Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پھل_دار درخت

عشرت معین سیما

پھل_دار درخت

عشرت معین سیما

MORE BYعشرت معین سیما

    ’’امی امی مونگ پھلی والا آیا ہے جلدی سے پیسے دیں تاکہ میں مونگ پھلی خرید کر لاؤں‘‘

    منے میاں نے شام کو گلی میں مونگ پھلی بیچنے والے کی آواز سن کر امی سے کہا۔

    ’’امی مجھے بھی پیسے دیں مجھے بھی تل کے لڈو خریدنے ہیں‘‘

    دوسری جانب سے ننھے میاں نے امی کا بازو پکڑ کر درخواست کی۔

    ارے میں نے گھر میں کوئی پیسوں کا درخت لگا رکھا ہے کہ صبح شام تم دونوں کو الم غلم چیزیں خریدنے کے لیے دیتی رہوں۔۔۔ ’’نہیں ہیں میرے پاس پیسے!۔۔۔ جاؤ اپنے ابو سے مانگو‘‘

    امی نے سبزیاں کاٹتے ہوئے ننھے اور منے کو جھڑک کر کہا۔ ننھے اور منے میاں بھاگ کر بیٹھک میں ابو کے پاس جا پہنچے جہاں وہ اخبار پڑھ رہے تھے۔

    ابو ابو ہمیں مونگ پھلی اور تل کے لڈو کھانے ہیں باہر ریڑھی والا آیا ہے۔۔۔ امی کہہ رہی ہیں کہ ’’اُن کے پاس پیسوں کا پیڑ نہیں ہے ‘‘

    ابو اُن دونوں کی بات سُن کر مسکرائے اور اپنی جیب سے دس روپے کے دو نوٹ نکال کر انہیں دیے اور ساتھ ہی کہا

    ’’تم دونوں اپنی امی کے لیے ایک ایسا درخت کیوں نہیں لگاتے کہ جہاں پیسے اُگیں؟ ‘‘

    ابو نے تو یہ جملہ شاید مذاق میں کہا تھا لیکن اگلے روز ننھے میاں اور منے میاں اپنی امی کے لیے پیسوں کا پیڑ لگانے کے لیے سنجیدگی سے سوچنے لگے۔

    دونوں نے درخت لگانے کا طریقہ اپنے مالی چاچا سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ جس پھل کا درخت لگانا ہو وہاں زمین کھود کر اس پھل کا بیج بو دینا چاہئے اور اس پر روزانہ پانی ڈالنے سے ایک روز زمین پر ننھا سا پودا نکل آتا ہے۔ اس پودے کو دھوپ پانی اور کھاد کی ضرورت ہوتی ہے اور کیڑے مکوڑوں سے بھی بچانا ہوتا ہے۔

    جیسے جیسے پودا بڑا ہوگا اور اس پر خوب پھول اور پتے آجائیں گے تو وہ ایک دن پھل بھی دینے لگے گا۔ ننھے اور منے میاں نے جھٹ اپنی اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر سکے نکالے اور پیسوں کا درخت لگانے کے لیے گھر کے باغیچے ہی میں ایک ایسی جگہ زمین کھود کر دبا دیئے جہاں دھوپ بھی آتی تھی اور زمین بھی نرم تھی۔

    پیسے کو بیج کے طور پر زمین میں بونے کے بعد دونوں بھائی مستقل مزاجی سے پانی ڈالتے۔

    ننھے اور منے میاں کی امی اُن دونوں کی یہ محنت اور لگن دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں اور انہیں معلوم تھا کہ یہ دونوں گھر کے باغیچے میں پیسوں کا ایک درخت اُگانا چاہتے ہیں۔

    پیسے کو زمین میں دبائے اور اس جگہ کی دیکھ بھال کرتے منے اور ننھے میاں کو ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا لیکن کوئی بھی پودا زمین سے نہیں نکلا۔ وہ دونوں ہی بے صبری سے پودے کے نکلنے، اس کے درخت بننے اور اس پر پھل و پھول آنے کے منتظر تھے۔ لیکن اب تک انہیں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔

    ایک روز برسات کے دنوں میں ننھے اور منے میاں باغیچے میں اپنے پودے کے نمودار ہونے منتظر اُداس بیٹھے تھے۔ انہیں خاموش بیٹھا دیکھ کر امی اُن دونوں کے پاس ایک پلیٹ میں آم کاٹ کر لے کرآئیں اور انہیں دیتے ہوئے کہا کہ اس آم کی گٹھلی تم یہیں کہیں زمین میں دبا دینا کیونکہ اس جگہ تم نے زمین بہت اچھی نرم کی ہے اور کھاد بھی ڈالی ہے۔۔۔ ساتھ ہی تم دونوں یہاں پانی بھی باقاعدگی سے ڈالتے ہو تو ایک دن تمہیں اپنی محنت کا پھل ضرور ملے گا۔

    ننھے میاں نے بیزاری سے امی کے ہاتھ سے کٹے ہوئے آموں کی پلیٹ لی اور آم کھا کر اس کی گٹھلی وہیں زمین پر پھینک دی ۔

    اب ننھے میاں اور منے میاں مایوس ہوگئے تھے کہ اُن کے بوئے ہوئے پیسوں سے کوئی پیسوں کا پودا نکلے گا۔ یوں بھی بارش کے موسم میں انہیں وہاں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تقریباً ایک ہفتہ یا دس دن بعد جب بارش کم ہونے لگی اور سورج دوبارہ اپنی آب و تاب سے باغ میں چمکتا دکھائی دینے لگا۔ بارش کے بعد سارا باغیچہ نکھر گیا تھا۔ پھولوں پر تتلیاں منڈلا رہی تھیں اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بھی بہت بھلی لگ رہی تھیں۔ ایسے میں ننھے اور منے میاں نے فٹ بال نکال کر باغیچے میں کھیلنے کا ارادہ کیا اور جب دونوں باغیچے کے اُس حصے میں پہنچے جہاں انہوں نے پیسے کا بیج بویا تھا تو وہاں بھی زمین پر انہیں سبز کائی جمی دکھائی دی لیکن کوئی پودا اب بھی وہاں نہیں نکلا تھا۔

    اچانک ننھے میاں کی نظر آم کی اس گٹھلی پر پڑی جو اس نے کچھ دنوں پہلے باغیچے کی کیاری میں پھینکی تھی۔ وہ گٹھلی ایک طرف سے کھُل گئی تھی اور ایک ننھا پودا وہاں سے سر نکالے کھڑا تھا۔ اُس نے منے میاں کو زور سے پکار کر اس گٹھلی کی طرف توجہ دلائی۔

    ’’ منے دیکھو آم کا پودا نکل رہا ہے ‘‘

    منے اور ننھے میاں اس چھوٹے سے پودے کے گٹھلی سے نکلنے پر خوشی سے چلانے لگے۔

    ’’آم کا پودا ۔۔۔ واہ واہ ۔۔۔ اب ہمارے باغیچے میں آم کا درخت اُگے کا جہاں خوب سارے میٹھے آم آئیں گے اور ہم مزے سے کھائیں گے‘‘

    امی اُن دونوں کا شور سُن کر باغیچے میں آگئیں اور انہیں بتایا کہ اب اس گٹھلی کو کس طرح اور کس جگہ زمین میں دبانا ہے کہ آم کا یہ پودا جڑ پکڑ سکے اور بڑا ہوسکے۔ سب سے پہلے انہوں ایک بڑی اور ایسی جگہ زمین پر اس گٹھلی کو زمین میں بویا جہاں ایک بڑے درخت کو پھلنے پھولنے کے لیے با آسانی جگہ دستیاب تھی اور دھوپ بھی خوب لگنے کے آثار تھے۔ اب ننھے اور منے میاں پیسوں کے درخت کو بھول کر آم کے درخت کی آبیاری میں لگ گئے ۔ اچھی دیکھ بھال اور کھاد و سورج کی گرمی ملنے سے وہ پودا دیکھتے ہی دیکھتے بڑا ہونے لگا اور چند ہی سالوں میں ایک تناور درخت بن گیا۔

    ننھے اور منے میاں نے نہایت صبر اور محنت کے ساتھ اپنے آم کے درخت کی خوب دیکھ بھال کی۔ کئی پرندے بھی اس شاندار لہلہاتے درخت پر بیٹھتے اور کوئل بھی وہاں بیٹھ کر گانا گاتی تو انہیں بہت اچھا لگتا۔ ننھے اور منے میاں کی چھوٹی بہن گڑیا کے لیے ابو نے اس درخت پر جھولا بھی ڈال دیا تھا۔ اب اس پیڑ پر بہار کے موسم میں بور آنے لگے اور ایک گرمی کے موسم میں وہ بور کھٹی میٹھی چھوٹی چھوٹی کیریوں میں بدل گئے۔ اس سال برسات میں ننھے اور منے میاں نے خوب میٹھے اور تازہ آم جب اپنے درخت سے اُتارے اور امی ابو اور بہن کے ساتھ مل کر کھائے تو بہت مزا آیا ۔ انہوں نے اپنے درخت کے آم محلے کے دیگر گھروں میں بھی بانٹے اور سب سے دعائیں اور محبتیں پائیں۔

    اب کالج جانے والے ننھے اور منے میاں اپنے آم کے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر اپنے گزرے دنوں کو یاد کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ انہوں نے بچپن میں ایک بار پیسے کا درخت اُگانے کی بھی کوشش کی تھی۔ لیکن جو محنت کا میٹھا پھل انہیں اپنے آم کے درخت کی دیکھ بھال سے ملا وہ بھلا پیسے کے خیالی درخت میں کہاں ملتا۔

    بچو! ایک پھل دار درخت یا پودا محبت اور توجہ مانگتا ہے اور زندگی بھر خوشیاں دیتا ہے لیکن پیسے اور مادی چیزوں کا نہ ہی درخت اُگایا جاسکتاہے اور نہ ہی پیسے اور چیزوں سے حقیقی خوشی خریدی جاسکتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے