Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کبوتر کی عید

ذکیہ مشہدی

کبوتر کی عید

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    یہ عید اور عیدوں جیسی نہیں تھی۔ یہ کیوں پچھلے سال والی بھی بڑی روکھی پھیکی تھی۔ بیماری پھیلی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے لوگوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا مناسب نہیں تھا۔ بٹن اور بابی دونوں کو یہ اچھی طرح سمجھ میں آرہا تھا۔ اس لیے کہ یہ بہن بھائی اب دس اور گیارہ سال کے تھے۔ بٹن بڑی تھی اور بابی چھوٹا۔ پچھلی عید میں بھی اتنی سمجھ تو تھی۔ انہوں نے کسی چیز کے لئے ضد نہیں کی۔ لیکن اس بار صبر کچھ کم ہوگیا۔

    اس بار بھی؟ بابی کچھ ٹھنکا۔

    ’’وباپر کسی کا زور نہیں۔ دادی نے سمجھایا۔ یہ قدرتی آفت ہے۔ اس سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ باہر نہ نکلیں۔ بہت ضروری ہو تو ماسک لگائیں۔‘‘

    ’’اور ایک دوسرے سے دو میٹر دور رہیں۔‘‘ بٹن نے اپنی معلومات کا رعب جھاڑا۔۔۔ ’’تم کہاں الگ رہتی ہو؟ بابی نے اسے چڑایا۔ ہر وقت میرے پاس گھسی رہتی ہو۔‘‘

    ’’گھر میں الگ رہنے کی ضرورت نہیں بے وقوف۔‘‘ بٹن نے پھر اپنا بڑا ہونا جتایا ۔

    اب بتاؤ ہم لوگ کیا کریں۔ بابی نے قدرے اداس ہو کر کہا۔

    نئے کپڑے تو آن لائن منگا لیے گئے تھے۔ جوتے بھی۔ وہ انہوں نے نہا دھوکر پہن لیے تھے۔ امی نے سوئیاں پکائی تھیں۔ قیمہ بھرے پراٹھے اور بابی کی پسندیدہ فیرنی۔ دوپہرکے کھانے میں بریانی کا اہتمام تھا۔ لیکن تفریح؟ عیدگاہ جاکر نماز پڑھنا۔ وہاں سے غبارے لے کر لوٹنا۔ گھر پر بہت سے مہمانوں کا آنا۔ ان کے ساتھ کے بچوں سے مل مل کر کھیلنا۔ عیدی پانا۔ ابھی تو عیدی صرف دادی نے دی اور امی ابو نے۔

    دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کھیل کر اکتا چکے تھے۔ لڑ بھڑ کر بھی۔ اب کیا کریں۔

    چلو بالکونی پر چل کر دیکھتے ہیں۔ پیڑ دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں چھپتے نکلتے پرندے۔ ٹائیں ٹائیں کرتے طوطے، مینائیں، کبوتر۔ ایک گھر میں دور آم کا درخت دکھائی دیتا تھا۔ اس میں پہلے بور دکھائی دیے پھر اب ٹکورے لٹکتے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ املتاس کے پیڑ زرد پھولوں سے ڈھک گئے تھے۔ ان کے پھول جھومر جیسے لٹکتے تھے۔ آس پاس کبوتر بہت تھے۔ اتنا کچھ تھا دیکھنے کو۔

    بٹن آپی۔ چلو ان کی تصویریں بناتے ہیں۔ ان کے آس پاس لکھتے ہیں عید مبارک۔

    ارے ارے یہ کیا۔ ذرا دیکھو تو؟

    بالکونی کے ایک کونے میں امی نے ایک اسٹیل کا فالتو ریک رکھ دیا تھا۔ اس پر کچھ ایسی چیزیں تھیں جو زیادہ کام کی نہیں تھیں۔ تہہ کیے ہوئے ردی اخباروں کا ڈھیر ایک ٹوکری تھی جس میں کبھی کچھ سامان آیا تھا۔ وہ اخباروں کی موٹی گڈی کے پیچھے چھپی تھی۔ آگے پھولوں کے کچھ گملے بھی تھے۔

    کیا ہے کیا ہے؟ بابی اچاک چوکنا ہوگیا۔

    بیت کی ٹوکری میں ایک کبوتری نے بچے نکالے تھے۔ نہ جانے کب انڈے دیے۔ کب ان پر بیٹھی۔ لیکن آج کے دن بچے دکھائی دے گئے۔ دکھائی کیا دیے ان کی چوں چوں سنائی پڑی۔

    وہ قریب گئے۔ سر جوڑ کر بچوں کو دیکھا۔ کبوتری ڈر کر اڑ گئی۔ لیکن پھر وہیں آس پاس آگئی۔

    چڑیوں کو تنگ نہیں کرنا چاہئے۔ بٹن نے پھر نصیحت کی۔

    ہم تنگ کہاں کر رہے ہیں۔ بس دیکھ رہے ہیں۔ چھو کر دیکھیں کیا۔

    نہیں۔ بالکل نہیں۔ بٹن نے کہا۔

    چلو ہم ان کے ساتھ عید مناتے ہیں۔ بابی نے خوش خوش لہجے میں کہا!

    ہاں۔ چلو۔ چلو۔ بٹن کو تجویز بہت پسند آئی۔

    وہ اسٹور سے دوپرانی کٹوریاں ڈھونڈ کر لائی۔ ایک میں پانی رکھا دوسری میں چورا کر کے خشک کچی سوئیاں۔ دونوں چیزیں ایک ٹوکری کے آس پاس رکھ دیں۔

    عید مبارک کبوتر۔ دونوں نے کھلکھلا کر کہا۔

    عید مبارک بچو! پھر ساتھ ساتھ ہانک لگائی۔

    کبوتر پھر پھڑا کر اڑی۔ دونوں پھر کنارے دبک گئے۔

    تھوڑی دیر میں وہ واپس آگئی۔ ماں تھی نا۔ مائیں سب محبت کرنے والی ہوتی ہیں۔ پرندوں تک کی مائیں۔ اس نے ادھر ادھر گردن گھما کر دیکھا۔ پھر پانی پیا۔ دونوں بچے بہت خوش ہوئے۔

    ’’سوئیں بھی کھا لینا۔ آج عید ہے۔ اور ہاں دوپہر بریانی میں سے چاول لاکر بھی رکھ دیں گے۔ بچوں کو چھوڑ کر دور سے کھانا مت لانا۔‘‘ انہوں نے باری باری کہا۔

    پھر بچوں نے بیٹھ کر ایک عید کارڈ بنایا۔ اس میں املتاس کے پیلے پھول تھے اور ساتھ ہی آم کے درخت پر آم لٹک رہے تھے۔ ایک کبوتر بیچ میں تھا۔

    کیا ہو رہا ہے بھئی۔ ابو نے انہیں خوش کچھ رنگ بکھیرتے دیکھا۔

    ’’ابو ہم کبوتر اور اس کے بچوں کو عید کارڈ دیں گے۔‘‘ دونوں نے ایک ساتھ کہا۔

    سارا گھر ہنسی سے گلزار ہوگیا۔

    خوشیاں ڈھونڈی جائیں تو آس پاس بہت ملتی ہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے