’’واہ کتنا پیارا گلابی خرگوش ہے۔‘‘ سائق نے جب برآمدے میں ایک ہری رنگ کی پلیٹ میں خرگوش کو دیکھا تو وہ خوشی اور حیرت سے چلا اٹھا۔ سائق نے آگے لپک کر اسے پکڑنا چاہا تو خرگوش اچھل پڑا۔ خرگوش حرکت کر رہا تھا۔ شائق نے غور سے خرگوش کو دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ خرگوش کپکپا رہا ہے۔
’’میرے خیال میں برآمدے میں ٹھنڈک بہت زیادہ ہے، اس لیے اسے سردی لگ رہی ہے۔‘‘ سائق نے سوچا۔ ’’مجھے اسے کچن میں رکھنا ہوگا تاکہ اسے حرارت مل سکے۔‘‘
شائق کو خرگوش سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔ شائق نے احتیاط سے پلیٹ اٹھائی، خرگوش پلیٹ میں بیٹھا ہلکا ہلکا کپکپا رہا تھا۔ شائق نے پلیٹ باورچی خانے کے اندر ہیٹر کے پاس رکھ دی۔
لیکن ۔۔۔!
خرگوش نے اب بھی کپکپانا بند نہیں کیا تھا۔ خرگوش کی یہ حالت دیکھ کر شائق اداس سا ہوگیا۔ وہ اداس بیٹھا تھا کہ اس کا دوست’’احمد‘‘ آ گیا۔ احمد نے کہا کہ آؤ باہر جاکر کھیلتے ہیں۔ شائق نے ایک نظر خرگوش پر ڈالی اور احمد کے ساتھ باہر کھیلنے چلا گیا۔ شائق کھیلنے میں ایسا مگن ہوا کہ خرگوش کو بھول گیا مگر جب وہ کھیل کر واپس گھر آیا تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔ شائق کی امی کچن میں پریشانی کے عالم میں کھڑی تھی۔ انہوں نے گلابی رنگ کی جیلی کو اٹھا کر ٹیبل پر رکھا۔
’’یہ بہت حیران کن بات ہے۔‘‘ شائق کی امی بولی۔’’مجھے پکا یقین ہے کہ میں نے یہ جیلی برآمدے میں رکھی تھی۔‘‘
’’کیسی جیلی؟‘‘ شائق نے مداخلت کی۔
امی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر بولی: ’’یہ گلابی رنگ کا خرگوش۔‘‘ وہ ایک لمحے کے لئے رکی پھر بولی۔ ’’یہ خرگوش میں نے کریم اور اسٹرابیری سے بنایا تھا۔ یہ دیکھنے میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ اسے میں نے ہرے رنگ کی اس پلیٹ میں رکھا لیکن۔۔۔۔ اب یہ خرگوش سلامت نہیں رہا۔ گرمائش کی وجہ سے یہ پگھل چکا ہے، مجھے یقین ہے کہ میں نے اسے باہر برآمدے میں رکھا تھا تاکہ یہ ٹھنڈا رہے۔۔۔ پتا نہیں اسے کیا ہو گیا؟‘‘
’’یہ میری غلطی ہے۔‘‘ شائق نے اعتراف کیا۔ وہ ذہنی طور پر الجھ رہا تھا مگر اس نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے سچ سچ بتا دیا۔ ’’میں نے اس جیلی کو ہلتے ہوئے دیکھا تو میں سمجھا کہ شاید خرگوش ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے کانپ رہا ہے، اسے ٹھنڈ سے بچانے کے لئے میں نے اسے برآمدے سے اٹھا کر کچن میں ہیٹر کے پاس رکھ دیا۔‘‘
’’اوہ پیارے شائق! تم نے تو کافی بےوقوفوں والی حرکت کی۔ اب ہم چائے کے ساتھ کیا کھائیں گے۔‘‘ شائق کی امی نے اسے پیار سے ڈانٹا۔’’اب تم بتاؤ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔‘‘
’’پگھلی ہوئی جیلی کو ہم کسی پیالے میں ڈال لیتے ہیں۔‘‘ شائق نے مشورہ دیا۔
’’مجھے یقین ہے کہ اس کا ذائقہ عمدہ ہوگا۔۔۔ اگر یہ خرگوش اسی طرح صحیح سلامت ہوتا تو حقیقت یہ ہے کہ میں اسے کھانا قطعاً پسند نہیں کرتا۔۔۔ کیوں کہ یہ بالکل اصلی خرگوش لگتا ہے۔‘‘ شائق نے کہا۔
’’ہونہہ۔۔۔ یہ ٹھیک رہےگا۔‘‘ شائق کی امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.