Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک بے سر پیر کی کہانی

ذکیہ مشہدی

ایک بے سر پیر کی کہانی

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    اب یہ کیا بات ہوئی بھلا۔ بے سر پیر کی کہانی۔ کہیں کہانی کے بھی سر پیر ہوتے ہیں؟ ہوتے تو ہیں جو اس کہانی کے پاس نہیں ہیں ارے بھئی بے سر پیر کا مطلب ہوتا ہے ایسی کہانی جو بے تکی ہو۔ باتوں کے لئے بھی کہا جاتا ہے بے سر پیر کی باتیں۔ یعنی جو باتیں عجیب سی ہوں یا انمل بے جوڑ ہوں۔ تو بھئی اگر کہانی بے تکی ہے یا اس میں انمل بے جوڑ باتیں ہیں تو کہانیں سنیں کیوں؟ یا یوں کہئے کوئی اسے سنائے ہی کیوں؟

    بات یہ ہے کہ بے سر پیر کی کہانیاں اکثر بڑی مزیدار ہوتی ہیں۔ ان سے لوگوں کی تفریح ہوتی ہے۔ خاص طور پر بچوں کی۔ بچے ہنس لیتے ہیں، خوش ہوجاتے ہیں اور ایسا بھی نہیں کہ یہ کہانیاں اور کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ ارے نہیں بھائی۔ سبھی کہانیوں سے کوئی نہ کوئی نئی بات معلوم ہوتی ہے۔ نئے الفاظ سیکھنے کو ملتے ہیں۔ پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

    تو آؤ ایک بے سر پیر کی کہانی سنتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ پڑھتے ہیں۔ پرانے زمانے کی بات ہے۔ اس وقت جانوروں کے علاوہ اور کوئی سواری نہیں تھی۔ لوگ گھوڑے، گدھے، خچر وغیرہ پر بیٹھ کر سفر کرتے تھے۔ یا پھر انہیں جانوروں کو گاڑی میں جوت لیتے تھے۔ اس گاڑی سے سفر کرتے اور سامان بھی ادھر ادھر پہنچاتے تھے۔ راستہ دور کا نہ ہوا تو سب سے بڑی سواری تھی۔۔۔ پتہ ہے وہ کیا تھی؟ ٹھیک سمجھا تم نے۔ اپنے پیر۔ لوگ پیدل ہی چل پڑے تھے۔

    تو اسی پرانے زمانے کی بات ہے، ایک شخص کو پاس کے گاؤں جانا تھا۔ اس کا نام تھا بابو خاں۔ وہ ادھیڑ عمر کا تھا لیکن ہاتھ پاؤں کا مضبوط تھا۔ وہ وہاں پیدل ہی گیا۔ پھر کام ختم کر کے واپس چل پڑا۔ رستہ زیادہ لمبا نہیں تھا لیکن بیہڑ تھا۔ بیہڑ کا مطلب یہ ہے کہ راستے میں جنگل، جھاڑیاں، پتھر، نالے وغیرہ بہت تھے۔ وہ تیز تیز چلا جارہا تھا تبھی ایک طرف سے ایک اور شخص آتا دکھائی دیا۔ وہ ایک نوجوان لڑکا تھا۔ ایک سے بھلے دو۔ دونوں کو ہی یہ ساتھ اچھا لگا۔ کچھ دور چل کر لڑکے نے کہا، چچا یا تو آپ مجھے اٹھا کر لے چلیں یا میں آپ کو اٹھا کر لے چلتا ہوں۔

    بابو خان نے لڑکے کی طرف دیکھ کر سوچا۔ اچھا بھلا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ایسی بے سر پیر کی بات کر رہا ہے۔ بھلا ایک آدمی دوسرے کو اٹھا کر کیسے چلے گا۔ وہ چپ رہا۔

    کیوں چچا۔ جواب نہیں دیا۔ لڑکے نے پھر پوچھا۔ بابو خان اس بار بھی چپ رہے۔

    ’’اچھا تو ایسا ہے کہ ہم دونوں ایک ایک گھوڑا لے لیں۔ اس کے سہارے رستہ آسانی سے کٹ جائے گا۔‘‘

    اب کی بابو خان ناراض ہوگئے۔ کچھ غصے سے بولے۔ ’’ارے میاں کچھ عقل لے کر پیدا ہوئے تھے یا نہیں۔ کہاں ہیں گھوڑے اور کہاں ہیں ان کے دام۔ پھر رستہ بھی تو چھوٹا ہی ہے۔‘‘

    وہ لڑکا چپ ہوگیا۔

    آخر رستہ کٹ گیا۔ گاؤں دکھائی دینے لگا۔ شروع ہی میں ایک کسان اپنے کھیت میں کام کرتا ہوا ملا۔ لڑکے نے اس سے پوچھا ’’کیوں بھائی جان کھیتی بوئی ہے یا کھائی ہے؟‘‘ کسان ناراض ہوگیا۔ بولا دیکھ نہیں رہے۔ نرائی کر رہا ہوں۔ گیہوں کی فصل بالشت بھر ہوئی ہے۔ ابھی سے کیسے کھالوں گا۔ عجب بے سر پیر کی بات کر رہے ہو تم میاں لڑکے۔‘‘

    پھر بابو خاں اور اس لڑکے کے راستے الگ ہونے لگے۔ وہ دائیں مڑا اور بابو خاں بائیں۔ یکایک بابو خاں کو خیال آیا کہ لڑکا ہے سیدھا سادا۔ جانے کہاں جارہا ہے۔ کس کا کون ہے۔ انہوں نے اس سے نام اور ٹھکانا پوچھا۔ لڑکے نے اپنا نام روشن علی بتایا۔ بتایا کہ وہ یہاں کے مکھیا سے ملنے آیا ہے۔ چوپال میں ہی ٹھہر کر کل چلا جائے گا۔

    بابو خاں گھر پہنچ گئے۔ ان کی بیوی مرچکی تھی۔ گر پر ان کی بیٹی اور بابو خاں کی اماں رہتی تھیں۔ بابوخاں بھی کھیتی باڑی کرتے تھے۔

    بیٹی نے باپ کے ہاتھ دھلوائے۔ ایک پیالہ گھر کی گائے کا دودھ پیش کیا۔ سفر کا حال احوال پوچھا۔

    ’’سب ٹھیک تھا بیٹی۔ کام بھی ہوگیا۔ بس رستے میں ایک لڑکا ملا تھا۔ اس نے بڑا دماغ چاٹا۔ رستے بھر بے سر پیر کی باتیں کرتا رہا۔ ویسے دیکھنے سننے میں اچھا تھا۔‘‘

    کیا دماغ چاٹا ابا۔ لڑکی ہنس پڑی۔

    بابو خاں نے اس کی ساری باتیں بتائیں۔ گود میں اٹھا کر لے چلنے والی۔ گھوڑا لے آنے والی۔ پھر کسان سے پوچھنا کہ کھیتی بوئی ہے یا کھائی ہے۔ ساری باتیں بے سر پیر کی بٹیا۔

    لڑکی پھر ہنسی۔ ’’نہیں ابا باتیں بے سر پیر کی نہیں تھیں۔ گود میں اٹھا کر لے چلنے کا مطلب تھا یا تو کوئی کہانی سناؤ یا میں سناتا ہوں۔ کہانی سنتے سناتے چلنے سے راستہ آسانی سے کٹ جاتا ہے۔ جیسے کوئی تمہیں گود میں لے چل رہا ہو۔‘‘

    بابو خاں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ انہوں نے سرہلایا۔ ’’ہاں یہ تو ہے بٹیا۔ اب اور باتوں کا بھی کوئی مطلب ہوگا۔‘‘

    ’’ہاں ابا۔ گھوڑا لے آنے کا مطلب تھا درخت سے چھڑی توڑ لاؤ۔ چھڑی کے سہارے چلنے سے رستہ آسان ہوتا ہے۔ کنکر پتھر ہٹاتے چلو۔ کوئی سیار، کتا، لومڑی مل جائے تو اسے دھمکا کر بھگا دو۔ کہیں گھنے درخت ہوں تو ان کی شاخیں بھی ایک طرف کو کرلو۔‘‘

    بابو خاں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ارے واہ۔ اور وہ تیسری بات۔ ’’جی ابا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسان قرضے میں تو نہیں ڈوبا ہوا ہے۔ اگر کسان نے قرض لیا ہوا ہے تو کھیتی گویا کھاچکا ہے۔ جب فصل آئے گی تو قرضہ ادا کرنے میں ختم ہوجائے گی۔ اگر قرضہ نہیں لیا ہے یا بہت تھوڑا ہے یا تو فصل سے اناج ملے گا۔ اناج بیچ کر پیسہ بھی ملے گا۔ اس طرح وہ سچ مچ کھیتی بورہا ہے۔

    بابو خاں نے کہا ’’بیٹی تو تو بڑی عقل مند ہے۔ اور وہ لڑکا بھی۔ وہ یہاں چوپال میں ٹھہرا ہے۔ اسے کچھ کھانا بھجوا دینا۔ میں بے چارے سے بلاوجہ ناراض ہوتا رہا۔‘‘

    لڑکی نے کہا ضرور ابا۔

    دوپہر کو اس نے کھانا تیار کیا۔ کھیت پر کام کرنے والے نوکر کو بلایا۔ اس کے ہاتھ میں انگوچھے میں بندھا کھانا دے کر کہا۔ چوپال میں باہر سے ایک آدمی آیا ہے، اسے دے آؤ۔ اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ چاند چودھویں کا ہے، ستارے بے شمار ہیں اور دریا میں پانی چڑھا ہوا ہے۔ ملازم کھانا لے چلا گیا۔ لڑکے کو کھانا کھلا کر برتن واپس لایا اور بولا۔ انہوں نے کہا ہے چاند دسویں کا تھا۔ ستارے کم کم تھے اور دریا اتار پر تھا۔

    لڑکی نے ملازم کو بہت ڈانٹا کہ اس نے مہمان کا کھانا چرا کر کھایا ہے۔ ملازم نے اپنا قصور مان کر معافی مانگی۔ وعدہ کیا اب وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا۔ وہ ڈر گیا کہ لڑکی کے قبضے میں کوئی جن ہے۔ تبھی تو اسے فوراً معلوم ہوگیا کہ اس نے کھانا چرایا تھا۔

    بابو خاں کو بھی تعجب ہوا۔ انہوں نے پوچھا۔ ’’بیٹی تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘

    لڑکی نے جواب دیا۔ ’’مجھے اس شخص پر اکثر شک ہوتا تھا۔ اس لیے کھانا دینے سے پہلے پیغام دیا تھا۔ چاند چودھویں کا ہے۔ یعنی برتن میں چودہ روٹیاں ہیں۔ ستارے بے شمار ہیں یعنی گوشت کی بوٹیاں بہت سی ہیں۔ دریا چڑھاؤ پر ہے یعنی سالن میں شوربہ بھی بہت ہے۔

    اس نے جواب دیا چاند دسویں کا ہے یعنی چار روٹیاں کم ہیں۔ ستارے کم کم ہیں یعنی بوٹیاں تھوڑی سی ہیں۔ دریا اتار پر ہے۔ اب اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ شوربہ بھی تھوڑا ہی ہے۔

    بابو خاں بہت ہنسے۔ بیٹی کی پیٹھ ٹھوکی اور بولے۔

    ’’مگر بٹیا پھر بھی ہم کہیں گے کہ بات سیدھی سیدھی کرنی چاہئے۔ ورنہ جو نہیں سمجھے گا اسے بے سر پیر کی کہے گا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے