Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دم کٹ گئی پر جھڑ گئے پھرتے ہیں لنڈورے

حیات اللہ انصاری

دم کٹ گئی پر جھڑ گئے پھرتے ہیں لنڈورے

حیات اللہ انصاری

MORE BYحیات اللہ انصاری

    جنگل میں ایک اسکول تھا۔ وہاں دو مور پڑھتے تھے۔ ہرا مور اور لال مور۔ دونوں بڑے خوبصورت تھے۔

    اسکول میں طوطا، مینا، کوا اور جگنو بھی پڑھتے تھے۔ لال مور کی ان سب سے دوستی تھی۔ جب اسکول میں چھٹی ہو جاتی تھی تو یہ پانچوں چھلی چھلیا کھیلتے۔

    لال مور کا کوئی دوست اگر بیمار پڑ جاتا تو وہ اس کے گھر جاتا اور اپنا ناچ دکھا دکھا کر اس کا جی ایسا بہلا تاکہ وہ اچھا ہو جاتا۔

    ہرے مور سے کسی کی دوستی نہیں تھی نہ تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چھلی چھلیا کھیلتا اور نہ کسی بیمار کے گھر آتا جاتا!

    ایک دن سب چڑیوں نے ہرے مور سے کہا’’آج تم کو بھی کھیلنا پڑےگا۔‘‘

    بہت کہنے سننے سے وہ راضی ہو گیا۔

    کھیل ہونے لگا۔ تھوڑی دیر میں ہرا مور چور بن گیا۔ داؤں جو دینا پڑا تو یہ دل ہی دل میں بہت بگڑا۔ کہیں مینا کا پاؤں اس کی دم پر پڑ گیا۔ پھر وہ آگ بگولا ہو گیا۔ لگا مینا کو اندھا اور بدتمیز کہنے اور دوڑا مارنے۔ سب نے بڑی مشکل سے اس کو روکا۔ وہ خفا ہو کر چلا گیا۔

    اس دن سے ہرا مور بالکل الگ تھلگ رہنے لگا!

    تھوڑے دنوں کے بعد لال مور، ہرا مور، طوطا مینا، کو اور جگنو سب پڑھ سیکھ کر اسکول سے چلے گئے اور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔

    ہرے مور اور لال مور کے بھاری بھاری چمکدار میں نکل آئیں۔ وہ خوب ناچنے لگے اور باغوں میں گھومنے لگے۔

    ایک دن ہرے مور اور لال مور دونوں نے باغ میں مورنی کو دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں۔ نازک چونچ تھی۔ پر ملائم ملائم تھے۔ دیکھتے ہی دونوں کی طبیعت آ گئی۔

    ہرے مور نے مونی سے کہا’’مورنی! ہم سے شادی کر لو۔‘‘

    لال مور نے بھی کہا ’’نہیں، ہم سے شادی کر لو۔‘‘

    پھر دونوں نے مورنی کو اپنا اپنا ناچ دکھایا۔ مورنی نے دیکھا کہ دونوں مور بہت خوبصورت ہیں اور دونوں بہت اچھا ناچتے ہیں۔۔۔ وہ بڑی چکرائی کہ میں کسی سے شادی کروں اور کس سے نہ کروں۔ کہنے لگی۔ ’’جاؤ، میں تم دونوں کا امتحان لوں گی۔ جو اس میں پورا اترے اسی کے ساتھ شادی کروں گی۔‘‘

    مورنی کی ایک سہیلی تھی۔ چوہیا۔ وہ شہر میں رہتی تھی۔ مورنی نے اس کو بلا بھیجا۔ جب وہ آئی تو مورنی نے اس سے کہا ’’اری بہن چوہیا، تم تو آدمیوں میں رہتی ہو، ان کی باتی جانتی ہو۔ تب جانوں، کوئی ایسی تدبیر کرو جس سے پتہ چل جائے کہ لال مور اچھا یا برا۔‘‘

    چوہیا نے جواب دیا۔ ’’سہیلی! تم ذرا بھی فکر نہ کرو۔ میں ایسی ہی تدبیر کرتی ہوں۔ تمہیں کیا، ساری دنیا کو پتہ چل جائےگا کہ کون سا مور اچھا ہے۔‘‘!

    جب آدھی رات ادھر، آدھی رات ادھر ہوئی اور سارا سنسار سو گیا تب چوہیا کالا کمبل اوڑھ کر نکلی۔ دبے پاؤں ہرے مور کے گھونسلے میں آئی۔ دیکھا کہ وہ پڑا بے خبر سو رہا ہے۔ یہ چپکے چپکے اس کے پرکترنے لگی۔

    ہرا مور سوتے کا سوتا رہ گیا اور چوہیا کی دم تک کتر گئی۔

    پر جو کٹ گئے تو مور اندر سے لال گوشت کا لوتھڑا رہ گیا۔

    صبح سویرے ہرے مور کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ میں بالکل لنڈ منڈ ہوں۔ وہ بہت گھبرایا کہ اب کیا کروں۔ کوئی دوست تو اس کا تھا ہی نہیں جو راہ بتاتا۔ وہ گھونسلے میں اکیلا پڑا رہا۔

    ہرے مور کے پنکھ کٹ گئے تھے۔ اس لیے آج دانا چگنے بھی نہیں جا سکتا۔ جب سارا دن بیت گیا اور بھوک پیاس سے بری حالت ہو گئی تب کسی نہ کسی طرح پیڑ سے نیچے اترا اور کھیت کی طرف چلا۔

    ’’راستے میں اسے بطخیں اور مرغیاں ملیں جو ہرے مور کو اس حالت میں دیکھ کر ہنسنے لگیں اور بطخیں کہنے لگیں۔ قرا قر! قرا قر! کیسی بے شرم چڑیا ہے۔ اپنے پر اتارے بازار میں ننگی گھوم رہی ہے۔‘‘

    مرغیاں کہنے لگیں۔ ’’کٹا کٹ کٹا کٹ! مارو تو اس ننگ دھڑنگ کو۔‘‘

    چوزوں نے جو دیکھا تو لگے تالیاں بچا بچا چڑانے۔‘‘ دم کٹ گئی، پر جھڑ گئے، پھرتے ہیں لنڈورے۔ ہے ہے میاں چرکٹ! ہے ہے میاں چرکٹ!۔‘‘

    کہیں گشت لگاتے ہوئے ادھر آ نکلے سپاہی بن بلاؤ۔ انہوں نے دیکھا مور کو تو سمجھے کہ بوٹی ہے۔ پھر تو وہ اس پر جھپٹ پڑے اور یہ بھاگا اپنی جان لے کر۔

    سپاہی بلاؤ چلانے لگے’’ارے بوٹی بھاگتی جا رہی ہے۔‘‘

    ہرے مور نے بھاگ کر بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی اور بلاؤ کے ڈر سے ادھر ادھر دبکتا پھرنے لگا۔ آخر جب بھوک پیاس سے مرنے لگا اور بہت عاجز آ گیا تو ایک گدھ کے دروازے پر جاکر کہنے لگا ’’تو مجھے کھالے۔‘‘

    چمر گدھ کو اس پر ترس آ گیا۔

    ہرا مور وہیں دن گزارنے لگا۔ اس کا دیا ہوا سڑا ہوا گوشت گھاتا، سنڈاس کا پانی پیتا اور غلاموں کی طرح اس کا کام کاج کرتا رہتا۔!

    دوسری رات چوہیا نے لال مور کے پر بھی کاٹ ڈالے۔ لال مور نے جب دیکھا کہ میرے سب پر غائب ہیں تو رونے لگا کہ بھلا اب مورنی میرے ساتھ شادی کیوں کرنے لگی۔

    مینا اور کوا اس دن جو اپنے دوست مور سے ملنے آئے تو ان کو اس کی مصیبت کا پتہ چلا۔ وہ دونوں اسے سمجھانے لگے کہ ایسی بیماریاں آتی ہی رہتی ہیں۔ گھبراؤ نہیں کوئی نہ کوئی راہ نکل ہی آئےگی۔ مینا جاکر کہیں سے دانے بٹور لائی۔کوا ایک چپاتی اٹھا لایا۔ پھر تینوں نے مزے سے بیٹھ کر کھانا کھایا اورآپس میں ایسی ہنسی کی باتیں ہوئیں کہ لال مور اپنی مصیبت بھول گیا۔ جب تینوں کھا پی چکے اور لال مور کی ڈھارس بندھ گئی تب مینا اور کوا بیٹھ کر سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے کہ لال مور کے پر سے نکل آئیں۔

    کوے نے کہا ’’حکیم کی دوا سے پر پھر سے نکل سکتے ہیں۔ مگر اس کے گھر کا راستہ بہت مشکل ہے۔ راہ میں دو بڑے بھیانک میدان پڑتے ہیں۔ پیلا میدان اور کالا میدان۔ پیلے میدان میں رات کو اولے پڑتے ہیں اور کالے میدان میں دن کو۔ اس لیے پیلا میدان دن بھر میں پار کر لینا ہوگا۔ نہیں تو اولوں سے سر پھٹ جائےگا۔ پھر بلادم لیے رات میں کالا میدان پار کرنا ہوگا۔‘‘

    لال مور نے کہا۔ ’’میں پیدل بڑا تیز بھاگ سکتا ہوں۔ پار کر لوں گا۔‘‘

    کونے نے کہا ’’ایک مشکل اور ہے۔ زمین پر ایک بڑا بھاری سانپ رہتا ہے۔جو پیدل جانے والوں کو نگل جاتا ہے۔‘‘

    لال مور نے کہا۔ ’’میں تو جاؤں گا۔سانپ نگل جائے تو نگل جائے۔ مورنی کے بغیر جینے سے مرجانا اچھا۔‘‘

    مینا بولی ’’بھائی کوے چلو ہم دونوں بھی لال مور کے ساتھ ساتھ چلیں۔ جہاں سانپ نکلا میں تم کو بتادوں گی پھر دونوں مل کر اس کو مار ڈالیں گے۔‘‘

    تینوں نے دوسرے دن چلنے کی ٹھان لی۔

    دوسرے دن لال مور، کو اور مینا بھی حکیم کے گھر کو چلے۔ لال مور نیچے نیچے بھاگ رہا تھا اور کوا اور مینا اس کے اوپر اوپر اڑ رہے تھے۔

    سانپ راستے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے مور کو آتے دیکھا تو بدبدایا ’’اہا ہا! کیسی اچھی بوٹی بھاگی جا رہی ہے۔ میں ابھی اس کو کھاتا ہوں۔‘‘

    سانپ لال مور پر جھپٹا۔ لیکن اس کو اس کی سخت سزا ملی۔

    مینا نے ٹیں ٹیں کرکے کوے کو خبر دی کہ سانپ آ رہا ہے۔ کوے نے پیچھے سے آکر ایک چونچ سانپ کی دم پر ماردی۔ سانپ جو پلٹا کوا کی طرف تو مینا نے پیچھے سے آکر ایک دوسری چونچ رسید کر دی اس کی دم پر۔ پھر دونوں نے مل کر سانپ کے اتنی چونچیں ماریں،اتنی چونچیں ماریں کہ اس کا کچومر نکل گیا اور وہ مر گیا۔

    سانپ کو مار کر پھر تینوں منزل کی طرف چل کھڑے ہوئے اور سورج ڈوبتے ڈوبتے پیلا میدان پار ہونگیا اور کالا میدان آ گیا۔ ایک تو میدان کالا اس پر رات کا گھپ اندھیرا۔ لال مور گھبرا کر کہنے لگا۔ ’’بہن مینا اور بھائی کوے مجھے تو راستہ نہیں سوجھتا۔‘‘

    مینا بولی ’’بھیا! گھبراؤ نہیں، وہ سامنے جو روشنی دکھائی دے رہی ہے، یہ میاں جگنو کا گھر ہے۔ چلو ان سے کہیں کہ ہم کو روشنی دکھا دیں۔‘‘

    تینوں پہنچے جگنو کے گھر۔ ان تینوں کی بڑی خاطر کی۔ چائے پلائی، کھانا کھلایا اور پھر ان کے ساتھ چل کھڑا ہوا۔ بھیانک اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس کے آگے آگے میاں جگنو روشنی دکھاتے جا رہے تھے۔ پیچھے پیچھے زمین پر لال مور بھاگ رہا تھا اور اس کے اوپر مینا اور کوا اڑ رہے تھے۔

    چاروں بھاگتے رہے، بھاگتے رہے۔ جیسے جیسے صبح قریب آتی جاتی مینا اور کوا جگنو سے کہتے ’’بھائی جگنو اور تیز اور تیز۔ نہیں تو اگر صبح ہو گئی تو اولے پڑنے لگیں گے اور ہم لوگوں کے سر پھوٹنے لگیں گے۔‘‘

    میاں جگنو کہتے’’ہم تھکے جا رہے ہیں۔ اتنا تیز نہیں چل سکتے۔‘‘

    مینا اور کوا کہتے ’’بھائی ذرا ہمت سے کام لو تو ہمارا کام بن جائےگا۔‘‘

    صبح ہوتے ہوتے کالا میدان میں پار ہو گیا۔

    لال مور نے حکیم کے دروازے پر پہنچ کر کہا’’میں آؤں۔ میں آؤں۔‘‘

    اندر سے حکیم صاحب کا کتا نکلا۔ اس نے کہا’’بھاگ! میں تجھے اندر نہیں گھسنے دوں گا۔ تیرے پر نہیں ہیں تو کوڑھی ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر کتا بھونکنے لگا۔ ’’بھوں۔ بھوں۔ بھوں۔ بھوں۔‘‘

    اتنے میں کسی نے اوپر سے کہا’’بھائی لال مور، تم کہاں۔‘‘

    اوپر ایک پنجرے میں بھائی طوطے مٹھو میاں بیٹھے ہوئے تھے۔

    لال مور نے ان کو اپنی بپتا کہہ سنائی۔

    طوطا بولا ’’بھائی مور، گھبراؤ نہیں۔ میں آدمی کی بولی جانتا ہوں۔ ابھی حکیم صاحب سے دوا دلاتا ہوں۔‘‘

    پھر طوطے نے ’’دت! دت۔‘‘ کر کے کتے کو بھگایا۔ جب حکیم صاحب باہر آئے تو طوطے نے لال مور کو دوا دلوا دی۔

    دوا کھاتے ہی لال موڑ کے پر اور دم نکل آئی جو پہلے سے زیادہ خوبصورت چمکدار تھے۔

    لال مور کے اچھا ہونے کی مینا، کوا، جگنو اور طوطا چاروں نے بڑی خوشیاں منائیں۔ پھر مینا، کوا جگنو اور لال مور طوطے سے رخصت ہو گئے اور اڑ کر میدانوں کو پار کر کے جنگل آ گئے۔

    مورنی نے لال مور کاسارا قصہ سنا تو وہ بھی اس پر عاشق ہو گئی۔ دل میں چوہیا کے امتحان کی تعریف کرنے لگی۔

    اس طرح صاف پتہ چل گیا کہ کون سا مور اچھا تھا، کون سا برا۔

    پھر بڑی دھوم دھام سے لال مور اور مورنی کی شادی ہو گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے