درخت نے دی گواہی
بہت پرانے زمانے کی بات ہے شہر عراق میں دو گہرے دوست رہتے تھے۔ ایک کا نام عمران اور ایک کا نام عدنان تھا۔ عمران بہت سیدھا سادہ آدمی تھا اور۔۔۔ سب پر یقین کرنے والا اپنا جیسا ہی سب کو سمجھتا تھا۔ مگر عدنان بہت چالاک اور ہوشیار تھا۔ دونوں کی مختلف عادتوں کے باوجود دوستی نبھ رہی تھی ایک بار عمران کو کسی ضروری کام سے شہر کے باہر جانا پڑ گیا۔ جانے سے پہلے اسے خیال آیا کہ جو پونجی یعنی 8 ہزار اشرفیاں۔ اس زمانے میں بچوں روپے نہیں اشرفیا ہی چلتی تھی۔ ان پیسوں کا خیال آتے ہی عمران کو فکر لاحق ہوئی۔ وہ ان کو کہا چھپا کر رکھے۔ کیونکہ بینک وغیرہ کا رواج جب کہیں نہیں تھا۔ اس نے اپنے دوست سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا کہ مجھے اچانک جانا پڑ رہا ہے مگر ان اشرفیوں کا کیا کروں۔ کہاں رکھوں۔ کیا تم مدد کروگے میں تمہیں گواہ بنا کر ایک درخت کے نیچے یہ اشرفیاں چھپا کر رکھ دیتا ہوں تمہیں اس کی دیکھ بھال کرنی ہوگی ہو سکتا ہے مجھے آنے میں اور دن لگ جائیں تمہیں میں بتا کر اور اس کا خیال رکھنے کا کہہ کر جا رہا ہوں آکر واپس لے لوں گا۔ عدنان نے اس سے اشرفیاں گن کے لے لیں اور بحفاظت واپس کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ کئی مہینہ بعد جب عمران جو ان اشرفیوں کا مالک تھا اور بڑی مشکل سے جوڑ جوڑ کر اس نے ان پیسوں کو جمع کیا تھا۔ اب واپس آکر جب اس نے عدنان اپنے دوست سے ان کو مانگا تو عدنان نے کہا کیسے پیسے کیسی اشرفیاں؟ دراصل اتنے پیسوں کو دیکھ کر اس کی نیت بدل گئی تھی۔ عمران نے حیران ہو کر کہا۔ ارے بھئی وہی جو میری امانت تمہارے سپرد کر کے گیا تھا۔ فلاں درخت کے نیچے تمہارے ہاتھوں میں دی تھی رکھنے کو، عدنان نے اک دم بے مروتی سے اور غصہ سے کہا کیوں جھوٹ بولتے ہو۔ اپنا کام کرو مجھ پر غلط الزام اور بہتان تراشی بند کرو۔ تم نے مجھے کب اور کس کے سامنے اشرفیاں دی تھیں، مجھے تو یاد نہیں اب کوئی گواہ لاؤ۔ اب تو یہ سن کر عمران جو سیدھا سادہ تھا پریشان ہو گیا۔ اس کی کل کائنات اور جمع پونجی یہی تھی وہ سمجھ گیا عدنان اس کو ہضم کر کے مار لینا چاہتا ہے اب وہ کرے تو کیا کرے وہ پریشان ہو گیا کیونکہ عمران تو اس پر بھروسہ کرتا تھا اس لیے کسی کو گواہ بنایا نہ کسی کو بتایا تھا۔
اس نے سوچا میں شہر کے قاضی سے مشورہ کرتا ہوں وہ روتا ہوا شہر کے قاضی کے پاس پہونچا، سب بتایا اور فریاد کی۔ قاضی نے پوچھا کہ تم نے کیا کسی کو گواہ بنایا تھا جب عدنان کو اشرفیاں دی تھیں۔ عمران نے کہا قاضی صاحب خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں نے فلاں درخت کے نیچے اشرفیاں عدنان کو دی تھیں۔ میں نے کسی اور کو گواہ نہیں بنایا، وہ میرا دوست تھا اور میں اس پر بھروسہ کرتا تھا۔ اب قاضی صاحب نے فوری عدنان کو طلب کیا اور پوچھا کہ وہ اشرفیاں کہاں ہیں جو عمران نے رکھنے کو دی تھیں وہ مکر گیا اور کہا کیسی اشرفیاں مجھے تو کچھ نہیں دیا، نہ میں ان کے بارے میں کچھ جانتا ہوں۔ چاہے کوئی قسم لے لو۔ قاضی صاحب نے کہا ٹھیک ہے گواہ تو کوئی تھا نہیں۔ اب ایک ہی حل ہے وہ درخت گواہی دے جہاں اشرفیاں رکھی گئیں تھیں اور پھر جدائی ہوگئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.