ہرن کے پیٹ میں مشک
آپ نے ہرن تو ضرور دیکھا ہوگا۔ جی ہاں، وہی دبلا پتلا، خوب صورت آنکھوں کا نور جو اس قدر تیز دوڑتا ہے کہ آندھی وطوفان بھی اس کی گرد کو نہیں پا سکتے۔ ہرن کا رنگ عموماً کتھی یا خاکی ہوتا ہے۔ آپ نے کالے رنگ کا ہرن غالبا کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ درحقیقت کالے رنگ کا ہرن ہر دورمیں پایا جاتا۔ یہ زیادہ تر شمالی ہندوستان میں ہمالیہ کے جنگلوں میں ہی پایا جاتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہرن کا رنگ کالا ہونا تو کوئی ایسی انوکھی بات نہیں ہے۔ جس طرح بہت سے دوسرے جانوروں، پرندوں اور خود انسانوں کا رنگ ہوتا ہے، اسی طرح اگر ہرن بھی کالے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ دراصل بات یہ کہ اس ہرن کے پیٹ میں ایک ایسی چیز چھپی ہوتی ہے جس کی خوشبو ساری دنیا میں جواب نہیں۔ اس عجیب خوشبو کو مشک یا مشک نافہ کہتے ہیں۔ مشک کا عطر بنایا جاتا ہے، اس کے علاہ دواؤں میں بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہرن کا رنگ کالا کیوں اور اس کے پیٹ میں مشک کیوں ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں ایک مزے دار کہانی سنو:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب نہ تو ہرن کا رنگ کالا تھا اور نہ ہی اس کے پیٹ میں مشک تھا۔
کسی جگہ ایک بہت بڑے دریا کے کنارے ایک گنجان جنگل آباد تھا۔ اس جنگل میں ہرقسم کے جانور رہتے تھے۔ جنگل کا بادشاہ شیر تھا۔ رعایا بڑی خوش حال تھی۔ جنگل میں کھانے پینے کی کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ سارے جانور سکھ اور اطمینان کی زندگی گزار رہے تھے۔ جنگل کے نزدیک جو دریا تھا اس میں گھڑیال کی حکومت تھی۔ گھڑیال شیر کی طرح قابل حکمران نہ تھا بلکہ انتہائی ظالم، لالچی اور مغرور تھا۔
گھڑیال چاہتا تھا کہ اس کی حکومت دریا کے علاوہ جنگل پربھی ہو جائے۔ حالانکہ ایسا ممکن نہ تھا، کیونکہ گھڑیال پانی کا جانور تھا، لیکن لالچی انسان ہو یا جانور ممکن اور ناممکن کو سوچتا ہی نہیں۔ اس کے علاوہ جنگل کے سارے جانور خوش تھے۔ جب کسی ملک کی رعایا مطمئن ہوتو دشمن کی نگاہ اس کی طرف نہیں اٹھ سکتی۔
ایک بار گھڑیال کو ایک ترکیب سوجھی۔ صبح ہی صبح ہر روز جانور دریا پرپانی پینے آیا کرتے تھے۔ بس گھڑیال کنارے کے قریب ہی پانی میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ اتفاق سے وہاں سب سے پہلے گیدڑ پانی پینے آیا۔ گھڑیال نے جھٹ اس کی دم پکڑلی۔ گیدڑ گھبرا گیا۔ گھڑیال نے کہا،
’’بول تیرا راجہ کون ہے؟‘‘
’’میرا راجہ توشیر ہے؟‘‘ گیدڑ بولا۔
گھڑیال نے غصے میں کہا، ’’اگر جان کی خیر چاہتا ہے تومجھے اپنا راجہ کہہ۔‘‘
گیدڑ حالانکہ گھبرا گیا تھا لیکن اس نے اپنے اوسان درست کرکے کہا، حضور میں ایک ادنیٰ جانور ہوں اور آپ ہیں دریا کے بادشاہ۔ آپ نے میری گندی دم پکڑ رکھی ہے۔ چھپی چھپی۔‘‘
گھڑیال نے فورا گیدڑ کی دم چھوڑ دی۔ گیدڑ چھلانگ مار کر دور بھاگا اور کہنے لگا، ’’نالائق، تجھ جیسے بھی کہیں راجہ بنا کرتے ہیں۔‘‘
گھڑیال جل بھن کررہ گیا اور گیدڑ بھاگم بھاگ شیر کے پاس پہنچا اور اسے سارا قصہ کہہ سنایا۔
شیر اسی وقت دریا کے کنارے جا کر دہاڑنے لگا، ’’بزدل گھڑیال، میری؟ کو بہکا رہا ہے۔ اگرہمت ہے تو باہر نکل کر مقابلہ۔‘‘
گھڑیال قریب ہی پانی میں چھپا ہوا کچھ سن رہا تھا۔ چوں کہ بزدل تھا اس لئے اس کی بات کا جواب دینے کی ہمت نہ پڑی۔
شیر چلا گیا۔ گھڑیال سوچتا رہا کہ آخرکوئی ترکیب تو ایسی نکالی جائے کہ شیر کی حکومت کمزور پڑ جائے اور رعایا میں بے چینی پھیلے تاکہ میں آسانی سے جنگل کا راجہ بھی بن سکوں۔ اچانک ایک ترکیب اس کے ذہن میں آیا اور وہ مسکرانے لگا۔
شام کے وقت روز کی طرح اس دریا میں پانی پینے آیا۔ گھڑیال نے پانی سے باہر سر نکال کر کہا، ’’سلام مہاراج۔‘‘
’’میں راجہ نہیں ہوں۔‘‘ ہاتھی نے جواب دیا۔ ’’راجہ تو شیر ہے۔ میں اس کا رعایا ہوں۔‘‘
’’کیوں مذاق کرتے ہیں آپ مہاراج۔ گھڑیال نے کہا۔
’’مذاق‘‘ ہاتھی نے حیران ہوکر کہا،’’کون مذاق؟‘‘
’’آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ جنگل کے رعایا نہیں ہیں۔ اجی، کیا یہ مذاق ہے؟‘‘ گھڑیال بولا۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں کہ جنگل کا راجہ شیر ہے۔ میں نہیں ہوں۔‘‘ ہاتھی نے جواب دیا۔
’’کمال ہے!‘‘ گھڑیال نے مکاری سے کہا،؟ جیسا لمبا چوڑا جسم، بارعب چہرہ، کیا آپ سے بھی زیادہ بڑا ہے؟‘‘
’’نہیں، شیرمجھ سے بڑا نہیں ہے‘‘ ہاتھی نے جواب دیا۔’’جنگل کا کوئی بھی جانور میرے جیسا نہیں ہے۔ مگر شیرچوں کہ انتہائی پھرتیلا اور ہوشیار ہے، اسی لئے وہ راجہ بنا دیا گیا ہے۔‘‘
’’اجی چھوڑ دیئے۔‘‘ گھڑیال نے قہقہہ لگاکر کہا، ’’بس رہنے بھی دیجئے ان بیکار باتوں کو۔ کیا آپ کچھ کم پھرتیلے اور ہوشیار ہیں؟ جب آپ سب سے بڑے ہیں تو آپ کو ہی راجہ بننا چاہئے۔ مجھے دیکھئے، دریا کا سب سے زیادہ بڑا جانور ہوں۔ اس لئے دریا کا راجہ میں ہی ہوں۔‘‘
’’ہاتھی کچھ سوچنے لگا۔ گھڑیال نے جب دیکھا کہ اس کی چکنی چپڑی باتوں کا جادو ہاتھی پرچلنے لگا تو اس نے اور آگ لگائی۔‘‘ بھلا شیر کہاں اورآپ کہاں۔ وہ آپ کی ٹانگوں کے برابر بھی تو نہیں ہے۔ آپ کو اسے راجہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘
’’مگرمیں کروں کیا؟‘‘ ہاتھی نے کہا۔
’’راجہ بن جائیے۔‘‘ گھڑیال نے جواب دیا۔
’’راجہ بننا آسان تو نہیں‘‘ ہاتھی نے کہا، ’’جنگل کی ساری رعایا شیر سے بہت ہی زیادہ خوش ہے۔ پھر مجھے کون راجہ بنائےگا؟‘‘
گھڑیال نے ذرا دیر سوچ کر کہا، ’’بس رعایا کو شیر سے ناراض کر دو۔ اس کی حکومت کمزور پڑ جائےگی۔ وہ جنگل چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوگا اورآپ کے لئے میدان صاف ہو جائےگا۔‘‘
ہاتھی نے سوال کیا، ’’رعایا کو شیر سے کس طرح ناراض کروں؟‘‘
’’بہت آسان ہے۔‘‘ گھڑیال نے جواب دیا، ’’ہر روز دو چار جانوروں کو مار ڈالو۔ جانور شیر سے فریاد کریں گے، مگرتم اپنا کام کرتے رہنا اور سب میں دھیرے دھیرے یہ مشہور کر دینا کہ شیر خود جانوروں کو مار رہے ہیں، سمجھے کچھ؟‘‘
’’بالکل سمجھ گیا،‘‘ ہاتھی نے خوشی سے اچھل کر کہا، ’’کیا ترکیب بتائی ہے۔ مگرجب میں راجہ بن جاؤں گا توآپ کو کیا دوں گا؟‘‘
گھڑیال بولا، ’’صرف یہ کہ راجہ تو تم ہی رہوگے مگر جنگل میں سکہ میرا چلےگا اور ہاں کبھی کبھار کچھ جانور میرے لئے بھیج دیا کرنا بس۔‘‘
’’بس اتنی سی بات۔‘‘ بےوقوف ہاتھی نے کہا اور مکار گھڑیال کی باتوں میں آکر اس دنیا میں اپنے ہی ہاتھوں آگ لگانے چلا۔
گھڑیال نے سوچ رکھا تھا کہ جب جنگل میں خوب گڑبڑ مچ جائےگی تو وہ جنگل میں آگ لگا دےگا۔ جانور آگ سے گھبرا کر دریا کی طرف آئیں گے۔ اس وقت وہ بے بس ہوں گے۔ بس میں جو چاہوں گا ان سے منوا لوں گا۔
اسی دن سے جنگل میں دو ایک جانور ہر روز مرنے لگے۔ سارے جنگل میں کھلبلی مچ گئی۔ جانوروں نے شیر سے فریاد کی۔ شیر بھی فکرمیں ڈوب گیا۔ اس جنگل میں شیر کی حکومت میں آج تک ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔
شیر نے جانوروں سے کہا، ’’آپ اطمینان رکھیں، میں جلد پتہ لگا کر اس بدمعاش کو سخت سزادوں گا جو جانوروں کا دشمن ہے۔
دن گزرتے گئے، مگر جانوروں کا مارا جانا بند نہ ہوا۔ ہاتھی چپکے چپکے جب بھی ملتا جانوروں کو مار ڈالتا اور سب سے؟، دیتا۔
’’ارے بےوقوفو! شیر خود ہی تو جانوروں کو مار ڈالتا ہے۔ ظالم خود راجہ بنا بیٹھا ہے اور ظلم ڈھا رہا ہے۔‘‘
جانوروں کو ہا تھی کی اس بات پر یقین آنے لگا وہ سوچنے لگے۔
’’ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ شیر کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا جنگل میں ایسی حرکت کرنے کی ہمت کرے۔ یہ ضرور شیر ہی کی بدمعاشی ہے۔ اس کو جنگل سے باہر نکال دینا چاہئے۔ ورنہ یہ رفتہ رفتہ ہم سب کوختم کر دےگا۔‘‘
شیر کو ان تمام باتوں کی خبر نہ تھی۔ وہ اور ان دنوں بڑا پریشان تھا۔ ایک دن وہ ایک گپھا کے سامنے سر جھکائے ٹہل رہا تھا اسے شور و غل سنائی دیا۔ اس نے دیکھا۔ سارے جانور چلاتے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ شیر نے ان سے دریافت کیا۔
’’بدمعاش‘‘ جانورایک ساتھ بولے، ’’بڑا بھولا بنتا ہے۔ اتنے بہت سے جانوروں کو بےقصور مار ڈالا۔ بھاگ جا یہاں سے ورنہ تیری بوٹیاں نوچ کر پھینک دیں گے۔‘‘
’’مگر میری بات تو سنو۔ مجھے بتاؤ تو کہ کیا ہوا ہے؟‘‘ شیر نے تعجب سے پوچھا مگر جانوروں نے جواب دینے کی بجائے اس پرحملہ کر دیا۔ شیر جان بچا کر بھاگا۔
جنگل میں بھاگ دوڑ مچی ہوئی تھی۔ رعایا غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔ راجا جنگل چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ گھڑیال نے سوچا موقع اچھا ہے اور بس اس نے جنگل میں آگ لگا دی۔
جنگل کی آگ چاروں طرف پھیل گئی۔ جانور سارے کے سارے گھر کر رہ گئے۔ آخر باہر نکل کر جائیں کس طرح؟ ہرطرف آگ ہی آگ تھی۔
ہاتھی سوچ رہا تھا، ’’یہ آگ کس نے لگائی ہے۔ اگر جنگل جل گیا تو میں راجہ کس طرح بنوں گا؟‘‘
اتفاق سے جب گھڑیال آگ لگا رہا تھا تو وزیراعظم ہرن، جو کہ دور دراز کے جنگلوں کا دورہ کر کے واپس آ رہا تھا، کی نظر اس پر پڑ گئی۔
’’گھڑیال جنگل کوا ٓگ لگا رہا ہے!‘‘ ہرن تعجب سے بڑبڑایا۔ ’’ضرور جنگل میں کچھ گڑبڑ ہے۔‘‘ اسی وقت اس نے شیر کو جنگل سے دور بے تحاشہ بھاگتے ہوئے دیکھا۔
’’مہاراج، مہاراج‘‘ ہرن نے راجہ کو آواز دی۔ ’’ذرا ٹھہریئے، یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘
شیرنے کہا، ’’وزیراعظم بھاگو، جانوروں نے ہمارے خلاف بغاوت کر دی ہے۔‘‘
’’راجہ صاحب۔‘‘ ہرن نے کہا، ’’اس وقت جانوروں کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ وہ آگ میں گھرے ہوئے ہیں۔ میں نے ابھی گھڑیال کو آگ لگاتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
’’گھڑیال کو؟‘‘ شیر نے چونک کر کہا، ’’اچھا، تو یہ بات ہے۔ چلو وزیر اعظم جنگل میں۔‘‘
ہرن اور شیر جلتے ہوئے جنگل میں کود پڑے۔ جنگل کے بیچ سارے جانور سہمے ہوئے کھڑے تھے۔ آگ ہر لمحہ ان کے قریب آتی جا رہی تھی اور ہاتھی رو رو کر سارے جانوروں کو اصل بات بتا رہا تھا۔ دراصل اسے اپنی نادانی پر افسوس ہو رہا تھا، کیوں کہ اب اسے خود بھی آگ سے بچنے کی کوئی امید نہ رہ گئی تھی۔
شیر کو دیکھ کر ہاتھ گڑ گڑانے لگا۔
’’مجھے معاف کر دو مہاراج۔ سارا قصہ میرا ہے۔ مجھے گھڑیال نے بہکا دیا تھا۔‘‘
اسی وقت ہرن نے کہا، ’’یہ رونے دھونے کا وقت نہیں ہے ہاتھی میاں۔ جلدی ڈیرا پر جاؤ اور اپنی سونڈ میں پانی لاکر آگ بجھاؤ۔‘‘
ہاتھی فوراً دریا پر گیا۔ وہاں گھڑیال قہقہے لگا رہا تھا۔
’’کہو ہاتھی میاں۔‘‘ اس نے کہا، ’’اب تو راجہ بن ہی گئے۔‘‘
’’چپ بے مردود۔‘‘ ہاتھی نے گرج کر کہا، ’’ورنہ ہڈیاں برابر کر دوں گا۔‘‘
ہاتھی دریا میں سے پانی لے کر آگ بجھاتا رہا۔ آخرکار آگ بجھ گئی اور جانوروں نے اطمینان کا سانس لیا۔ سب نے شیر سے معافی مانگی۔ سب سے زیادہ شرمندہ ہاتھی تھا۔
شیر نے ہاتھی سے کہا۔ ’’تمہارا قصور بہت بڑا ہے۔ مگر تم نے جنگل کی آگ بجھائی ہے، اس لئے ہم تمہیں معاف کرتے ہیں۔ یاد رکھو، اگر اپنے گھر میں خود ہی آگ لگاؤگے تو خود بھی جل کر مر جاؤگے۔
اس کے بعد سب نے وزیر اعظم کو دیکھا جن کی کھال جل کر سیاہ پڑ چکی تھی۔
شیر نے کہا، ’’وزیر اعظم آپ مجھے واپس بلا کر لائے۔ آپ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی خاطر آگ میں کود پڑے اور آپ کا رنگ جل کر کالا ہو گیا۔ اس کے علاوہ آپ نے آگ بجھانے کی ترکیب ہاتھی کو بتائی۔ ان تمام باتوں کے لئے میں اور جنگل کے تمام جانور آپ کے احسان مند ہیں۔ آپ نے جو یہ نیک کام کیا ہے، اس کے عوض آپ کا جسم ایک خوشبو سے بھر جائےگا جس کی وجہ سے دنیا والے آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ میں حالانکہ راجہ ہوں مگر آپ کی نیکی کی بدولت آپ کو سلام کرتا ہوں۔‘‘
اسی دن سے اس کالے رنگ کے ہرن کے پیٹ میں سے مشک نکلنے لگا جو کہ بڑی ہی قیمتی چیز سمجھی جاتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.