Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جادوگر بن گیا بندر

آلوک گپتا

جادوگر بن گیا بندر

آلوک گپتا

MORE BYآلوک گپتا

    اسلم، اکرم، نشا اور لالو چاروں آپس میں بہت گہرے دوست تھے۔ وہ سب مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دن ان کے شہر میں ایک جادو گر آیا۔ اس جادوگر نے اپنے تھیلے سے ایک چھوٹا سا بندر نکالا۔ اس چھوٹے سے بندر کے بچے نے جادوگر کے کہنے پر خوب اچھا کرتب دکھلایا۔ اس کے بعد جادوگر نے پھر سے بندر کو تھیلے میں بند کردیا۔ اسلم، اکرم، نشا اور لالو نے دیکھا کہ بندر جب باہر تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ اداس ہے اور اس نے جو بھی کرتب دکھائے جیسے وہ جادوگر کے ڈر سے زبردستی کر رہا ہو۔

    لالو نے تھیلے کے قریب جاکر پوچھا: ’’بندر بندر! تم اتنے اداس کیوں ہو؟‘‘ اس پر بندر نے خاموشی سے کہا: ’’اس طرح رسیوں سے بندھے ہوئے تھیلے میں رہ کر بھلا کوئی خوش رہ سکتا ہے؟‘‘ سب بچوں کی آنکھوں میں بندر کی اداسی اور اس طرح اس کا قید میں رہنا دیکھ کر آنسو بھر آئے۔ جادوگر لوگوں سے کرتب دکھانے کا پیسہ جمع کرنے میں مصروف تھا۔ لالو نے موقع غنیمت جان کر تھیلے کی رسی کھول دی۔ اس طرح بندر آزاد ہو گیا اور وہاں سے چھلانگ لگاتا ہوا دور جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔

    جب جادوگر نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے اپنی جادو کی چھڑی اٹھائی اور لالو کے سر پر لگائی دیکھتے ہی دیکھتے لالو بندر میں بدل گیا۔

    سب بچوں نے جب اپنے ایک دوست کو بندر بنا ہوا دیکھا تو وہ بھی آپے سے باہر ہو گئے اور بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ لالو کو اس جادو سے نجات دلانے کے لئے مشورہ کرنے لگے۔ اسلم جو ان چاروں میں بڑا اور عقل مند تھا اس نے کہا جادوگر کو سبق سکھانے کے لئے طاقت نہیں بلکہ عقل سے کام لینا پڑےگا۔

    انہوں نے روتے ہوئے جادوگر سے التجا کی کہ وہ ہمارے دوست لالو کو دوبارہ انسان میں بدل دے۔ لیکن ظالم جادوگر زور زور سے قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ: ’’جب تک تم لوگ میرا بندر واپس نہیں کروگے میں تب تک تمہارے دوست کو بھی واپس نہیں کروں گا۔‘‘

    اسلم، اکرم اور نشا جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ جیسے ہی وہ جنگل میں پہنچے تو انہیں وہ بندر دکھائی دیا۔ بندر کے بچے نے ان لوگوں کو پہچان لیا اور اپنے ماں باپ سے سارا ماجرا کہہ سنایا کہ ان بچوں نے اس کو جادوگر کی قید سے چھڑایا ہے۔ بندر نے پوچھا: ’’دوستو! تم چار تھے، جس نے مجھے قید سے آزاد کیا تھا وہ کہاں ہے؟‘‘

    تب تینوں نے کہا کہ : ’’جادوگر نے اسے اپنی جادوئی چھڑی سے بندر بنا دیا ہے اور کہا کہ جب تک ہم تمہیں پکڑ کر اس کے حوالے نہیں کریں گے تب تک وہ لالو کو دوبارہ انسان میں نہیں بدلےگا۔‘‘

    یہ باتیں سن کر بندر کے ماں باپ نے کہا: ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں، چلو ہم راج کماری مورنی کے پاس چلتے ہیں وہ ضرور اس کا کوئی حل بتائیں گی۔‘‘

    وہ سب راج کماری مورنی کے گھر پہنچے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ مورنی نے کہا: ’’بچو! مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم نے ہمارے جنگل کے ایک جانور کو ظالم جادوگر کی قید سے آزاد کرایا۔ میں تمہیں ایک طلسمی پنکھ دیتی ہوں، اس پنکھ کی یہ خاصیت ہےکہ یہ جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس پر کوئی بھی جادو اثر نہیں کرتا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے راج کماری مورنی نے طلسمی پنکھ اسلم کو دیتے ہوئے کہا کہ: ’’بہادر بچے! یہ پنکھ اپنے پاس رکھنا اور اس جادوگر سے جادوئی چھڑی چھین کر اس کے سر پر لگا دینا بس وہ فوراً بندر بن جائےگا اور پھر تمہارے دوست لالو جیسے جادوگر نے بندر بنا دیا ہے اس کے سر پر لگا دینا وہ دوبارہ انسان میں بدل جائےگا۔‘‘

    بچوں نے راج کماری مورنی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی شام ہونے میں کافی دیر تھی۔ بچوں نے فوراً جادوگر کے پڑاؤ کی طرف رخ کیا اور کہا کہ ہمارے دوست لالو کو انسان میں بدل دو ورنہ ہم سے مقابلے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ جادوگر نے غصے سے کہا جب تک تم میرا بندر واپس نہیں کر دیتے میں تمہارے دوست کو بندر ہی بنائے رکھوں گا۔ بچوں نے اشاروں ہی اشاروں میں کچھ بات کی اور تھوڑا دور ہٹ گئے۔

    تھوڑی دیر بعد اسلم نے راج کماری مورنی کا دیا ہوا طلسمی پنکھ ہاتھوں میں لے کر جادوگر کو مقابلے کے لئے للکارا۔ جادوگر نے اپنی جادوئی چھڑی اس کے سر پر لگائی، لیکن اسلم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ جادوگر نے جب اپنی جادوئی چھڑی کا وار خالی دیکھا تو مزید غصے سے لال پیلا ہو گیا اب وہ بجائے اسلم کے اکرم اور نشا کی طرف بڑھنے لگا۔

    اسلم نے بڑی پھرتی سے اسے زور کا دھکا دے کر گرا دیا۔ اس کی چھڑی دور بالکل اکرم کے پیروں کے پاس جاگری۔ اکرم نے جلدی سے چھڑی اٹھائی اور اسلم کو دے دی۔ جادوگر تیزی سے اسلم کو مارنے اور اس سے جادوئی چھڑی چھیننے کے لیے جھپٹا۔ اس سے پہلے کہ وہ اسلم کو کچھ نقصان پہنچاتا۔ پیچھے سے اکرم اور نشانے ایسی زور کی لات رسید کی کہ اسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ وہ بری طرح بوکھلا اٹھا۔ تب ہی اسلم تیزی سے آگے بڑھا اور جادوگر کے سر پر جادوئی چھڑی لگا دی، دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بندر بن گیا۔ تینوں نے زور زور سے تالی بجائی اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بندر بن گئے جادوگر کورسیوں سے بری طرح جکڑ لیا۔

    پھر اسلم نے بندر بنے لالو کے سر پر جیسے ہی چھڑی لگائی، لالو پھر سے ان کے سامنے موجود تھا۔ سب ہی بچے لالو سے گلے ملے اور زور زور سے کھکھلاکر ہنس پڑے۔

    بندر بنے جادوگر کو ایک درخت سے باندھ دیا اور دوسرے دن جنگل میں اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے جہاں جنگلی جانوروں نے اس کی خوب پٹائی کی، آخر میں بچوں نے جادوئی چھڑی کو آگ میں ڈال کر جلا دیا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے