ایک دن کی بادشاہت
’’عارف، سلیم چلو فوراً سو جاؤ۔‘‘ امی کی آواز عین اس وقت آتی تھی جب وہ دوستوں کے حلقے میں جیسے قوالی گاتے تھے۔۔۔ یا پھر صبح بڑے مزے میں آئس کریم کھانے کے خواب دیکھ رہے ہیں کہ آپا جھنجھوڑ ڈالتیں۔
’’جلدی اٹھو۔ اسکول کا وقت ہو گیا۔۔۔‘‘ دونوں کی مصیبت میں جان تھی ہر وقت پابندی۔ ہر گھڑی تکرار۔ اپنی مرضی سے چوں بھی نہ کر سکتے تھے کبھی عارف کو گانے کا موڈ آتا تو بھائی جان ڈانٹتے ’’چپتا ہے یا نہیں ہر وقت مینڈک کی طرح ٹرائے جاتا ہے۔‘‘ باہر جاؤ تو امی پوچھتیں ’’باہر کیوں گئے۔۔۔؟‘‘ اندر رہتے تو دادی چلاتیں:
’’ہائے میرا دماغ اڑا جا رہا ہے شور کے مارے۔ اری رضیہ ذرا ان بچوں کو باہر ہانک دے!‘‘ جیسے بچے نہ ہوئے مرغی کے چوزے ہو گئے دونوں گھنٹوں بیٹھ کر ان پابندیوں سے بچ نکلنے کی ترکیبیں سوچا کرتے ان دونوں سے تو سارے گھر کو دشمنی ہو گئی تھی۔ ایک دن شام کو وہ دوستوں کے ساتھ گولیاں کھیل رہے تھے تو ابا چلائے۔
’’اب کھیل ختم کرو اور ذرا دوکان سے سگریٹ کا ایک پیکٹ لے آؤ۔‘‘ ’’نہیں لاتے۔‘‘ اس نے آنکھ میچ کر گولی کا نشانہ تاکتے میں کہا۔
لیکن اس خودسری کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند سیکنڈ بعد اس کا کان ابا کے ہاتھ میں تھا اور وہ اپنے کان کے پیچھے پیچھے گھسٹتا ہوا چلا جا رہا تھا۔
دوسرے دن اپنے دکھتے ہوئے کان کو تھامے جب سلیم اٹھا تو وہ بغاوت کی آگ میں تپ رہا تھا۔ عارف بھی غلامی کی اس زندگی سے بیزار تھا۔ لہذا دونوں نے مل کر ایک پلان بنایا اور ابا کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی۔ ایک دن انہیں بڑوں کے سارے اختیار دے دیئے جائیں اور سب بڑے چھوٹے بن جائیں۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے اودھم مچانے کی۔‘‘ امی نے حسب عادت ڈانٹ پلائی۔ لیکن ابا جاننے کس موڈ میں تھے کہ نہ صرف مان گئے بلکہ یہ اقرار بھی کر بیٹھے ان دونوں کو ہر قسم کے اختیارات مل جائیں گے۔
ابھی صبح ہونے میں کئی گھنٹے تھے کہ عارف نے امی کو جھنجھوڑ ڈالا۔
’’امی جلدی اٹھئے ناشتہ تیار کیجئے۔‘‘
امی نے چاہا ایک جھانپڑ رسید کر کے سور ہیں مگر یاد کہ آج تو ان کے سارے اختیارات چھینے جا چکے ہیں۔
پھر دادی نے فجر کی نماز پڑھتے میں دوائیں کھانا اور بادام کا حریرہ پینا شروع کیا تو عارف نے انہیں ڈانٹا ’’توبہ ہے دادی، کتنا حریرہ ڈکوسیں گی آپ۔ پیٹ پھٹ جائےگا۔‘‘ اور دادی نے جوتا اٹھایا اسے مارنے کے لئے۔
ناشتہ میز پر آیا تو عارف نے خانساماں سے کہا۔
’’انڈے اور مکھن وغیرہ ہمارے سامنے رکھو۔ دلیا اور دودھ، بسکٹ ان سب کو دے دو۔‘‘ آپا نے قہر بھری نظروں سے انہیں گھورا۔ مگر بےبس تھیں، کیوں کہ روز کی طرح آج وہ ترمال اپنے لئے نہ رکھ سکتی تھیں۔ سب کھانے بیٹھے تو سلیم نے امی کو ڈانٹا۔
’’امی ذرا اپنے دانت دیکھئے، پان کھانے سے کتنے گندے ہو رہے ہیں۔‘‘
’’میں تو دانت مانجھ چکی ہوں۔‘‘ امی نے ٹالنے کے لئے کہا۔
’’نہیں آپ چھوٹ کہہ رہی ہیں، چلئے اٹھئے۔‘‘ امی نوالا توڑ چکی تھیں مگر سلیم نے زبردستی کاندھا پکڑ کر انہیں اٹھا دیا۔
امی کو باتھ روم میں جاتے دیکھ کر سب ہنس پڑے۔ جیسے روز سلیم کو زبردستی بھگا کے ہنستے تھے۔ پھر وہ ابا کی طرف مڑا۔
’’ذرا ابا کی گت دیکھئے۔ بال بڑھے ہوئے۔ شیو نہیں کیا۔ کل کپڑے پہنے تھے اور آج اتنے میلے کر ڈالے۔ آخر ابا کے لئے کتنے کپڑے بنائے جائیں گے۔‘‘
یہ سن کر ابا کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ آج یہ دونوں کیسی صحیح نقل اتار رہے تھے سب کی۔ مگر اپنے کپڑے دیکھ کر وہ سچ مچ شرمندہ ہو گئے۔
تھوڑی دیر بعد جب ابا اپنے دوستوں کے بیچ بیٹھے اپنی نئی غزل لہک لہک کر سنا رہے تھے تو عارف پھر چلانے لگا۔
’’بس کیجئے ابا۔۔۔ فوراً آفس جائیے، دس بج گئے۔
’’چ۔۔۔چ، چوپ۔۔۔‘‘ ابا ڈانتے ڈانتے رک گئے۔ بے بسی سے ادھورا مصرع دانتوں میں دبائے پاؤں پٹکتے عارف کے ساتھ ہولئے۔
’’رضیہ ذرا مجھے پانچ روپے تو دینا۔‘‘ ابا آفس جانے کو تیار ہو گئے۔
’’پانچ روپے کا کیا ہوگا! کار میں پٹرول تو ہے۔‘‘ عارف نے تنک کر ابا کی نقل اتاری۔ جیسے ابا کہتے ہیں کہ اکنی کا کیا کروگے۔ جیب خرچ تو لے چکے۔
تھوڑی دیر بعد خانساماں آیا’’بیگم صاحب آج کیا پکےگا۔؟
’’آلو گوشت، کباب، مرچوں کا سالن۔‘‘ امی نے جسب عادت کہنا شروع کیا۔
’’نہیں آج یہ سالن نہیں پکیں گے۔‘‘ سلیم نے کتاب رکھ کر امی کی نقل اتاری۔
’’آج گلاب جامنیں، گاجر کا حلوہ اور میٹھے چاول پکاؤ۔‘‘
لیکن مٹھائیوں سے روٹی کیسے کھائی جائےگی۔۔۔؟‘‘ امی کس طرح صبرنہ کر سکیں۔
’’جیسے ہم روز صرف مرچوں کے سانسوں سے کھاتے ہیں۔‘‘ دونوں نے ایک ساتھ کہا۔ دوسری طرف دادی الگ ماما سے تو تو میں میں کئے جا رہی تھیں۔
’’افوہ، دادی تو شور کے مارے دماغ پگھلائے دے رہی ہیں۔۔۔‘‘
عارف نے دادی کی طرح دونوں ہاتھوں میں سرتھام کے کہا ’’ذرا کوئی دادی کو باہر بھیج دے۔‘‘
اتنا سنتے ہی دادی نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ آج یہ لڑکے میرے پیچھے پنجے جھاڑ کے پڑ گئے ہیں، مگر ابا کے سمجھانے پر خون کا گھونٹ پی کر رہ گئیں۔
کالج کا وقت ہو گیا تو بھائی جان اپنی سفید بشرٹ کو عارف سلیم سے بچاتے دالان میں آئے ’’امی شام کو میں دیر سے آؤں گا۔ دوستوں کے ساتھ پکچر جانا ہے۔‘‘
’’خبردار۔۔۔‘‘ عارف نے آنکھیں نکال کر انہیں دھمکایا۔۔’’کوئی ضرورت نہیں پکچر دیکھنے کی۔ امتحان قریب ہیں اور ہر وقت سیر سپاٹوں میں گم رہتے ہیں آپ۔‘‘
پہلے تو بھائی جان ایک کرارا سا ہاتھ مارنے لپکے، پھر کچھ سوچ کر مسکرا پڑے۔
’’لیکن حضور عالی دوستوں کے ساتھ اس خاکسار کا پروگرام بن چکا ہے اس لئے اجازت مرحمت فرمائی جائے۔‘‘ انہوں نے ہاتھ جوڑکر کہا۔ ’’بنا کرے۔۔۔ بس میں نے ایک بار کہہ دیا۔۔۔‘‘ اس نے لاپروائی سے کہا اور صوفے پر دراز ہو کر اخبار دیکھنے لگا۔
اسی وقت آپا بھی اپنے کمرے سے نکلیں۔ ایک نہایت بھاری ساری میں لچکتی مٹکتی بڑے ٹھاٹ سے کالج جا رہی تھیں۔
’’آپا۔۔۔!‘‘ سلیم نے بڑے غور سے آپا کا معائنہ کیا۔۔۔’’اتنی بھاری ساری کیوں پہنی۔ شام تک غارت ہو جائےگی۔ اس ساری کو بدل کر جائیے۔ آج وہ سفید وائل کی ساری پہننا۔‘‘
’’اچھا اچھا۔ بہت ہو چکے احکام۔۔۔‘‘ آپا چڑ گئیں ’’ہمارے کالج میں آج فنکشن ہے‘‘ انہوں نے ساری کی شکنیں درست کیں۔
’’ہوا کرے۔۔۔ میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔ سنا نہیں۔۔۔؟‘‘ اپنی اتنی اچھی نقل دیکھ کر آپا شرمندہ سی ہو گئیں۔ بالکل اسی طرح تو وہ عارف اور سلیم سے ان کی پسندیدہ بشرٹس اتروا کے نہایت فرتوس کپڑے پہننے کا حکم صادر کر دیتی ہیں۔
دوسری صبح ہوئی۔
سلیم کی آنکھ کھلی تو آپا ناشتے کی میز سجائے ان دونوں کے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ امی خانساماں کو حکم دے رہی تھیں کہ ہر کھانے کے ساتھ ایک میٹھی چیز ضرور پکایا کرو۔ اندر عارف کے گانے کے ساتھ بھائی جان میز کا طبلہ بجا رہے تھے اور ابا سلیم سے کہہ رہے تھے۔
’’اسکول جاتے وقت ایک چونی جیب میں ڈال لیا کرو۔۔۔ کیا ہرج ہے۔۔۔؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.