گدھے کے سینگ
گدھا کئی کہاوتوں میں شامل ہے۔ جب کسی آدمی کو بےوقوف کہنا ہو تو ہم جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ وہ گدھا ہے۔ کسی شخص کے چپ چاپ کہیں سے اڑنچھو ہوجانے پر کہتے ہیں کہ وہ ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ تمہیں معلوم ہے کہ گدھے کے پہلے سینگ تھے پھر اس کے سینگ کیسے غائب ہوئے۔
پرانے زمانے میں کچھ جانوروں نے ایک جلسہ کیا اور طے کیا کہ وہ دوسرے جانوروں سے الگ ہو کر اپنی سرکار بنائیں گے۔ اس جلسے میں گدھا، شیر، ہاتھی اور خرگوش پیش پیش تھے۔ انہوں نے اپنی ایک چھوٹی سی فوج بنا لی۔ اس فوج کا کمانڈر ایک گدھے کو بنایا گیا۔ وہ بہت عقل مند سمجھا جاتا تھا، اسی لیے ہاتھی یا گینڈے کی بجائے اسے سرداری دی گئی۔
سارے جانور گدھے سے ڈرتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ اس کے نکیلے سینگوں سے خوف کھاتے تھے۔ جنگل کا راجہ گدھے سے بہت خوش تھا، اس لیے کہ گدھا اس کے لئے بہت سے کام کرتا تھا۔ کام کا اتنا بھاری بوجھ اور کوئی جانور نہیں اٹھا سکتا تھا۔ (آج جب کسی پر کام پڑتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اسے گدھے کی طرح لاد دیا)۔
گدھا بہت مگن رہتا۔ سارے جانوروں پر اس کا رعب تھا۔ ایک زراف ہی ایسا تھا جو اس کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ وہ اپنے قد کی وجہ سے بہت اکڑتا تھا اور دل ہی دل میں گدھے سے خار کھاتا تھا، دونوں میں ان بن شروع ہو گئی، لیکن دونوں کھل کر سامنے نہیں آئے۔ بس خاموشی سے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتے رہے۔
گدھا پڑھا لکھا تھا۔ وہ صبح سویرے جانوروں کو پریڈ کراتا اور پھر انہیں پڑھانے بیٹھ جاتا جنگل میں ہر سال کشتیاں ہوتیں۔ گدھے نے بھی اپنی ٹیم میدان میں اتار دی۔ تین ٹیموں میں مقابلہ تھا۔ گدھے کی ٹیم دوسرے نمبر پر آ گئی۔ اس نے اس طرح سینگ چلائے اور ایسی دولتیاں جھاڑیں کہ سب پریشان ہو گئے۔ اب تو گدھا اور بھی آسمان پر چڑھ گیا۔ اس نے بات بات پر جانوروں کو ستانا شروع کر دیا۔ آخر شکایت راجہ کے پاس پہنچی۔ گدھا غرور کے نشہ میں ایسا چور تھا کہ اس نے راجہ کی بات بھی نہ مانی۔ وہ اسی طرح سینگ مارتا رہا اور جانوروں کو زخمی کرتا رہا۔ ایک دن جنگل کے سارے جانور راجہ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے۔
راجہ بہت انصاف پسند تھا۔ رعایا کہ فریاد سن کر اسے بہت غصہ آیا۔ اس نے گدھے کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔ گدھے کو گرفتار کر کے راجہ کے سامنے پیش کیا گیا تو راجہ نے حکم دیا کہ گدھے کے سینگ جڑ سے کاٹ دیے جائیں۔ پھر کیا تھا، سارے جانوروں نے گدھے کو دبوچ لیا اور اس کے سینگوں کو جڑ تک کھرچ کر رکھ دیا۔ گدھا تکلیف سے بےہوش ہو گیا۔
جب گدھے کو ہوش آیا تو وہ بالکل بدل چکا تھا۔ اب وہ بالکل سیدھا ہو گیا تھا۔ وہ چپ چاپ سب سے الگ تھلگ رہنے لگا۔
اس دن سے لے کر آج تک گدھے کے سر پر سینگ نہیں اگے۔
(کھلونا، نئی دہلی، 1974)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.