دانیال کا گھوڑا اور ننھی رکشا
دانیال جب چار سال کے تھے تو ان کی سالگرہ پر کسی نے ایک گھوڑا تحفے میں دیا تھا۔ یہ لکڑی اور چمڑے سے بنا ہوا خوب بڑا سا گھوڑا تھا۔ اتنا بڑا کہ ایک چار سال کا بچہ اس پر سوار ہو سکے۔ اس پر باقاعدہ زین کسی ہوئی تھی۔ رکابیں تھیں اور باگ بھی۔ گھوڑے کی ایال اصلی بالوں کی تھی۔ ایال میں چھپا ہوا ایک بٹن تھا۔ بٹن دبانے سے گھوڑا آگے پیچھے حرکت کرنے لگتا تھا اور ٹپاٹپ کی آوازیں آتی تھیں۔ بالکل ایسی جیسی گھوڑا دوڑنے سے اس کی ٹاپوں سے نکلتی ہیں۔ دانیال اس تحفے سے سب سے زیادہ خوش ہوئے۔ اسکول سے آتے ہی اس پر سوار ہو جاتے اور کچھ دیر بعد ہی منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھاتے تھے۔ گھوڑا بہت مضبوط تھا۔ ڈھائی سال گزر گئے تھے لیکن ذرا بھی خراب نہیں ہوا تھا۔ دانیال اب بھی اس سے کھیلتے تھے۔ لیکن اب کبھی کبھی سوار ہوتے تھے۔ بہرحال وہ انھیں بہت عزیز تھا۔
ادھر دانیال کی دادی نے ایک نئی ملازمہ رکھی۔ اس کا نام مینا تھا۔ مینا گھر کی صفائی کرتی اور باروچی خانے میں اوپر کا کام کراتی تھی۔ مینا کی ایک چار سال کی بیٹی تھی۔ اس کا نام تھا رکشا۔ مینا اسے گھر پر اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر کام کرنے آتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی رکشا اس کے ساتھ آنے کی ضد کر بیٹھتی۔ تب اسے لے کر آنا پڑتا تھا۔ مینا اسے اس شرط پر لاتی تھی کہ وہ چپ بیٹھی رہےگی۔ ایک چھوٹی بچی کے لئے یہ بڑا مشکل کام تھا اور تکلیف دہ بھی۔ لیکن وہ ماں کے ساتھ باہر جانے کے لالچ میں مان جاتی تھی۔ وہ جلدی جلدی ہاتھ منہ دھلوا لیتی۔ مینا اس کو صاف ستھری فراک پہناتی اور ساتھ لے آتی۔ دانیال کی دادی اسے ٹافی یا بسکٹ دے دیتیں۔ کوئی ایسا کھلونا بھی جس سے اب دانیال نہیں کھیلتے تھے۔ لیکن رکشا کی نظریں گھوڑے پر لگتی رہتی۔ وہ اسے بہت پسند تھا۔ خاص طور سے اس کا جھولے کی طرح حرکت کرنا اور ٹپاٹپ کی آوازیں۔
ایک دن رکشا نے سب کی نظریں بچا کر گھوڑے پر چڑھنا چاہا۔ وہ چڑھ تو نہیں پائی لیکن اس کی باگیں پکڑ کر اس سے کھیلنے لگی۔ پھر اس نے گھوڑے کے بال سہلائے اور بٹن دبا دیا۔ اس نے کبھی دانیال کو بٹن دباتے دیکھا تھا۔ تپاٹپ کی آوازوں کے ساتھ گھوڑا حرکت کرنے لگا۔ رکشا کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو گیا۔ وہ تالی بجانے لگی۔ دانیال اس وقت اسکول سے آ چکے تھے اور کہیں آس پاس ہی تھے۔ گھوڑے کی ٹاپوں اور رکشا کی تالی کی آواز سن کر دوڑے ہوئے آئے۔ رکشا کو گھوڑے سے کھیلتا دیکھ کر بہت ناراض ہوئے۔ انہوں نے زور سے چلا کر کہا مینا، مینا، کہاں ہو تم۔ اسے دیکھو، اپنی بیٹو کو۔ میرا گھوڑا توڑ دےگی۔ مینا آئی تو انہوں نے کہا، ’’تم اسے یہاں کیوں لاتی ہو مینا۔ یہ میرے کھلونے چرا کر لے جائےگی۔‘‘ ’’نہیں لے جائےگی بھیا۔ ہم ہیں نا اور یہ روز نہیں آتی ہے۔‘‘ مینا نے کہا اور رکشا کو تھوڑا کھینچ کر گھوڑے سے الگ کیا۔ رکشا رونے لگی۔
ہنگامہ سن کر دانیال کی دادی وہاں آ گئیں۔
’’دانیال!‘‘ ان کے لہجے میں کچھ ناراضگی تھی۔
’’تم نے مینا کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ سوری کہو اور ہاں تم یہ مینا کا نام کیوں لیتے ہو۔ وہ تم سے بڑی ہے اسے دیدی کہا کرو۔‘‘
’’جانے دیجئے۔ اماں جی۔ بھیاابھی چھوٹے ہیں۔‘‘ مینا نے کہا۔
’’اتنے چھوٹے بھی نہیں رہ گئے۔ کچھ دن میں سات سال کے ہو جائیں گے۔ انہیں جاننا چاہئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‘‘
’’مینا تو نوکر ہے اسے ہم دیدی کیوں کہیں اور اس کی بیٹی کو گھوڑے سے کیوں کھیلنے دیں۔‘‘
دانیال نے منہ پھلاکر کہا۔
دادی وہیں ٹیریس پر رکھی کرسیوں میں سے ایک بیٹھ گئیں۔ ہاتھ پکڑ کر دانیال کو گود میں بٹھا لیا۔ پیار سے بولیں ’’بیٹا، محنت اور ایمانداری سے کام کرنے والا ہر انسان عزت کے لائق ہے۔ سب کا کام اپنی اپنی جگہ ضروری ہے۔ اگر مینا گھر کے کام میں مدد نہ کرے تو آپ کی ممی اپنے کام پر نہیں جا سکیں گی۔ وہ دانت کی ڈاکٹر ہیں۔ وہ بھی نوکری کرتی ہیں۔ دادی نے بہت پیار سے سمجھایا اور رکشا چھوٹی بچی ہے۔ اگر اس نے گھوڑا چھو لیا تو آپ کو چلانا نہیں چاہئے تھا۔ سمجھا کر بھی الگ کرسکتے تھے۔ بچے سب اچھے ہوتے ہیں۔ بچے سب کے ہوتے ہیں۔ آئی بات سمجھ میں؟‘‘
’’آئی دادی۔‘‘ دانیال دھیرے سے بولے۔
اچانک رکشا نے بھیں بھیں کر کے رونا شروع کر دیا۔ سب لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ دانیال، اس کی دادی، رکشا کی ماں۔ وہ اکیلی پڑ گئی تھی۔ اس سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔
’’روؤ مت رکشا۔ آؤ ہمارے گھوڑے کے ساتھ جھیل لو۔ ہم کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘ دانیال بولے۔
کہاں تو رکشا رو ہی تھی کہاں ہنسنے لگی۔ بچے سب ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ذرا میں رونا، ذرا میں ہنسنا۔ وہ بڑے معصوم ہوتے ہیں۔ کسی کے ہوں، کہیں ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.