Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دو موتیوں کا تحفہ

اشتیاق احمد

دو موتیوں کا تحفہ

اشتیاق احمد

MORE BYاشتیاق احمد

    آج نوید کی سالگرہ تھی، لیکن وہ شخت بے چین تھا۔ مہمانوں کی آمد شروع ہوچکی تھی۔ اس کے والد جج امتیاز علی مہمانوں کے آگے بڑھ بڑھ کر استقبال کر رہے تھے۔ انہوں نے بیٹے سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کا عزیز ترین دوست ابھی تک نہیں آیا۔

    جج صاحب کا منہ بن گیا۔ وہ اپنے بیٹے کے دوست کو اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ ایک غریب بوڑھیا کا بیٹا تھا، جو لوگوں کے گھروں میں محنت مزدوری کر کے مشکل سے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ پالتی تھی۔ وہ ان کے بیٹے کا کلاس فیلو تھا اور بہترین دوست بھی۔ جج صاحب اس دوستی کو اچھی طرح سے نہیں دیکھتے تھے۔

    نوید بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے کل ماجد کو ٹھیک وقت پر پہنچ جانے کی خوب اچھی طرح تاکید کی تھی اور اس نے وعدہ بھی کر لیا تھا۔

    قیمتی کپڑوں میں ملبوس جج صاحب کے دوست اور عزیز اپنے بچوں اور بیویوں کے ساتھ آرہے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں تحفے کا پیکٹ تھا، جو وہ اندر آتے ہی نوید کے ہاتھ میں دے رہے تھے۔ نوید بے خیالی کے عالم میں ان کے تحائف پکڑ رہا تھا۔ اس کا دل گھبرا رہا تھا وہ سوچ رہا تھا۔

    آخر ماجد اب تک کیوں نہیں آیا۔ کہیں اس کی ماں کی طبیعت خراب نہ ہوگئی ہو۔ اس کی ماں اکثر بیمار رہتی تھی۔ یا پھر وہ خود نہ بیمار ہوگیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ادھر آرہا ہو۔۔۔ اور خدانخواستہ کسی حادثے میں چوٹ نہ کھا بیٹھا ہو۔

    غرض اس قسم کے خیالات اس کے ذہن میں آتے رہے۔ جب بھی کوئی دروازے میں داخل ہوتا، اس کی آنکھوں میں امید کی چمک نظڑ آتی لیکن پھر ماجد کو دروازے میں نہ دیکھ کر وہ چمک غائب ہوجاتی، اس کا منہ لٹک جاتا۔

    آخر جب اس سے رہا نہ گیا تو وہ جج صاحب کے پاس گیا اور گھبرائے ہوئے لہجے میں ان سے بولا:

    ’’ابا جان! نہ جانے کیوں نہیں آیا۔ میں ذرا جاکر اسے لے آؤں۔‘‘

    ماجد۔۔۔ماجد۔۔۔ ماجد۔۔۔ آخر اس بھوکے ننگے لڑکے کے نہ آنے سے کون سا فرق پڑ جائے گا، اور پھر تم اتنے مہمانوں کو چھوڑ کر اس دو ٹکے کے چھوکرے کو لینے جاؤگے۔ مہمان کیا خیال کریں گے بیٹا۔ وہ نہ آئے گا تو کون سی قیامت آجائے گی۔‘‘ جج صاحب نے ناراض ہو کر کہا۔

    اب وہ انہیں کیسے بتاتا کہ ماجد کا نہ آنا اس کے لیے قیامت آنے کے برابر ہی تھا۔ اسے اپنے دوست سے بہت محبت تھی۔

    وقت گزرتا چلا گیا۔ سب مہمان آ چکے تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ کب نوید کیک کاٹے اور پارٹی شروع ہو۔ آخر جج صاحب جھنجھلا اٹھے۔ انہوں نے نوید سے سخت لہجے میں کہا:

    ’’چلو نوید! کیک کاٹو۔ سب لوگ انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

    نوید مجبور ہوگیا۔ اس نے آخری بار دروازے کی طرف دیکھا، اور پھر بالکل مایوس ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں دو آنسو امڈ آئے جو گالوں پر لڑھک کر زمین پر گر گئے۔ اس نے چھری اٹھائی اور کیک کاٹ کر موم بتیاں بجھانے لگا۔ سب لوگ تالیاں بجا بجا کر اسے مبارک باد دینے لگے، لیکن وہ خاموش تھا۔ اس کے چہرے پر خوشی کی ہلکی سی جھلک بھی نہیں تھی۔

    ساری رات وہ سو نہ سکا۔ صبح ہوئی تو ناشتا کر کے سکول پہنچا۔ اس نے اس درخت کے نیچے دیکھا، جہاں وہ اسکول لگنے سے پہلا ملا کرتے تھے۔

    ماجد درخت کے نیچے موجود تھا۔ اس کے قدم اس کی طرف اٹھتے چلے گئے۔ ماجد کے پاس پہنچ کر وہ رک گیا اور خاموش کھڑا ہوگیا۔ ماجد نے اس کے قدموں کی آہٹ سن کر اس کی طرف دیکھا اور اسے اپنی طرف دیکھتے ہوئے نہ پاکر تڑپ اٹھا:

    ’’مجھ سے ناراض ہو۔۔۔‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔

    ’’ہاں۔‘‘ نوید اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔

    ’’میں ہوں بھی اسی قابل۔ ایک غریب بوڑھیا کے بیٹے کو حق بھی کیا ہے کہ ایک امیر باپ کے امیر بیٹے کو دوست بنائے۔‘‘

    ’’آخر ایسی کیا بات تھی کہ تم سالگرہ میں نہیں آئے۔ میں نے تمہارا کتنا انتظار کیا۔ مجھے بتاؤ ماجد۔ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں ساری رات جاگتا رہا ہوں، تم نے مجھے اتنی خوفناک سزا کیوں دی۔ تم نے مجھ پر یہ ظلم کیوں کیا۔‘‘

    جواب میں ماجد کچھ بھی نہ بولا تو وہ بے چین ہوگیا۔ وہ گھٹنوں کے بل اس کے پاس بیٹھ گیا۔

    ’’کیا ماں بیمار تھی۔ اس کے علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں۔‘‘

    ’’نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘

    ’’تو پھر تم ضرور اس وجہ سے نہیں آئے ہوگے کہ ابا جان تمہیں پسند نہیں کرتے۔‘‘

    ’’نہیں، یہ بات نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں، تمہارے والد صاحب میری اور تمہاری دوستی کو اچھا نہیں سمجھتے۔ لیکن تم تو مجھے پسند کرتے ہو۔ پھر بھلا میں ان کی وجہ سے کیوں رکتا۔ میں تو اس سے پہلے بھی کئی بار تمہارے ہاں جا چکا ہوں۔

    ’’تو پھر ۔۔۔ آخر کیا وجہ تھی۔ خدا کے لئے مجھے بتاؤ۔‘‘

    ’’دراصل میرے پاس تمہیں۔۔۔‘‘ وہ پھر رک گیا۔

    اب جو نوید نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ گھبرا گیا۔ نوید کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آنسو اس کے گالوں پر لڑھک آئے۔ نوید نے جلدی سے جیب میں سے رومال نکالا اور اس سے پہلے کہ آنسو زمین پر گرتے، اس نے انہیں رومال میں لے لیا۔

    ’’ارے ارے، تم تو رونے لگے۔ دیکھو اگر میری کسی بات سے تمہیں دکھ پہنچا ہے تو مجھے معاف کردو۔ چلو میں نہیں پوچھتا، سالگرہ میں نہ آنے کی وہ ۔۔۔ جانے دو۔‘‘

    نہیں نوید ۔۔۔ میں تمہیں بتاتا ہوں۔۔۔ دراصل میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کوئی تحفہ نہیں تھا۔‘‘

    ’’اوہ۔۔۔ اف ظالم ۔۔۔ تم نے یہ کیا کیا ۔۔۔ کیا تم صرف اس وجہ سے نہیں آئے۔۔۔ پاگل ہو تم ۔۔۔ اچھے خاصے پاگل ۔۔۔ بے وقوف بھلا دوست کسی دوست کے تحفے کا بھوکا ہوتا ہے۔ اس کے لئے تو بس دوست ہی سب کچھ ہوتا ہے اور پھر تحفہ تو تم نے مجھے اس وقت بھی دے گیا ہے۔‘‘ نوید مسکرا کر بولا۔

    ’’تحفہ۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔ کیسا تحفہ۔۔۔‘‘ ماجد نے حیران ہو کر کہا۔

    ’’ہاں یہ دیکھو۔۔۔ دو موتیوں کا تحفہ۔۔۔ جو تمہاری آنکھوں سے نکلے ۔۔۔ یہ میں نے رومال میں لے لیے ہیں۔۔۔ ان سے اچھا تحفہ بھی بھلا کوئی ہوسکتا ہے۔۔۔ پاگل کہیں کا ۔۔۔ آ میرے گلے سے لگ جا۔‘‘ نوید نے بیتابی سے کہا۔

    ماجد بے اختیار ہو کر اٹھا، اور اپنے دوست نوید کے گلے لگ گیا۔

    دونوں دوست بہت خوش تھے!

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے