Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دھوبی کی نادانی

اقصی لیاقت

دھوبی کی نادانی

اقصی لیاقت

MORE BYاقصی لیاقت

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں بہت ہی غریب دھوبی رہتا تھا۔ کپڑوں کی دھلائی کے ساتھ ساتھ اس کو آسمان کو قریب سے دیکھنے کا بہت شوق تھا وہ اور اس کی بیوی روز دھوبی گھاٹ پر کپڑے دھونے جاتے تھے۔ ایک روز جب اس کی بیوی کپڑوں کو سکھا رہی تھی اس کی نظر آسمان پر پڑی اور کیا دیکھتی ہے کہ آسمان سے ایک ہاتھی اڑتا ہوا زمین پر اتر رہا ہے اور جیسے ہی وہ زمین پر اترا تو وہ غائب ہو گیا۔ دو تین روز تک وہ یونہی ہاتھی کو زمین پر اترتا دیکھتی رہی۔ ایک رات اس نے یہ ماجرا دھوبی کو بتایا۔ دھوبی پہلے تو بہت حیران ہوا مگر پھر فیصلہ کیا کہ کل وہ اس ہاتھی پر نظر رکھیں گے کہ آیا یہ ہاتھی زمین پر کیوں اترتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے آخر ایسا کیا ہے؟

    اگلے دن دونوں شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ آسمان پر بار بار نظر دوڑانے لگے۔ آخر انتظار کا وقت ختم ہوا اور ان کو آسمان سے ہاتھی زمین پر اترتا نظر آہی گیا۔ دونوں اس کے پیچھے چل پڑے ہاتھی گنے کے کھیتوں میں گھس گیا اور خوب پیٹ بھر کر گنے کھانے لگا۔ ہاتھی کا پیٹ بھرا اور اڑنے کی تیاری کرنے لگا جیسے ہی اس نے اڑان بھری دونوں میاں بیوی نے بھی ہاتھی کی دم پکڑ لی اور ہاتھی کے ساتھ اڑنے لگے۔ ہاتھی آسمان کی بلندیوں کو پہنچا تو دھوبی کیا دیکھا ہے کہ ایک پہاڑ ہیرے سونے کے جواہرات سے چمک رہا ہے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اپنا خزانہ یہاں چھوڑ کر بھولے بیٹھا ہے۔ دونوں میاں بیوی کی آنکھیں دنگ رہ گئی۔ آخر ہاتھی پہاڑ پر اتر گیا۔ دونوں میاں بیوی بھاگ کر سونے پر ٹوٹ پڑے اور زیادہ سے زیادہ سونا اکٹھا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ رات کے بڑھتے اندھیرے سے پریشان ہونے لگے۔ اچانک ان کو خیال آیا کہ صبح ہوتے ہی وہ ہاتھی کی دم پکڑ کر زمین پر اتر جائیں گے۔ آخر صبح ہوئی اور ویسا ہی کیا جو انہوں نے ساری رات سوچتے گزار دی۔ خیر زمین پر اترے اور اپنے گھر کی طرف رواں دواں ہو گئے۔

    ایک غریب دھوبی جو دن بہ دن امیر ہوتا جا رہا تھا اس کو دیکھ کر سارا گاؤں حیران و پریشان ہو گیا کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ دھوبی اتنا امیر ہو گیا ہے۔ گاؤں کے لوگ دھوبی کے پاس آئے اور اس کے یوں اچانک امیر ہونے کا راز پوچھنے لگے۔ دھوبی ان کو کچھ نہ بتاتا۔ ایک دن دھوبی کسی کام سے شہر سے باہر نکل گیا۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ہمسائی، دھوبن کے پاس آئی اور باتوں باتوں میں خزانے کا راز اگلوا لیا۔ رات کو جب دھوبی واپس آیا دھوبن نے سارا ماجرا بتایا۔ دھوبی کو اس کی حرکت پر بہت غصہ آیا مگر اب بات ہاتھ سے نکل چکی تھی۔

    صبح سارا گاؤں دھوبی سے مدد مانگنے آ گیا کہ وہ ان کے ساتھ کھیتوں میں چلے اور ہاتھی کے ساتھ خزانے تک پہنچانے میں ان کی مدد کرے۔ یہ سب سننے کے بعد دھوبی کے دل میں لالچ پیدا ہو گئی کہ وہ ان کے ساتھ جاکے اور خزانہ اکٹھا کر کے لائےگا۔ یہ سوچ کر وہ ان کے ساتھ جانے کے لئے راضی ہو گیا۔ اگلی صبح سارے گاؤں والے کھیتوں کو نکل گئے اور آنکھیں آسمان پر جمائے بیٹھے تھے۔ ہاتھی زمین پر اتر اور گنے کھانے لگا۔ سب گاؤں والے اس تاک میں بیٹھے تھے کہ جیسے ہاتھی گنے کھا کے فارغ ہوگا وہ سب اس کی دم پکڑ کر اس خزانے تک پہنچ جائیں گے۔ جیسے ہی ہاتھی اڑنے لگا سب نے اس کی دم پکڑ لی۔ دھوبی سب سے آگے اس کی دم پکڑے تھا اور یوں اس کے پیچھے ایک لمبی قطار میں پورا گاؤں ایک دوسرے کو پکڑے ہاتھی کے ساتھ اڑے چلے جا رہے تھے۔

    سب گاؤں والے آپس میں باتیں کرنے لگے کہ وہاں اتنا خزانہ ہوگا کہ ہم سب لے کر آ سکیں گے کسی نے کہا خود سے سوچنے سے اچھا ہے کہ ہم کیوں نہ دھوبی سے پوچھ لیں۔ ایک گاؤں والے نے پوچھا دھوبی وہاں کتنا سونا ہے؟ دھوبی خزانے کی لالچ میں گاؤں والوں کے ساتھ چل دیا تھا۔ دم کو چھوڑتے ہوئے ہاتھوں کے زاویے سے کہنے لگا ’’اتنا زیادہ‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ سب زمین پر سر کے بل گر پڑے اور ہاتھی مزے سے آسمان میں اپنی اڑان بھرنے لگا اور گاؤں والوں کو ان کی لالچ کی سزا مل گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے