ڈولی ڈولی کلینک
یہاں پر بیمار گڈوں اور گڑیوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
ببلی نے ڈولی کی طرف دیکھا اور پھر پوسٹر کو ہوا میں لہرا دیا۔ پوسٹر پر لکھا تھا ’’ڈولی ڈول کلینک‘‘، نیچی کی سطر میں سرخ پوائنٹر سے لکھا تھا۔ ’یہاں پر بیمار گڈوں اور گڑیوں کا علاج کیا جاتا ہے۔‘
’’ہاں پوسٹر تو تم نے اچھا بنایا ہے۔ مگر اس پر فیس تو جلی حروف میں لکھو ورنہ تو محلے کی ساری بچے پارٹی یہاں دھاوا بول دےگی۔ فیس ہوگی تو لوگ سوچ سمجھ کر آئیں گے۔ بلاوجہ کا رش لگ جانا مجھ کو پسند نہیں۔‘‘
ڈولی نے ناک پر بغیر شیشوں کا چشمہ جمایا اور پھر خود ہی فیس دس روپے سیاہ مار کر سے لکھا اور پھر گھر کے باہر کے گیٹ پر یہ پوسٹر لگا دیا گیا۔
ببلو نے اپنی گیلری سے جو یہ منظر دیکھا تو فوراً ہی دوڑتا ہوا آیا اور مسکرائے بنا نہ رہ سکا وہ فوراً ہی الٹے قدموں اپنے گھر لوٹا، کھلونوں کے ڈبے سے ایک سٹریل سا میلا کچیلا گڈا نکلا اور ڈولی ڈول کلینک کی انتظارگاہ میں بیٹھ گیا۔ ببلی ہیلپر کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھی۔ جبکہ ڈولی نے گھنٹی بجاکر پہلے نمبر کو بھیجنے کا پیغام بھیجا۔
’’یہ کیا کچرا اٹھا لائے؟‘‘ ببلو کے ہاتھ میں انتہائی میلا کچیلا سڑیل سا گڈا دیکھ کر ببلی نے منہ بنایا اور پھر اندر جانے کا اشارہ کر دیا۔ ببلو خراماں خراماں اندر گیا۔ ڈولی صاحبہ چھوٹی سی میز کے پیچھے راکنگ چیئر پر چشمہ لگائے کوٹ پہنے بیٹھی تھیں۔ ڈولی کلینک کے سارے کھلونا آئٹم اسٹیتھو سکوپ سے لے کر تھرما میٹر تک سب کچھ میز پر سلیقہ سے جما ہوا تھا۔
’’یہ یہ کیا اٹھا لائے؟‘‘ ڈولی نے گندے سے میلے کچیلے گڈے کو دیکھ کر کراہیت سے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحبہ گھن نہ کریں بلکہ اس کا علاج کریں۔‘‘ ببلو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کہیے کیا بیماری ہے ان کو۔‘‘ ڈولی نے اب کے ذرا سنجیدگی سے کہا۔
’’اصل میں اس کا بائی پاس ہوا ہے اور بلڈ پریشر کا بھی مریض ہے، ذیابیطس کی بھی شکایت ہے۔ نزلہ زکام، گلے میں درد بھی ہے ٹانگوں میں لنگ بھی ہے اور گردے بھی خراب ہیں۔ سانس کی بھی تکلیف ہے۔ سر میں درد بھی بتاتا ہے۔ اسے اکثر خارش بھی رہتی ہے۔ ناخن تو اس کے ہیں ہی خراب، جھک کر چلتا ہے۔ آنکھیں بھی ٹھیک نہیں۔۔۔‘‘ ببلو بولتا جا رہا تھا اور ڈولی کا دماغ پھٹ رہا تھا۔
’’کوئی ایسی بیماری ہے جو اس کو نہ ہو؟‘‘ ڈولی نے ببلو کو نہ درکا دیکھ کر کہا۔ جواب میں ببلو نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’تو پھر ایسا کریں ایک گڑھا کھود کر اس کو زندہ دفنا دیں۔‘‘ ڈولی نے ببلو کی چالاکی دیکھتے ہوئے غصہ سے کہا کیونکہ ڈولی نے میز پر ایک طرف رنگ برنگی بنٹیز گولیوں کی شکل میں رکھی تھیں جبکہ رنگ برنگ کے سیرپ کے لئے دو تین قسم کی کولڈرنک کی بوتلیں منگوائی تھیں اور ببلو کی خواہش تھی کہ چھوٹی شیشیوں میں سے تین چار کولڈرنک کے الگ الے ذائقے بھی ملیں اور وہ دس روپے دے کر ڈھیر ساری بنٹیز بھی اڑالے۔
’’ڈاکٹر صاحبہ آپ تو ڈاکٹر ہیں پھر بھی ایسے مشورے دے رہی ہیں؟‘‘ ببلو نے انتہائی مسکین سی شکل بناکر کہا۔ جبکہ ڈولی نے اس گڈے کے علاج سے انکار کرتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ نیکسٹ(NEXT) ڈولی چلائی، ببلی نے دوسرے مریض کو اندر بھیجا اور برابر والے گھر کی لال پونی والی تانیہ اپنی باربی ڈول لئے ڈولی کے سامنے تھی۔
’’جی تانیہ بی بی کیا ہوا آپ کی گڑیا کو؟‘‘ ڈولی نے دھیرے سے پوچھا اور دائیں طرف دیکھا ببلو اب تک اپنا میلا کچیلا گڈا لئے کھڑا تھا۔
’’میں کہتی ہوں آپ یہاں سے جائیں اور اس گندے گڈے کو کسی نالے میں پھینک دیں آپ کو دوائی کسی صورت نہیں دی جائےگی، کمال کرتے ہیں کوئی ایک بیماری ہو تو دوا بھی دی جائے۔‘‘
’’گیٹ آؤٹ ‘‘ ڈولی چلائی اور ببلو نے بھی وہاں سے دوڑ لگا دی۔
’’دراصل یہ میری باربی ڈول رات کو سوتی نہیں ہے کہتی ہے پوری رات اس کو گھمایا جائے کبھی چڑیا گھر تو کبھی سند باد کل تو ساحل سمندر کے لئے اس نے میرا ناک میں دم کر دیا اور تو اور فرمائشیں بھی ایسی کہ کبھی پزا تو کبھی ہاب ناب (HOBNOB) کا چاکلیٹ کیک۔‘‘ تانیہ نے ایک ادا سے بڑوں کی طرح اپنے بال لہرائے۔
’’لیکن محترمہ یہ تو بتائیں کہ اسے بیماری کیا ہے۔‘‘ ڈولی نے زچ ہوکر کہا۔
’’بیماری تو اسے کوئی بھی نہیں بس ضدی بہت ہے۔ کوئی ضددور کرنے کی دوا دے دیں۔‘‘ تانیہ نے میز کے درمیان میں رکھی ہوئی کولڈرنگ کی بوتلوں کو ندیدے پن سے دیکھا اور پھر دس روپے آگے بڑھائے پھر ایک چھوٹی سی بوتل میں دو گھونٹ اور رنج ڈرنک کی بنٹیز بھی گولی کی شکل میں لے کر وہاں سے روانہ ہوئی۔
تانیہ کا باہر نکلنا تھا کہ جوق در جوق بچوں کا جھنڈ کلینک میں جمع ہونا شروع گیا۔ مانی اپنا گڈا لئے پریشان بیٹھا تھا۔ اس کے ننھے منے چہرے پر بےتحاشہ فکر مندی کے آثار تھے۔ مونا نے اس کو ٹہوکا دیا اور وجہ دریافت کی۔
’’دراصل مجھے اس گڈے کی دوالینی ہے، ببلو سے سنا ہے کہ ڈولی زیادہ بیماریاں بتانے سے ناراض ہو جاتی ہے اور دوا نہیں دیتی۔ اس لئے کوئی بھی بیماری سمجھ نہیں آ رہی ہے۔‘‘ مانی نے روانی سے اپنی پریشانی بتائی۔ جواباً مونا نے گڈے کی ایک ٹانگ مروڑ دی۔
’’جاؤ اور ڈاکٹر ڈولی سے کہنا کہ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔‘‘
’’بائیں! یہ تو مسئلہ ہی حل ہو گیا۔‘‘ مانی نے احسان مندی سے مونا کی طرف دیکھا اور ڈاکٹر ڈولی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
’’جی کیا بیماری ہے ان کو؟‘‘ ڈولی نے اسٹیتھو سکوپ نکالا۔۔
’’اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔‘‘ مانی نے رسان سے کہا۔
’’اور کچھ؟‘‘ ڈولی نے پھر پوچھا جواب میں مانی خاموش رہا۔
’’نزلہ، زکام اور بخار؟‘‘ ڈولی نے پھر سوال کیا اور مانی نے نفی میں سرہلا دیا۔
’’کھانسی کی شکایت؟‘‘ ڈولی پھر چلائی مانی کا سر ایک مرتبہ پھر نفی میں ہل رہا تھا۔
’’سینے کا کوئی مرض؟‘‘ ڈولی کو بے تحاشہ غصہ آ رہا تھا۔ کوئی بھی مریض ایسا نہیں تھا کہ تمیز سے سچ مچ کی بیماری کاٹچ دے۔
’’دراصل ببلو نے بتایا تھا زیادہ بیماریاں بتانے سے آپ ناراض ہوجاتی ہیں اور دوا بھی نہیں دیتی ہیں۔‘‘ مانی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’لیکن مجھے تو ہر قیمت پر دوا چاہئے اور خاص کر وہ والی۔‘‘ مانی نے وائٹ ڈرنک کی شیشی کی طرف اشارہ کیا اور دس روپے بڑھائے۔
ڈولی نے تین سال بنٹیز اور ایک شیشی میں تھوڑی سی کولڈرنک اسے دیتے ہوئے کہا: ’’جائیے اور دوبارہ بیماریاں سوچ کر آئیےگا۔‘‘ ڈولی نے بیزاری سے کہا اور اسٹیتھوسکوپ کو کان پر لگایا۔
کوئی بھی اسٹیتھو سکوپ والا مریض نہیں آ رہا کاش اب جو بھی آئے اسے بخار ضرور ہو۔ ڈولی نے دل ہی دل میں سوچا۔ کہ یکایک نبیہہ اپنی سنہری گڑیا کے ساتھ حاضر ہوئی۔
’’نبیہہ تمہاری گڑیا کو بخار ضرور ہونا چاہئے دوسری صورت میں میں دوائی نہیں دوں گی حد ہو گئی بھلا اسٹیتھوسکوپ میں کب استعمال کروں گی؟ یہاں تو ہر کوئی منفرد بیماریوں کے ساتھ حاضر ہے ابھی تو میں نے کسی کو انجکشن بھی نہیں لگایا۔‘‘ ڈولی نے نبیہہ سے کہا۔
’’لیکن میری گڑیا کو بخار تو نہیں ہے۔ بس یہ شدید قسم کے ندیدے پن کا شکار ہے۔ جس کسی کو کوئی اچھی چیز کھاتے دیکھا فوراً اپنی نیلی آکھوں سے گو؟رنا شروع کر دیتی ہے کہ کھانے والے کی آئسکریم پگھل جائے۔ چاکلیٹ گر جائے اور کولڈ ڈرنک الٹ جائے۔‘‘ نبیہہ نے اپنے ندیدے پن کو گڑیا پررکھ کر بیان کیا اور رنگ برنگی بنیٹز کو دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیری۔
’’لاؤ میں اس کا چیک اپ کروں۔ ڈولی نے اسٹیتھو سکوپ کا شوق پورا کیا۔ اسے دوائی کی ضرورت نہیں ہے اسے تو انجکشن لگےگا۔‘‘ ڈولی نے حتمی رائے دی۔ ’’ٹیکو ہے انجکشن لگے تو لگے مگر گولیاں اور سیرپ بھی چائیے۔ نبیہہ نے کولڈرنک کی طرف ندیدے پن سے دیکھا۔
’’لیکن یہ تو صرف انجکشن سے ٹھیک ہو جائےگی۔‘‘ ڈولی نے استفسار کیا۔ ڈولی کو ہمیشہ سے نبیہہ کے ندیدے پن سے چڑ تھی ۔’’ مگر میں تو اس کی دوائی لے کر رہوں گی ‘‘ نبیہہ کی نظریں ابھی تک بنٹیز پر تھیں۔
’’نہیں دوں گی تو تم لوگی کیسے‘‘ ڈولی کو بھی غصہ آ گیا۔
’’میں نے اس کا علاج انجکشن تجویز کیا ہے گولیاں اور دوائی نہیں۔‘’ ڈولی چیخی۔
’’لیکن ڈاکٹر انجکشن کے ساتھ گولیاں اور دوائی بھی دیتا ہے۔ یہ تو کوئی انٹرنیشنل کلینک لگتا ہے کہ دس روپے دے کر سوئی چبھوا کر چلے جاؤ۔ ایسے ہی منہ روکھا لے کر۔ اگر ان دوائیوں کو صرف دیکھ کر ہی دل للچانا ہے تو اس میں واٹر کلر بھر کر رکھ دیتیں اگر تم نے دوائی نہیں دی تو میں یہ ساری دوائیاں گرا دوں گی۔‘‘
اب کے نبیہہ محاذ آرائی پر اتر آئی اور گڑیا کی مدد سے ڈولی کی ٹیبل کو ایک دھکا دیا۔ ساری چیزیں نیچے گر گئیں۔ باہر بیٹھے ہوئے سارے بچے جو اپنے گڈے گڑیاں لئے بیٹھے تھے جھٹ سے اندر آئے کچھ صلح جو بچوں نے بیچ بچاؤ کروایا۔ لیکن اکثریت فرش پر لڑھکی ہوئی بنٹیزچن چن کر رکھا رہے تھے۔ جبکہ کولڈرنک کی رنگ برنگی بوتلیں فرش پر گری ہوئیں ڈاکٹر ڈولی کی حالت زار پر سچ مچ کے آنسو بہا رہی تھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.