خالہ خمیرو
ایک شخص پردیس گیا ہوا تھا اس کی بیوی گھر میں اکیلی رہتی تھی اور اکیلے پن سے اس کا جی بہت گھبراتا تھا۔ ایک دن اس کے جی میں آیا کہ کوئی بات ایسی کرنی چاہئے جس سے دل بہلے گھر میں خدا کا دیا سب کچھ موجود تھا۔ ان بیوی کا میاں کھاتا پیتا آدمی تھا، جب وہ پردیس گیا تھا تو کھانے کی ہر چیز گھر میں بھر گیا تھا۔ بیوی نے کیا کیا کہ میدہ گوندھ کر اس کا ایک پتلا بنایا اور اس پتلے کو کپڑے پہنائے اور پھر کوٹھری کے اندر لے جاکر ایک چوکی پر یہ پتلا رکھ دیا۔
روز سویرے اٹھ کر یہ بیوی اس پتلے کے پاس جاتیں اور کہتیں، خالہ خمیرو سلام اور پھر خود ہی خالہ خمیرو کی طرف سے جواب دیتیں، بیٹی جیتی رہو۔ بوڑھ ساگن عمر کا بچہ ہو دو دوں نہاؤ پوتوں پھلو۔
دعا سلام ہو چکتا تو یہ پوچھتیں خالہ خمیرو آج کیا پکائیں۔ خالہ خمیرو جواب دیتیں بیٹی آلو تل لو، چنے کی دال کا بھرتا بنا لو۔ شلجم رکھے ہیں۔ ان کی بھجیا مزے کی بنتی ہے۔ ہرا دھنیا رکھا ہے اس کی چٹنی پیس لو۔ غرض روز صبح شام یہ بیوی خالہ خمیرو سے پوچھ پوچھ کر سب کام کرتیں اور اس طرح ان کا جی اکیلے میں لگا رہتا تھا رات کو سونے کا وقت ہوتا تو خالہ خمیرو سے کہتیں خالہ نیند آ رہی ہے خالہ کہتیں بیٹی ابھی تو اول شام ہے۔ چراغ کے آگے کچھ سینا پرونا لے کر بیٹھ جاؤ بے وقت سونا اچھا نہیں جس وقت ہمیشہ سویا کرتی ہو اسی وقت سونا۔
اس طرح کرتے کرتے مدت گزر گئی۔ یہاں تک کہ ان بیوی کے میاں بھی آ گئے۔ میاں نے گھر میں قدم رکھا تو یہ سیدھی دوڑی ہوئی خالہ خمیرو کے پاس گئیں اور ان سے کہا خالہ میاں آ گئے۔ خالہ نے کہا تیل ماش لے جاؤ۔ میاں اس سے اپنا منہ دیکھیں۔ پھر یہ تیل ماش حلال خوری کو دے دینا۔ ان بیوی نے یہی کیا۔ اس کے بعد پھر دوڑی ہوئی گئیں اور کہا خالہ کیا پکاؤں خالہ بولیں سویاں پکالو۔ انڈے رکھے ہیں وہ تل لو۔ پراٹھے بھی پکانا۔ بازار سے ربڑی منگالو۔ گرم پانی سے میاں کا منہ ہاتھ دھلاؤ۔ اجلا دسترخوان بچھاؤ اور سامنے بیٹھ کر پنکھا جھلتی جاؤ جب کھانا کھا چکیں تو کھلی سے ہاتھ دھلاؤ اور جلدی سے پان بنا کر دو کہ اچھی اور تابعدار بیویاں ایسا ہی کرتی ہیں۔
ان بیوی نے ایسا ہی کیا۔ مگر ذرا سا کام بھولتیں تو پھر دوڑ کر خالہ خمیرو سے پوچھنے جاتیں۔ میاں کو شک ہوا کہ کوٹھری میں ضرور کوئی آدمی ہے۔ یہ بیوی گھڑی گھڑی کوٹھری میں جاکر اسی سے کھسر پھسر باتیں کرتی ہے۔ مگر میاں نے اپنے شبہ کو بیوی پر ظاہر نہ کیا۔ اس تاک میں رہے کہ رات ہو جائے تو چپکے سے جاکر دیکھوں۔
جب رات ہو گئی اور بیوی سوگئیں تو میاں تلوار لے کر کوٹھری میں گئے شمع ہاتھ میں تھی وہاں انہوں نے خالہ خمیرو کو آدمیوں کی طرح پہنے اوڑھے کھڑا دیکھا۔ جلدی اور رات کی گھبراہٹ میں میاں نے جانا کہ یہ کوئی سچ مچ کا آدمی ہے اور ایک دفعہ چیخ کر کہا تو کون مرودا ہے۔ میرے گھر میں کیوں آیا؟ خالہ خمیرو نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس پر میاں اور بھی بگڑے اور انہوں نے تلوار میان سے کھینچ کر کہا بول نہیں تو ہاتھ مارتا ہوں۔ بھٹے کی طرح سر اڑا دوں گا۔ خالہ خمیرو نے اس کا بھی کچھ جواب نہ دیا تو میاں نے تلوار کا ایک ایسا ہاتھ مارا کہ خالہ خمیرو دو ٹکڑے ہو کر گر پڑیں۔میاں کے چیخنے سے بیوی کی آنکھ بھی کھل گئی اور وہ دوڑی ہوئی کوٹھری میں گئیں اور ہائے میری خالہ خمیرو ہائے میری خالہ خمیرو کہہ کر رونا شروع کیا۔ میاں نے گھبرا کر شمع سے دیکھا تو میدے کا پتلا تھا۔ اس پر بے اختیار ہنسنے لگے اور بیوی سے عذر کیا کہ مجھے خبر نہ تھی کہ تمہاری خالہ آٹے کی ہیں۔
بیوی نے کہا تم نے ان بے چاری کو کیوں مار ڈالا۔ اب میں اپنے دکھ سکھ کی ساجھی اور اکیلے دوکیلے کی ہمسائی کو کہاں سے پیدا کروں؟ میاں نے کہا اور بنا لینا۔ بیوی نے کہا کہیں خالہ خمیرو بھی بنا کرتی ہیں۔ پھر وہ بیوی سدا سدا کو روتی رہیں اور خالہ خمیرو کا غم ان کے دل سے نہ گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.