Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اینٹ کی واپسی

نذیر انبالوی

اینٹ کی واپسی

نذیر انبالوی

MORE BYنذیر انبالوی

    گھر میں کئی سال بعد رنگ و روغن کا کام ہو رہا تھا۔ سروش کے ابوشاہد کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ صبح سویرے گھر سے جاتے اور رات گئے ان کی واپسی ہوتی تھی۔ اتوار کی ایک چھٹی بھی آرام کرنے یا کہیں جانے میں صرف ہو جاتی۔ نمی نے دیواروں کے رنگ کا برا حال کر دیا تھا۔ دادی جان اور امی جان بدنما دیواریں دیکھ کر باتیں بناتیں تو شاہد بہت جلد رنگ کروانے کا کہہ کر پھر اپنی مصروفیت میں اس قدر مگن ہو جاتے کہ انہیں رنگ کروانے کا خیال ہی نہ رہتا۔

    ساتھ والی گلی میں شاہد کے بڑے بھائی واحد رہتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے کی شادی تھی۔ مہمانوں نے واحد کے گھر کے ساتھ ساتھ شاہد کے ہاں بھی قیام کرنا تھا۔ شاہد کو پہلی بار احساس ہوا تھا کہ گھر کی حالت خاصی خراب ہے۔ انہوں نے چھٹی کے لیے دفتر میں درخواست دی جو بہت مشکل سے منظور ہوئی۔ چھٹی کی منظوری ہوئی تو رنگ کرنے والد عبداللہ کا انتظار شروع ہوا۔ وہ ایک کوٹھی میں کام کر رہا تھا۔ کام ختم ہونے میں ابھی دو تین دن رہتے تھے۔ چھٹیاں چونکہ محدود تھیں اس لیے شاہد کی کوشش تھی کہ کام جلد ازجلد شروع ہو جائے تاکہ مزید چھٹیاں نہ لینا پڑیں۔ آخر جمعرات کو کام کا آغاز اس انداز میں ہوا کہ عبداللہ نے جلد کام ختم کرنے کے لیے اپنے ساتھ زیادہ آدمیوں کو رنگ کرنے کے لیے لگوا لیا، ایسا کرنے سے بیک وقت کئی کمروں میں رنگ ہونے لگا تھا۔ گھر میں سامان بکھر کر رہ گیا تھا۔ گھر میں سارے کام دادی جان کی زیر نگرانی ہو رہے تھے۔ دادی جان ایک طرف کرسی پر بیٹھ جاتیں اور رنگ کرنے والوں کو ہدایات دیتی جاتیں۔ شام کے وقت فرشوں سے گرے ہوئے رنگ کو اچھی طرح صاف کیا جاتا۔ دادی جان کی ہر دیوار پر نظر تھی۔ ایک دیوار پر رنگ بدنما دکھائی دے رہا تھا۔ دادی جان نے عبداللہ کی اس طرف توجہ دلائی۔

    ’’دادی جان ایک ایک دیوار خوبصورت دکھائی دے گئی، جہاں رنگ بدنما نظر آئےگا، اسے دوبارہ رنگ کیا جائےگا۔‘‘

    جیسے جیسے گھر میں رنگ ہوتا جا رہا تھا گھر کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ پندرہ دن میں رنگ کرنے کا کام مکمل ہوا۔ عبداللہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر خوب محنت سے کام کیا تھا۔ شاہد اور دادی جان نے ایک ایک کمرے کا جائزہ لیا۔ کام واقعی عمدہ کیا گیا تھا۔ دادی جان نے خوش ہوکر سو روپے عبداللہ کو انعام دیئے۔ عبداللہ سو روپے ملنے پر بہت خوش تھا۔

    ’’میں سو روپے سنبھال کر رکھوں گا۔‘‘ عبداللہ نے شکریہ ادا کر کے سو روپے کا نوٹ جیب میں رکھ لیا۔

    رنگ و روغن کے بعد سامان کو ان کی جگہوں پر رکھنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ دادی جان کو اپنی لوہے کی پیٹی کی فکر سب سے زیادہ تھی۔ سروش نے پیٹی کو چھت پر رکھنے کی بات کی تو دادی جان نے اسے گھورا۔

    ’’بہت قیمتی ہے یہ لوہے کی پیٹی، میری اماں کی نشانی ہے یہ، شادی پر انہوں نے مجھے دی تھی۔ بہت مضبوط ہے یہ‘‘۔ دادی جان نے محبت بھری نظروں سے لوہے کی پیٹی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’دادی جان اب تو لکڑی کی الماریوں کا رواج ہے، ایسی لوہے کی پیٹیوں کا زمانہ تو ختم ہو گیا ہے۔ آپ بھی اپنے کمرے میں لکڑی کی الماری بنوا لیں۔‘‘ سروش نے مشورہ دیا۔

    ’’صفائی کے وقت پانی پیٹی کے نیچے نہ رہ جائے‘‘۔ دادی جان بولیں۔

    پیٹی کے پائے چار اور اینٹیں تین تھیں۔ ایک ایک اینٹ کی کمی سے باقی تین اینٹیں بھی بے کار تھیں۔ دادی جان یہ صورت حال دیکھ کر بولیں۔

    ’’اینٹوں کو ایک طرف رکھ دو، جب ایک اینٹ مل جائےگی تو پیٹی کے نیچے رکھ دیں گے۔‘‘ پھر سروش نے تین اینٹوں کو ایک کونے میں رکھ دیا۔

    کچھ دنوں بعد شاہد کے بھتیجے کی شادی تھی۔ شادی کے بعد ایک شام دادی جان اپنے کمرے میں آئیں تو لوہے کی پیٹی کے ہر پائے کے نیچے اینٹ تھی۔ دادی جان نے ایک ایک اینٹ کو غور سے دیکھا۔ تین اینٹیں تو پرانی تھیں صرف ایک اینٹ نئی تھی۔ وہ سوچ میں پڑ گئیں کہ یہ نئی اینٹ کہاں سے آئی ہے۔ محلے میں تو کوئی نیا گھر بھی نہیں بن رہا۔ سروش نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔

    ’’دادی جان اب تو آپ خوش ہیں، آپ کی پیاری پیٹی کے ہر پائے کے نیچے اینٹ موجود ہے، اب صفائی آسانی سے ہو سکےگی۔‘‘

    ’’میں تو خوش ہوں مگر۔۔۔‘‘۔

    ’’مگر کیا دادی جان؟‘‘ سروش درمیان میں بولا۔

    ’’مگر یہ نئی اینٹ کون لایا اور کہاں سے لایا ہے؟‘‘۔ دادی جان کی نظر نئی اینٹ پر تھی۔

    ’’اسے میں لایا ہوں‘‘۔ سروش نے بتایا۔

    ’’کہاں سے لائے ہو یہ اینٹ؟‘‘ دادی جان نے سروش سے پوچھا۔

    ’’ وہ کارخانے کے پاس ایک نیا گھر بن رہا ہے؟ یہ اینٹ وہاں سے اٹھا کر لایا ہوں‘‘۔ سروش نے اتنا کہا تو دادی جان قدرے غصے سے بولیں۔

    ’’اچھا تو اینٹ اٹھا کر لائے ہو یعنی اینٹ چوری کی ہے‘‘۔

    ’’وہاں کوئی بھی تو نہیں تھا، ایک اینٹ سے بھلا کیا ہوتا ہے‘‘۔ سروش کو اندازہ نہیں تھا کہ دادی جان کا رد عمل کیا ہوگا۔ دادی جان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنے غصے پر قابو رکھتے ہوئے کہا:

    ’’سروش تم نے اچھا نہیں کیا، اینٹ اٹھاؤ اور اسی وقت میرے ساتھ چلو، آؤ اینٹ واپس کر کے آتے ہیں، آجاؤ دیر مت کرو۔‘‘

    ’’دادی جان آپ بھی کمال کرتی ہیں، ایک اینٹ واپس کرنے کے لئے اتنی دور جائیں گے‘‘۔

    ’’ہاں ہم دونوں اینٹ واپس دے کر آئیں گے‘‘ سب ے مل کر پیٹی کے نیچے سے اینٹ نکال لی۔ سروش نہ چاہتے ہوئے بھی دادی جان کے ساتھ ہو لیا۔ دادی جان کچھ فاصلے تک تو خود اینٹ اٹھا کر چلتی رہیں پھر اینٹ سروش نے اٹھا لی۔ پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعد دونوں ایک نئے تعمیر ہونے والے مکان کے سامنے کھڑے تھے۔ ایک مزدور باہر کام کر رہا تھا۔ دادی جان نے علیک سلیک کے بعد مزدور سے پوچھا۔

    ’’مالک مکان کہاں ہیں؟‘‘

    ’’مالک مکان تو مجھے معلوم نہیں مگر اس وقت ٹھیکیدار صاحب اوپر موجود ہیں‘‘ مزدور نے بتایا۔

    ’’ہم نے ٹھیکیدار سے ملنا ہے۔‘‘ دادی جان بولیں۔

    ’’میں اوپر جاکر ٹھیکیدار کو بتاتا ہوں‘‘ مزدور پھر ریت لے کر اوپر کی منزل کی طرف بڑھ گیا۔

    اینٹ ابھی تک سروش کے ہاتھ میں تھی۔ مزدور اوپر والی منزل میں پہنچا تو ٹھیکیدار مستری سے بات کر رہا تھا۔ مزدور بھی پاس جاکر کھڑا ہو گیا کہ ٹھیکیدار کی بات ختم ہو تو وہ اس سے کچھ کہہ سکے۔

    ٹھیکیدار نے مستری کی طرف دیکھ کر کہا۔

    ’’جو چیز نظر نہیں آنی اسی میں بچت ہوتی ہے‘‘۔

    ’ٹھیک کہا آپ نے۔ اینٹ ہلکی بھی ہو تو پلستر سےہر چیز چھپ جاتی ہے۔‘‘ مستری نے اینٹ لگاتے ہوئے کہا۔

    ’’اب بات سمجھے ہو، اینٹ سوم درجے کی اور پلستر بھی بس مناسب، یوں بچت ہوگی‘‘۔ ٹھیکیدار نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں، اب ویسا ہی ہوگا جیسا آپ چاہتے ہیں‘‘ مستری بولا۔

    ’’ٹھیکیدار صاحب ایک بڑھیا آپ سے ملنے آئی ہے۔‘‘ مزدور ٹھیکیدار کو مخاطب کیا۔

    ’’کون بڑھیا، کون مانگنے والی ہوگی، چلتا کرو اسے‘‘ ٹھیکیدار نے بے زاری سے کہا۔

    ’’وہ مانگنے والی دکھائی نہیں دیتی، آپ خود ہی دیکھ لیں‘‘ مزدور نے کہا۔

    ٹھیکیدار نے کچھ کہے بغیر کمرے کی کھڑکی سے جھانکا۔ دادی جان اور سروش نے اوپر دیکھا۔ اینٹ اب بھی سروش کے ہاتھ میں تھی۔ ٹھیکیدار کی نظر نئی اینٹ پر پڑی تو اس نے بلند آواز میں کہا:

    ’’کیا اینٹ لینے آئے ہو؟‘‘

    ’’نہیں اینٹ لینے نہیں، اینٹ واپس کرنے آئے ہیں‘‘۔ سروش نے جواب دیا۔

    ’’اینٹ واپس کرنے‘‘۔ ٹھیکیدار نے دہرایا۔ وہ کچھ سمجھ نہ پایا تھا۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے گلی میں آ گیا۔

    ’’اب کہیے معاملہ کیا ہے؟‘‘ ٹھیکیدار نے سانس بحال کرتے ہوئے بمشکل پوچھا۔

    ’’میرا پوتا سروش بلا اجازت یہاں سے یہ نئی اینٹ اٹھا کر لے گیا تھا، میری اماں کی نشانی لوہے کی پیٹی کے نیچے رکھنے کے لیے ایک اینٹ کی ضرورت تھی۔ بس اپنی نئی اینٹ واپس لے لیں‘‘۔ دادی جان کی بات سن کر سروش نے نئی اینٹ ٹھیکیدار کی طرف بڑھا دی۔ ٹھیکیدار کو اپنے کانوں اور آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کیا ایسا بھی دنیا میں ہوتا ہے۔ سروش کے ہاتھ سے نئی اینٹ لے کر ٹھیکیدار نے پہلے خود پر اور پھر اینٹ پر نگاہ ڈالی۔ اس کے کانوں میں ان باتوں کی بازگشت تھی جو ابھی وہ مستری سے کر کے آیا تھا نئی۔ اینٹ کو ایک طرف رکھ کر ٹھیکیدار اینٹوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر زاروقطار رونے لگا۔ دادی جان اور سروش نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

    دادی جان نے محبت بھرے انداز میں پوچھا۔

    ’’بیٹا! کیوں رو رہے ہو؟‘‘۔

    پھر ٹھیکیدار نے روتے روتے سب کچھ بتا دیا۔

    ’’کیا آپ پہلے بھی ایسا کام کرتے رہے ہیں؟‘‘ دادی جان کے سوال پر ٹھیکےدار نے جواب دیا۔

    ’’ہاں، کئی بار یہ برا کام کر چکا ہوں، گھٹیا اینٹیں اور کم سیمنٹ لگا کر بچت کرتا رہا ہوں، نئی اینٹ کی واپسی نے مجھے نیا راستہ دکھایا ہے، یہ اینٹ میری طرف سے بطور تحفہ رکھ لیں۔‘‘

    ٹھیکیدار کے اصرار پر نئی اینٹ دادی جان نے پکڑ لی۔ سروش سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔ دادی جان نے وہاں سے چلتے ہوئے کہا:

    ’’نئی اینٹ نے آپ کو جو نیا راستہ دکھایا ہے اس پر چلتے رہنے تاکہ جس دن ایک ایک بات اور ایک ایک عمل کا حساب ہوگا تو اس دن ان اینٹوں کی وجہ سے آپ ناکام نہ ہوں‘‘۔

    ’’میں نئی اینٹ کے اس سبق کو کبھی نہیں بھولوں گا۔ میں نیکی کے محل میں اپنے عمل کی ایک ایک اینٹ کو بڑی ایمانداری سے لگاؤں گا، آپ کا یہاں آنا میرے لیے مبارک ثابت ہوا ہے‘‘ ٹھیکیدار کی بات ختم ہوئی تو دادی جان اپنے پوتے کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے چل پڑیں۔

    سروش بار بار دادی جان کے پرنور چہرے کو دیکھ رہا تھا جس پر ٹھیکیدار کو نئی اینٹ واپس کرنے کے بعد مزید نور آ گیا تھا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے