دانیال اور چڑیا
چھ سال کے دانیال کو چڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔ اڑتی، پھدکتی، چہچہاتی چڑیاں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتے۔ ہرے ہرے طوطے انہیں خاص طور پر اچھے لگتے تھے۔ ایک بار دانیال نے اپنی ممی سے کہا کہ وہ طوطا پالنا چاہتے ہیں۔ لیکن ممی نے بتایا کہ طوطے قیدی میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ انہیں اپنی آزادی بہت پیاری ہوتی ہے۔ گھر کے سامنے کے درختوں پر بہت سی چڑیاں گھر بناتی ہیں۔ خوب چوں چوں کرتی ہیں۔ انہیں دیکھا کرو۔ دانیال ممی کی بات مانتے تھے۔ انہوں نے طوطا خریدنے کی ضد چھوڑدی۔ بس چھٹی ملنے پر بالکونی پر کھڑے ہو جاتے اور طرح طرح کی چڑیوں کو دیکھتے۔ وہ سب برگد کے گھنے پیڑ پر بسیرا کرتی تھیں۔ پیڑ نے سب کو پناہ دے رکھی تھی۔
ایک دن دانیال شام کو کمرے میں آئے تو دیکھا ایک چڑیا ان کے کمرے میں آ گئی ہے۔ چھوٹی سی چڑیا تھی۔ کالے رنگ کی لیکن بڑی پیاری، بڑی بھولی۔ اس کا جسم سڈول تھا اور پتلی سی دم تھی۔ دم لگاتار اوپر نیچے ہل رہی تھی۔ اس چڑیا کو انہوں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
دانیال چڑیا کو کمرے میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ بھاگ کر ممی کو بلاکر لائے۔ انہوں نے بتایا یہ شاما ہے۔ بڑا میٹھا بولتی ہے اور خوب سیٹیاں بجاتی ہے۔ یہاں شاید بھٹک کر آ گئی ہے۔ چلو اسے واپس بھیج دیں انہوں نے چڑیا کو ہشکایا۔
’’یہ ممی چڑیا ہے یا بچہ چڑیا؟‘‘ دانیال نے پوچھا
’’یہ ممی چڑیا ہے۔‘‘
’’تب تو اسے ضرور بھیج دیجئے۔ اس کے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘ دانیال نے کہا اور ممی کے ساتھ وہ بھی چڑیا کو ہشکانے لگے۔
چڑیا کچھ گھبرا گئی تھی۔ شام گہری ہونے سے اسے دکھائی بھی کم دے رہا تھا۔ وہ کبھی کمرے میں لگی ٹیوب لائٹ پر بیٹھتی۔ کبھی پھدک کر دیوار گھڑی پر چلی جاتی۔ کبھی پنکھے کے پروں پر اور کبھی بڑی سی پینٹنگ کے فریم پر۔ دانیال اور ان کی ممی نے لاکھ کوشش کی لیکن وہ دروازے کی طرف گئی ہی نہیں۔
دروازہ بالکونی پر کھلتا تھا اور وہ ادھر ہی سے آئی تھی۔
’’ایسا کرتے ہیں فی الحال اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ صبح اسے راستہ مل جائےگا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آج رات یہ ہماری مہمان رہےگی۔‘‘
دانیال تو خوش ہو گئے۔
لیکن کھانا کھانے کے بعد سب لوگ کمرے میں آئے تو پاپانے کہا۔ اگر پنکھا چلایا گیا اور چڑیا اڑی تو اس سے ٹکرا سکتی ہے۔ ٹکرائی تو اس کے بازو ٹوٹ جائیں گے۔ ہو سکتا ہے مر بھی جائے۔ دانیال بہت پریشان ہو گئے۔ پاپا تب پنکھا نہیں چلائیں۔
’’گرمی بہت ہے۔‘‘ ممی پاپا نے فکر مند ہوکر کہا۔
’’ہم لوگ ایک رات ایسے ہی سو جائیں گے، بغیر پنکھے کے۔ کھڑکیاں کھول دیجئے۔ تھوڑی باہر کی ہوا آ جائےگی۔‘‘
دانیال نے تجویز پیش کی۔
ممی سمجھ رہی تھیں دانیال راضی نہیں ہوں گے۔ ان کی رحم دلی دیکھ کر وہ خوش ہو گئیں۔ اس رات کو پنکھا نہیں چلا۔ کچھ دیر لوگ الٹ پلٹ کرتے رہے پھر سو گئے۔ دانیال اس کو جانے کی وجہ سے سویرے اٹھتے تھے۔ اٹھتے ہی چڑیا کو دیکھا۔ وہ پنکھے کے پر پہ بیٹھی ہوئی تھی۔
’’اچھا ہوا جو پنکھا نہیں چلایا گیا‘‘ انہوں نے خوش ہوکر کہا۔
ممی نے چڑیا کو پھر ہشکایا۔ اس بار وہ تھوڑا سا ہی ادھر ادھر اڑی۔ جلد ہی اسے دروازہ نظر آ گیا۔ وہاں سے اڑکر وہ بالکونی سے نکلی اور سیدھی پیڑ پر جا بیٹھی۔ جاتے جاتے اس نے بڑی میٹھی سیٹی بجائی۔
’’ممی۔ ممی وہ کہہ رہی ہے تھینک یو۔‘‘ دانیال تالی بجا کر بولے۔ ’’اب اس کے بچے خوش ہو جائیں گے کہ ممی آ گئی۔‘‘ وہ جلدی جلدی اسکول جانے کے لئے تیار ہونے لگے۔ کلاس میں سب کو چڑیا کی کہانی سنانے کی جلدی جو تھی شاما چڑیا کی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.