Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کرامتی جوتا

زین العابدین

کرامتی جوتا

زین العابدین

MORE BYزین العابدین

    کالو ایک غریب موچی تھا۔ وہ روزانہ بازار میں مہنگو میاں کی پان گمٹی کی بغل میں ایک بوری پر اپنے سامان رکھ کر جوتے مرمت کیا کرتا۔ صبح سے شام تک دوچار گاہک آجاتے۔ اسی سے اس کا گزارہ ہوتا۔ تاہم اس کی زندگی بڑی مشکل سے گزر رہی تھی۔

    ایک دن وہ صبح سویرے نہانے کے لئے گھر کے قریب ندی پر گیا۔ ابھی وہ پانی میں اترا تھا کہ اس نے دیکھا۔ دو خوبصورت جوتے بہتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ وہ بڑھ کر ان جوتوں کو اٹھا لیا اور نہانے کے بعد خوشی خوشی گھر آیا۔ اس نے اپنی بیوی موہنی سے کہا۔ ’’دیکھو یہ جوتے مجھے ندی میں ملے ہیں۔ اسے میں اپنی دکان میں رکھ دوں گا۔ گاہک اسی طرح کے جوتے بنانے کے فرمائش کریں گے۔‘‘ جب کالو نے جوتوں کو اپنی دکان میں رکھا۔ گاہکوں کی بھیڑ لگ گئی۔ اسی دن اسے کئی جوڑے جوتوں کے آرڈر مل گئے۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس نے کافی پیسے کما لیے۔ جوتے کی شہرت پھیلتی ہوئی پاس کے گاؤں میں پہنچ گئی۔ گاؤں کا گنگو موچی جب جوتے کے بارے میں سنا تو دوسرے دن کالو کی دکان پر آیا۔ دیکھا کالو کی دکان پر گاہکوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ ان میں کچھ تو خریدار تھے۔ کچھ جوتے دیکھنے آئے تھے۔

    گنگو موچی بھیڑ کو چیرتا ہوا کالو موچی کے قریب پہنچا۔ وہ جوتوں کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس نے اس سے قبل اتنے خوبصورت جوتے نہیں دیکھے تھے۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا۔ ’’کاش یہ خوبصورت جوتے اسے مل جاتے۔‘‘ جب وہ اپنے گاؤں لوٹ رہا تھا۔ جوتے اس کی نظروں میں ناچ رہے تھے۔ راستے بھر وہ ان جوتوں کو حاصل کرنے کے منصوبے بناتا رہا۔ گھر پہنچ کر اس نے جوتوں کے بارے میں اپنی بیوی سگنی کو بتایا اور پھر کھا پی کر بستر پر لیٹ گیا۔ اس کی نیند اڑ چکی تھی، آدھی رات کو اٹھا۔ دھیرے سے دروازہ کھولا اور کالو موچی کے گاؤں کی طرف چل پڑا۔ جب وہ کالو موچی کے مکان کے قریب پہنچا، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔

    دو کتوں کے بھونکنے کی آواز آرہی تھی۔ وہ دبے قدموں سے کالو موچی کے مکان کی پچھلی جانب گیا۔ گرمی کے سبب کرگنگو موچی نے کھڑکی کھول رکھی تھی، لالٹین کی دھیمی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ جوتے طاق پر رکھے ہوئے تھے۔ اس نےہاتھ بڑھا کر جوتے اٹھا لیے اور تیز قدموں سے اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گھر پہنچ کر اس نے جوتوں کو ایک کونے میں رکھ دیا اور جاکر بستر پر لیٹ گیا۔ ابھی اسے پوری طرح نیند نہ آئی تھی کہ اس نے دیکھا۔ دونوں جوتے ہوا میں لہراتے ہوئے آئے اور اس کے سر پر برسنے لگے۔ کسی طرح اس نے بچتے بچاتے ہوئے چوکی کے نیچے پناہ لی۔ رات بھر وہ چوکی کے نیچے پڑا رہا۔ صبح اسے جوتے میں ایک پرچی نظر آئی۔ اس نے پرچی کھول کر پڑھی۔ پرچی میں لکھا تھا۔ ’’اپنی خیریت چاہتے ہو تو جلد ہی ہمیں کالو موچی کے یہاں پہنچا دو۔ ورنہ ہم اس سے براحال کریں گے۔‘‘ گنگو موچی گھبرا گیا اور دوسرے دن رات کے اندھیرے میں جوتوں کو لے کر کالوموچی کے گھر گیا اور کھڑکی سے دونوں جوتوں کو پھینک کر الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا۔ راستے بھر پلٹ پلٹ کر دیکھتا رہا، جوتے اس کا پیچھا تو نہیں کر رہے ہیں۔

    ادھر صبح کو کالوموچی کی آنکھ کھلی تو اس نے جوتوں کو کھڑکی کے قریب پڑا پایا۔ اس نے موہنی کو اٹھایا۔۔۔ ’’دیکھو ہمارے جوتے گھر آگئے۔۔۔‘‘ موہنی جوتوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ کالوموچی کی دکان پھر سے چل پڑی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے