Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اقبال کی فکر

ناصرہ شرما

اقبال کی فکر

ناصرہ شرما

MORE BYناصرہ شرما

    اقبال کے دادا جان کو شکر کی بیماری تھی جس کی وجہ سے ان کی آنکھوں کی روشنی پر خاصا اثر پڑا تھا۔ وہ اونچا بھی سنننے لگے تھے۔ رات کو کئی بار باتھ روم جانا پڑتا تھا۔ گھر میں سب کو ہدایت تھی کہ ساری رات راہداری کی بتی جلتی رہے تاکہ دادا کو اندھیرے میں کسی چیز سے ٹکرانا نہ پڑے اور وہ روشنی میں آرام سے اپنی ضرورت سے فارغ ہو سکیں۔ اکثر بجلی چلی جاتی تو لالٹین جلا کر رکھ دی جاتی تھی۔ ادھر تو بڑا آرام ہو گیا تھا جب سے گھر میں انورٹر لگ گیا تھا۔ دادا جان بھی خوش تھے۔

    آج ہفتہ بھر سے عجیب حال تھا۔ بجلی گھنٹہ آدھے گھنٹہ کے لئے آتی اور پھر چلی جاتی۔ انورٹر بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ امی نے تیل بھی منگوانا بند کر دیا تھا۔ کسی کو دھیان بھی نہ رہا کہ اس کا انتظام کر لیا جائے۔ اقبال نے اپنی سائنس ٹیچر سے سن رکھا کہ بزرگ اکثر باتھ روم میں گرتے ہیں اور ان کی کولہے کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ اقبال دادا جان کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتا تھا۔ ان کی ہر بات سے واقف تھا آج دادا جان کو اس فکر میں نیند نہیں آ رہی تھی کہ وہ باتھ روم اندھیرے میں کیسے جائیں گے۔ موم بتی اور شمع اپنے سرہانے رکھوا لیا تھا۔ ٹارچ بھی رکھی ہوئی تھی تو بھی وہ بے چین سے کروٹ بدل رہے تھے۔

    ’’دادا جان! آپ پریشان کیوں ہیں۔ میں ہوں نہ؟ آپ کو باتھ روم لے جاؤں گا۔‘‘

    ’’ارے بیٹے۔ تم کو نیند لگ گئی اور مجھے اکیلا جانا پڑا۔۔۔ یہ ٹارچ بھی عجب ہے کبھی جلتی ہے تو کبھی اس کا سوئچ اٹک جاتا ہے۔ ہوا تیز ہے موم بتی تو بجھ جائےگی‘‘

    ’’مگر جب میں آپ کو ساتھ لے کر جاؤں گا تو ایسا کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

    اقبال کو دادا جان کی بات سن کر ہنسی آ گئی آخر وہ ایک چھوٹی سی بات کو لے کر اتنا پریشان کیوں ہیں؟

    آدھی رات کو اقبال کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا دادا جان ماچس سے موم بتی جلا رہے ہیں۔ وہ جلدی سے بستر سے اٹھا اور ٹارچ جلا کر اس نے دادا کا ہاتھ پکڑا اور ان کو باتھ روم کی طرف لے جانے لگا۔ جب تک وہ اندر رہے تب تک وہ ٹارچ اندر دکھاتا ہوا دروازہ کی آڑ میں کھڑا رہا۔

    ’’جیتے رہو بیٹا۔۔۔ تمہاری نیند خراب کی میں نے۔۔۔ کمبخت اس بیماری نے بھی مجھے کیسا مجبور کر دیا ہے۔ بسیوں بار اٹھو۔۔۔ دادا نے کچھ شرمندہ آواز میں پوتے سے کہا۔ اقبال نے انہیں بستر پر لٹایا اور سوچنے لگا کہ انہیں دادا جان کی گود میں بیٹھ کر کتنی بار اس نے ان کے کپڑے نجس کیے ہیں۔ ایک بار جاڑے کے دنوں میں تو انہیں نہانا بھی پڑا تھا۔ ان کی محبت کہاں تک یاد کی جائے۔ آج وہ مجبور ہیں اور ایک ذرا سی میری خدمت پر شرمندہ۔ بڑھاپا بھی انسان کو کتنا مجبور کردیتا ہے ورنہ اسے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی دادا جان نے اس بیماری سے پہلے اس سے کوئی کام لیا ہو۔‘‘

    اقبال جب اسکول سے لوٹا تو اس نے دیکھا کہ اس کی میز کرسی کمرے سے غائب ہے دادا جان اکیلے کمرے میں لیٹے ہوئے کراہ رہے ہیں۔ وہ امی کے پاس گیا تو پتہ چلا کہ بستر دالان کے پاس والے کمرے میں ہے اور اس کا سامان بھی وہیں ہے وہ کچھ سمجھ نہیں پایا۔ بھوک زور سے لگ رہی تھی۔ اس نے کپڑے بدلے اور کھانا کھانے لگا۔ مگر اس کا دماغ الجھا رہا۔

    ’’امی چچی جان آ رہے ہیں کیا؟‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’میرا سامان دادا کے کمرے سے نکال اس کوٹھری میں کیوں شفٹ کرا دیا۔‘‘

    ’’تمہارے ابو کا خیال ہے کہ تمہاری نیند پوری نہیں ہوتی جس سے تمہاری صحت اور پڑھائی پر اثر ہوگا۔ انہیں کے حکم سے نوکر نے کوٹھری صاف کر کے تمہارا سامان سجا دیا۔‘‘

    اسی وقت ابو گھر میں داخل ہوئے۔ امی کی بات انہوں نے سن لی تھی۔ بیٹے کی طرف دیکھ کر بولے، ’’اب آرام سے پڑھائی کر سکتے ہو۔‘‘

    ’’رات کو دادا جان کو میری ضرورت پڑی تو؟‘‘ اقبال نے پوچھا، ’’اب بیٹا ان کا بڑھاپا ہے تمہاری پوری زندگی سامنے ہے۔ ذرا سی لاپرواہی سے سال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ تم بےفکر ہو کر پڑھو۔ دادا جان اپنا خیال خود کر لیں گے۔‘‘، اتنا کہہ کر ابو کمرے میں چلے گئے۔ اقبال نے کھانا نہیں کھایا وہ اٹھ کر دادا جان کے کمرے میں گیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔

    ’’لگتا ہے اقبال کو کمرہ بدلنا اچھا نہیں لگا۔ شام سے وہ دادا جان کے پاس ہی بیٹھا ہے۔‘‘ رات کے کھکانے کے وقت امی نے کہا۔

    ’’کھانا کھایا؟‘‘ ابو نے پوچھا۔

    ’’نہیں! امی بولیں۔‘‘

    ’’میں بلاتا ہوں‘‘ اتنا کہہ کر ابو اپنے ابا جان کے کمرے میں گئے جہاں انہوں نے دیکھا کہ اقبال دادا جان کے پیروں پر تیل لگا رہا تھا۔ دادا کراہ رہے تھے۔ اقبال کا چہرہ اداس تھا۔

    ’’کیا بات ہے بیٹے! چلو کھانا کھالو‘‘، ابو اس کے پاس جاکر بولے۔

    ’’بھوک نہیں ہے۔‘‘ اقبال نے کہا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا۔

    ’’طبیعت ٹھیک ہے نہ تمہاری۔ اس طرح سر جھکائے کیا سوچ رہے ہو؟‘‘، ابو کو فکر لگی۔ ان کی بات سن کر اقبال نے سر اٹھا لیا۔ باپ کے چہرے کو غور سے دیکھا پھر سر جھکا لیا۔

    ’’ کیا بات ہے؟‘‘ ابو واقعی پریشان ہو اٹھے۔

    ’’میں سوچ رہا تھا کہ ابو کہ ۔۔۔ آپ جب بوڑھے ہوں گے تو اس وقت مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘

    اقبال کی بات سن کر ابو کی آنکھیں بھر آئیں۔ اپنی غلطی کا انہیں احساس ہو چکا تھا۔ وہ کمرے سے نکلے اور نوکر کو آواز دے کر انہوں نے اقبال کے پلنگ اور میز کرسی کو واپس کرنے کے لئے کہا اور گہری سوچ میں ڈوب گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے