دوستی
’’ابو! کل سے میں اسکول نہیں جاؤں گا‘‘ میرے بیٹے احمد نے تقریباً بستہ ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا۔ ’’ارے، کیوں بھئی کیا ہوا؟‘‘ میں نے دیوار پر لگے کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔ اسکول سے چھٹی ہوگئی تھی۔ احد نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ منہ پھلا کر میرے پاس آبیٹھا۔ ’’ارے بھئی بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے۔ کیا ماسٹر صاحب نے مارا۔۔۔؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ احمد نے روٹھے سے انداز میں جواب دیا۔
’’تو پھر۔۔۔‘‘ میں نے اس کا پچکارا۔ ’’وہ ۔۔۔سورج ہے نا جو میری کلاس میں پڑھتا ہے‘‘ احمد نے کہا۔
’’تو۔۔۔‘‘ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’اس نے آج پھر میرا کھانا کھا لیا۔۔۔ بھکڑ کہیں کا‘‘ احمد نے کہا۔
’’پھر کیا ہوا بیٹا وہ تمہارے ساتھ ہی تو پڑھتا ہے، اگر اس نے تمہارے لنچ بکس میں سے کچھ لے لیا تو کوئی بات نہیں‘‘ میں نے پیار سے سمجھایا۔ ’’وہ اپنا لنچ بکس نہیں لاسکتا ہے کیا؟‘‘ احمد نے تنک کر کہا۔
’’کوئی بات نہیں کل تم اس کے لنچ بکس میں کھا لینا‘‘ میں نے کہا۔
’’وہ اپنا لنچ بکس کبھی نہیں لاتا‘‘ احمد نے غصے سے کہا۔
’’اچھا۔۔۔کل میں تمہارے اسکول آؤں گا۔ تمہارے ماسٹر سے بات کروں گا۔۔۔ ٹھیک ہے!‘‘
میں نے اسے ٹال دیا۔ ’’اور۔۔۔ اور میری ربڑ پنسل بھی بستے میں سے نکال لیتا ہے‘‘ احمد نے مزید شکایت کی۔
’’اچھا۔۔۔ اچھا میں کل دیکھ لوں گا‘‘ میں نے کہا۔
اتنے میں اس کی امی کمرے سے باہر آگئی۔ ’’اجی آپ اس کی کیا سنتے ہیں۔۔۔ یہ تو روز اسی طرح کی شکایتیں کرتا ہے، ویسے اگر آپ کل جائیں گے تو پتا کرنا کون بچہ ہے جو احمد کو تنگ کرتا ہے؟‘‘
نماز کا وقت ہوگیا تھا میں نے اٹھتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہے۔۔۔‘‘
اگلے روز میں احمد کے اسکول جانے کے ایک گھنٹے بعد اس کے اسکول جاپہنچا۔ اسکول پاس ہی تھا، اس لیے تقریباً سارے ماسٹر مجھے جانتے ہی تھے۔ میں احمد کے انچارج سے ملا اور انہیں مختصراً بتایا۔ انہوں نے فوراً ایک لڑکے کو بلایا اور ساتھ میں احمد کو لانے کو کہا۔ کچھ دیر بعد دونوں آگئے۔
’’کیا یہی ہے لڑکا؟‘‘ انچارج صاحب نے احمد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی سر۔۔۔‘‘ احمد نے تصدیق کی۔ ’’سورج ۔۔۔خبردار جو آئندہ تمہاری شکایت آئی‘‘ انچارج نے اسے گھرکا۔ ’’ارے۔۔۔نہیں نہیں ماسٹر جی میرا مطلب یہ نہیں تھا میں تو صرف جاننا چاہتا تھا کہ ایسا کیوں کرتا ہے یہ بچہ‘‘ میں نے دخل اندازی کی ’’تم لوگ جاؤ بیٹا‘‘
وہ دونوں اپنی اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئے۔ احمد مایوس تھا شاید وہ امید کر رہا تھا کہ سورج کو مار پڑے گی۔
میں انچارج کو ایک طرف لے گیا۔ انچارج نے کرسی پر بیٹھے ہوئے مجھے بھی کرسی پیش کی۔ ’’کیا بتاؤں رمضان صاحب ۔۔۔ سورج اور اس جیسے دو تین اور بچے ہیں غریب گھروں کے۔ والدین مزدوری کرتے ہیں مگر اتنا پورا نہیں پڑتا کہ روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں، اکثر میں جیب سے ان بچوں کو کاپی پنسل لے کر دیتا ہوں یا پھر آپ جیسے کسی ہمدرد سے بستہ اور وردی کا انتظام کروا دیتا ہوں‘‘ انچارج نے تفصیل سے بتایا۔ ’’کوئی بات نہیں ماسٹر جی آپ آئندہ بھی مجھ سے کہہ دینا‘‘ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد میں وہاں سے اٹھ آیا۔
گھر آکر میں نے احمد کی ماں کو بتایا۔ اس نے بھی ہمدردی جتائی۔ دوسرے روز احمد کے اسکول جانے کے فوراً بعد میں اسکول کے گیت پر جا پہنچا۔ ابھی بچے آرہے تھے۔ میری نظریں سورج کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ مجھے پتا تھا کہ وہ دو محلے چھوڑ کے اسکول آتا ہے جیسا کہ کل انچارج نے بتایا تھا۔ اچانک مجھے سورج آتا دکھائی دیا جیسے ہی وہ نزدیک پہنچا میں نے اسے آواز دی۔
’’سورج۔۔۔ یہاں آؤ‘‘ وہ مجھے دیکھ کر گھبرایا ’’ڈرو نہیں بیٹے یہاں آؤ‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔ وہ میرے پاس آگیا۔ میں نے ہاتھ میں پکڑے دو پیکٹ اسے دیتے ہوئے کہا ’’اس میں ایک پیکٹ احمد کے لئے اور دوسرا تمہارا ہے۔ اس میں ٹافیاں اور بسکٹ ہیں۔۔۔ سمجھے‘‘ اس نے میری طرف ناسمجھی کے عالم میں دیکھا۔ میں نے مزید کہا ’’بیٹے یہ تم نے احمد کو اپنی طرف سے دینا ہے اور کچھ نہیں کہنا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ ’’جی۔۔۔‘‘ اس نے کہا اور اسکول کے اندر چلا گیا۔ اس نے ایک بار پلٹ کر میری طرف دیکھا، اس کے چہرے پہ مجھےہلکی سی خوشی نظر آئی۔ دوپہر کو کھانا کھاتے ہوئے میں نے کلاک کی طرف دیکھا ایک بجنے والا تھا۔ احمد کی چھٹی ہونے والی تھی۔ کچھ دیر کے بعد اچانک دروازہ کھلا اور احمد لگ بھگ دوڑتا ہوا میری طرف آیا ’’ابو جی۔۔۔ ابو جی‘‘ اس نے بستہ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھئی کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
ابوجی۔۔۔وہ سورج ہے نا۔۔۔پتا ے اس نے آج کیا کیا!‘‘ میں نے انجان بن کر پوچھا ’’کیا۔۔۔؟‘‘ اس نے آج مجھے گفٹ دی‘‘ احمد نے خوشی سے کہا۔
’’ہوں۔۔۔ تو تمہاری دوستی سورج سے ہوگئی‘‘ میں نے اسے چھیڑا ’’جی ابو۔۔۔وہ بہت اچھا ہے، اب وہ میرا دوست بن گیا ہے‘‘ احمد نے کہا۔
’’ٹھیک ہے بیٹے، اب اس سے لڑنا نہیں اور اگر وہ کھانے کی کوئی چیز مانگے تو دے دینا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ میں نے اس کو پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’جی ابو، اب میں پنا لنچ بکس بھی اسے دوں گا۔‘‘
’’ارے نہیں، آدھا دینا ورنہ۔۔۔ تمہاری امی خفا ہوںگی‘‘ یہ سن کر احمد ہنسنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.