Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہنڈولہ

MORE BYعطاء الرحمٰن طارق

    باشے نے چادر منہ پر کھینچ لی۔ دھوپ جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی چادر کے سوراخوں سے اسے کاٹ رہی تھی۔ وہ کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ سورج کچھ اور اوپر آیا تو دھوپ سوئیوں کی طرح پپوٹوں میں چبھنے لگی۔ تبھی میونسپلٹی کی صفائی والی بائی کی کرخت آواز سنائی دی۔ باشے نے چادر سمیٹی اور فٹ پاتھ سے اٹھ کر برکت چائے والے کے ٹھیلے پر بیٹھ گیا۔ اتوار کا دن تھا۔ میونسپل گارڈن میں آس پاس کے بچے، بوڑھے اور جوان جمع ہو رہے تھے۔ برکت چولہا جلا کر چائے بنانے کی تیاری کر رہا تھا۔

    باشے نے کسمسا کر بدن کو ڈھیلا چھوڑا اور گہری سانسیں لینے لگا۔ ستمبر کا مہینہ تھا۔ دھوپ میں گرمی تھی اور ہوا میں ٹھنڈک۔ پتیوں کے ڈھیر فٹ پاتھ کے ایک کنارے لگے ہوئے تھے۔

    جیسے جیسے دن چڑھتا۔ آئس کریم، قلفی، برف کے گولے، چنے مر مرے، چاٹ مسالے، املی، بیر اور الم غلم چیزیں لے کر ٹھیلے والے گارڈن سے لگی گھماؤ دارفٹ پاتھ پر آنے لگتے۔ گھوڑے والے چھوٹے بڑے سجے سجائے ٹٹو لے آتے۔ جھولے والے، چکری اور ہنڈولہ لاکر کھڑا کر دیتے۔ چھٹی کے دن تو جیسے میلہ سالگا رہتا۔

    اطراف کے فلیٹوں سے بچے رنگ برنگے کپڑے پہنے آیاؤں، ماماؤں یا اپنی ممی پپا کے ساتھ آتے۔ وہ میدان میں ہڑدنگ مچاتے، جھولوں کی طرف لپکتے، ان کے پیچھے بڑے ہائیں ہائیں کر کے بھاگتے، کبھی ڈانٹتے ڈپٹتے کبھی صرف آنکھیں دکھا کر رہ جاتے، مگر بچے ان کی پرواہ کم ہی کرتے۔ پھر ان کی فرمائشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جو ضد پر اور کبھی کبھی رونے بسورنے پر ختم ہوتا۔ گھوڑسواری کے ایک دو نہیں، کئی کئی چکر ہو جاتے۔ وہ جھولوں پر بیٹھتے، آئس کریم کھاتے، مائیں پیار بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتی رہتیں۔ نوکرانیاں پانی کی بوتل، گیند، دھوپ کی عینک اور ٹوپی سے لدی پھندی اپنی ہم پیشہ عورتوں سے پہچان بڑھاتیں اور گپ شپ کرنے کھڑی ہو جاتیں۔ ٹھیلے اور سودے والوں کی تو جیسے بن آتی۔

    باشے بھی چائے پی کر کام پر لگ جاتا۔ رگڑے کی پیالیاں دھوتا، گھوڑے کے ساتھ تیز تیز چلتا۔ جھولے کو دھکا لگاتا۔ ان کاموں کے اسے روپے دو روپے مل جاتے۔ تھک جاتا تو ہانپتے ہوئے فٹ پاتھ کے کنارے اکڑوں بیٹھ جاتا اور ہوا میں گھومتے ہنڈولے کو دیکھتا رہتا۔

    آج اس کے پتا نہیں کتنے چکر ہو چکے تھے۔ سارا بدن پسینے سے شرابور تھا۔ جب کوئی بچہ چابک مار کر گھوڑا دوڑانے کی کوشش کرتا تواسے گھوڑے قابو میں کرنے کے لئے دوڑ لگانی پڑتی۔ ارے ارے گرے گا، ٹارزن کے بچے۔ وہ دل ہی دل میں کچکچاتا۔

    ابھی وہ دم لینے کو ہی تھا کہ اسے کانتی نے آواز دی۔ کانتی ہنڈولہ چلاتا تھا۔ وہ بھاگا بھاگا اس کے پاس پہنچا۔ ہنڈولے کے سبھی خانوں میں بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ سب سے اوپری خانے میں لال پیلی جرسی پہنے اسی کی عمر کا ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ صرف ایک خانہ خالی بچ رہا تھا۔ جھولے کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس خانے میں بھی کسی بچے کا بیٹھنا ضروری تھا۔

    اوپر بیٹھے ہوئے لڑکے نے چلا کر کہا۔

    ’’بھیا، جھولا چلاؤنا!‘‘

    دوسرے بچے بھی ٹھنکنے لگے۔ کانتی بولا ’’ابھی چلاتا ہے بابا لوگ‘‘۔ پھر اس نے باشے کو جھولے میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ باشے نے اوپر بیٹھے ہوئے لڑکے کی طرف گردن گھماکر دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ابھی میرا خانہ نیچے ہی سہی بچو مگر کبھی تو اوپر آئےگا اور کود کر جھولے میں بیٹھ گیا۔

    کانتی نے خانے کی سانکلی چڑھائی اور ہنڈولہ زوئیں زوئیں ہوا میں جھکولے لینے لگا۔

    مأخذ :
    • کتاب : ہنڈولہ اور دوسری کہانیاں (Pg. 6)
    • Author : عطاءالرحمن طارق
    • مطبع : گل بوٹے پبلی کیشنز ممبئی (2012)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے