوں کا ڈونگا بنا کر شہد پینے میں مصروف تھے کہ اتنے میں کچھ کھٹکا ہوا۔ قدموں کی آوازسنائی دی۔ خوشحال میاں گھبرا گئے۔ ساری عزت مٹی میں مل جائے گی۔ سامنے ہی کوٹھار تھا جہاں روئی اسٹور کی جاتی تھی۔ گھبرا کر اسی میں گھس گئے۔ شہد میں تو یونہی لت پت ہو رہے تھے، اوپر سے سارے بدن پر روئی چپک گئی۔ اچھا خاصا تندرست مینڈھا نظر آنے لگے۔ کوٹھری سے جھانک کر دیکھا۔ سسر صاحب اٹھ چکے تھے۔ کسان آدمی تھے۔ علی الصباح کھیتوں پر چلے جاتے تھے۔ برآمدے میں مٹکی ٹوٹی ہوئی دیکھی تو بلی کو برا بھلا کہتے ہوئے صفائی کرنے بیٹھ گئے۔
خوشحال میاں کے باہر نکلنے کی کوئی راہ نہ تھی راہ نہ تھی۔ تھوڑی دیر میں اجالا پھیل گیا۔ ساس سالے سالیاں سب ہی جاگ گئے۔ چلت پھرت شروع ہوگئی تو کوٹھار سے باہر نکلنے کے مواقع ہی ختم ہوگئے۔ بھوک کے مارے الگ دم نکلا جارہا تھا۔ اس حلیے میں باہر نکل نہیں سکتے تھے۔ باہر سے آوازیں آرہی تھیں۔ جنوائی جی کی تلاش ہو رہی تھی۔ اسی دوران ساس صاحبہ کی آواز آئی، جو ان کی بیوی سے کہہ رہی تھیں ’’بیٹی تو کل تو چلی جائے گی تو میں اکیلی رہ جاؤں گی۔ تیری بہنیں تو ابھی چھوٹی ہیں۔ تھوڑی سی روئی نکال لا۔ کچھ پونیاں ہی بنوالیں۔‘‘ یہ گفتگو سن کر خوشحال میاں کے کان کھڑے ہوئے۔ یعنی کوئی کوٹھار میں آنے والا تھا۔ تیار ہو کر ایک کونے میں کھڑے ہوگئے۔
جیسے ہی ان کی اہلیہ نے دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا، وہ آگے بڑھ کر زور سے بولے’’چوپ‘‘۔ ان کی دلہن ٹوکریاں پھینک پھانک بے تحاشا بھاگی۔ پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ اماں سے بولی ’’اماں اماں سن۔ کوٹھار میں بھوت ہے۔‘‘ اماں بولیں ’’چل ہٹ، بڑی ہوگئی، شادی بیاہ ہوگیا، بچپن کی ڈرنے کی عادت نہیں گئی۔ ہمارے گھر میں کوئی بھوت ووت نہیں ہے۔ چل میں دیکھتی ہوں۔ جیسے ہی ساس صاحبہ نے اندر قدم رکھا، روئی کے ڈھیر کو حرکت ہوئی اور آواز آئی ’’چوپ‘‘۔ ساس بھی جوتا ڈوپٹہ پھینک کر بھاگیں۔ بیٹوں کو آوازیں دیں۔ بیٹے بازوؤں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آئے۔ دیکھیں کون بھوت ہے۔ ہم نے بڑے بڑے بھوتوں کو سیدھا کردیا ہے۔ لیکن جیسے ہی اندر قدم رکھا، روئی کے پہاڑ کو حرکت ہوئی اور ’’چوپ‘‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ سسر کو بلایا گیا۔ وہ کھیتوں کو چھوڑ کر آئے بکتے جھکتے، بیٹوں کو نکما کہتے، لیکن انہیں بھی ’’چوپ‘‘ کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ سارا محلہ جمع ہوگیا۔ کوٹھار کے دروازے کو بند کردیا گیا۔ بڑے بوڑھوں نے مشورہ دیا۔ ’’مسجد کے مولوی صاحب کو بلا کر لاؤ۔ وہی اس بھوت کو بھگائیں گے۔‘‘ سسر صاحب مولوی صاحب کے پاس گئے اور سارا واقعہ بیان کیا۔ مولوی صاحب بولے۔ ’’ہمارے آگے کوئی بھوت نہیں ٹھہر سکتا۔ میں وہ عمل پڑھوں گا کہ بھوت کو بھاگتے بن پڑے گا۔ تم دوڑ کر بازار سے ایک کلو قلاقند اور ایک اگربتی کا پیکٹ لے کر پہنچو۔ ہم آرہے ہیں۔‘‘
حسب ہدایت ایک کلو قلاقند اور اگربتی منگائی گئی۔ مولوی صاحب نے کوٹھار کے سامنے اگر بتیاں جلا کر قلاقند پر شیخ سدو کی نیاز دی۔ پھر بیٹھ کر پورا قلاقند چٹ کر گئے۔ اوپر سے ایک گلاس تازہ دودھ کا پی کر ڈکار لی اور ہونٹوں ہی ہونٹوں میں عمل پڑھتے ہوئے کوٹھار کا دروازہ کھول کر بولے ’’کون ہے بے تو، سامنے آ۔‘‘ ایک روئی کا پہاڑ آگے بڑھا اور آواز آئی’’چوپ‘‘
مولوی صاحب اپنا انگوچھا اور کھڑاویں چھوڑ کر بھاگے۔ خوشحال میاں کے سسرال والوں سے بولے، ’’یہ چپ کا بھوت ہے۔ بڑا تگڑا ہے۔ آسانی سے نہیں جائے گا۔ جب اس کی مرضی ہوگی تب ہی جائے گا۔ تم لوگ ایسا کرو کوٹھار کا دروازہ کھلا رہنے دو اور مکان کے اگلے حصے میں چلے جاؤ خبردار پچھلے حصے میں قدم بھی نہیں رکھنا۔ جلالی بھوت معلوم ہوتا ہے۔ کہیں تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچادے۔‘‘
اور مکان کے سامنے والے حصے میں چلے گئے۔ دوپہر ہوگئی تھی۔ دھوپ تیز تھی۔ گاؤں والے بھی گھروں میں جاگھسے تھے۔ میدان صاف دیکھ کر خوشحال میاں باہر نکلے۔ کوٹھار کے پیچھے جنگل تھا۔ جنگل کے اندر جاکر دم لیا۔ جنگل میں صاف پانی کا ایک نالا بہہ رہا تھا۔ وہاں بیٹھ کر کپڑے اتار کر دھوئے، خودنہائے۔ پیڑ پر کپڑے سوکھ گئے۔ کپڑے پہن کر انسان کی شکل میں آئے اور سسرال کی طرف چلے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ سسر صاحب نکل کر آئے’’ارے جنوائی جی آپ کہاں چلے گئے تھے۔ ہم تو پریشان ہو رہے تھے‘‘۔
خوشحال میاں بولے ’’مجھے سرکاری کام یاد آگیا تھا اس لیے جانا پڑا۔ آپ سب یہاں بند ہو کر کیوں بیٹھے ہیں‘‘۔
سسر بولے ’’ارے جنوائی جی، کیا بتائیں۔ ہمارےکوٹھار میں تو چپ کا بھوت آگیا ہے۔ بڑا تگڑا ہے۔ مولوی صاحب سے بھی نہیں بھاگا۔ انہیں کے کہنے پر ہم نے پچھلا حصہ خالی کردیا ہے‘‘۔ خوشحال میاں بھوک سے پریشان تھے جلدی سے جلدی اپنے گھر پہنچنا چاہتے تھے۔ کہنے لگے’’بھوت ووت کیا ہوتا ہے۔ میں نے بڑے بڑے بھوت بھگادیے ہیں۔ چلیے میں دیکھتا ہوں۔ ان کی دلہن نے آنکھوں میں آنسو بھر کرکہا’’سینے جی، آپ کو ہمارے سہاگ کا واسطہ۔ ابھی تو ہمارے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں چھوٹی ہے۔ آپ کو کچھ ہوگیا تو ہم کیا کریں گے‘‘۔ سالے بھی کہنے لگے ’’بہنوئی صاحب، وہ بڑا جلالی بھوت ہے آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو ہماری ناک کٹ جائے گی۔‘‘ خوشحال میاں بولے’’اجی لعنت بھیجئے، میرے سامنے کوئی بھوت نہیں ٹک سکتا۔ میں نے شہر میں بھوت بھگانے کی بھی تعلیم حاصل کی ہے‘‘۔
سارا قافلہ خوشحال میاں کی قیادت میں گھر کے پچھواڑے کی طرف چلا۔ آگے آگے خوشحال میاں’’اگڑم بگڑم سگڑم آکالی کلکتہ والی، تیرا وار نہ جائے خالی‘‘ کا ورد کرتے ہوئے اور پیچھے پیچھے ساس سسر سالے سالیاں بیوی ڈرتے کانپتے کوٹھار کی طرف چلے۔ باقی سب لوگ تو ذرا فاصلے پر ہی رک گئے۔ خوشحال میاں نے دروازے پر زور سے پھونکا اور کواڑ کھول کر بآواز بلند بولے ’’تو جو کوئی بھی ہے خیریت چاہتا ہے تو فوراً نو دو گیارہ ہوجا ورنہ ہم اپنے جادو کے زور سے تجھے مرغا بنادیں گے‘‘۔
خوشحال میاں کوٹھار میں داخل ہوگئے لوگوں کو بلایا۔ سب ڈرتے ڈرتے اندر آئے۔ بھوت بھاگ چکا تھا۔ سسرال والے تو مارے عقیدت کے خوشحال میاں کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے۔ خوشحال میاں کا بھوک سے دم نکلا جارہا تھا۔ جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہتے تھے۔ کہنے لگے ’’بھوت کو بھگانے میں بڑی طاقت خرچ ہوتی ہے۔ مجھے بڑی کمزوری ہورہی ہے۔ کھانا لے کر آؤ‘‘ فوراً دسترخوان بچھا دیا گیا خوشحال میاں نے چار چھ روٹیاں کھا کر ڈاڑھ گرم کی اور بیوی سے بولے ’’فوراً چلنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ ہمیں ابھی گھر کے لیے روانہ ہونا ہے۔ جس بھوت کو میں نے بھگایا ہے، وہ میرا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لیکن میرا بدلہ لینے کے لیے کہیں تمہارے پیچھے نہ پڑجائے‘‘۔ بیوی ڈر کے مارے فوراً اپنا سامان سمیٹ سماٹ کر چلنے کے لیے تیار ہوگئی۔ سارے گاؤں نے خوشحال میاں کو عقیدت کے ساتھ وداع کیا۔ خوشحال میاں سسر سے بولے ’’میری اس بھوت سے اب ٹھن گئی ہے۔ اب میں گاؤں میں قدم بھی نہیں رکھوں گا، ورنہ ممکن ہے وہ آپ لوگوں کو نقصان پہنچائے۔ آپ لوگوں کو جب اپنی بیٹی کو بلانا ہو، تو خود ہی آکر لے جائیے گا اور خود ہی پہنچا بھی جائے گا۔ میں آپ کو کسی مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔‘‘ اس طرح خوشحال میاں نے مستقبل میں کم خورا کی کا مظاہرہ کرنے کے خطرے کا سدباب بھی کردیا اور بیوی کو لے کر گھر آگئے۔ اماں کے لاڈلے اماں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانے کے لیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.