Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کھیل کو کھیل ہی سمجھو

گل افشاں

کھیل کو کھیل ہی سمجھو

گل افشاں

MORE BYگل افشاں

    ’’بھائی! اتنی بہت سی ساری رنگ برنگی پتنگوں کا کیا کریں گے؟‘‘

    سعدیہ نے حیرانی سے اپنے بھائی اسد سے پوچھا۔

    ’’کیا کروں گا؟ یہ کیسا بے تکا سوال ہے؟ اڑاؤں گا اور کیا کروں گا اور اس بار تم دیکھنا میں فرحان سے پتنگ بازی کے مقابلے میں ہی جیتوں گا۔‘‘

    ’’یہ تو آپ ہر بار کہتے ہیں لیکن فرحان بھائی آپ کو ہمیشہ مات دے دیتے ہیں۔ ویسے بھی بھائی ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے، اسے دل پر نہیں لینا چاہئے بس کھیل سے لطف اندوز ہونا چاہئے‘‘

    ’’ہاں ہاں ٹھیک ہے اب اتنی بڑی بڑی باتیں مت کرو اور میرے لیے چائے بنا کر لاؤ‘‘

    ’’آپ کو تو سمجھانا ہی بیکار ہے بھائی!‘‘ سعدیہ پیر پٹختی ہوئی چھت سے نیچے چلی گئی۔‘‘

    ’’کچھ بھی ہو جائے اس بار تو مقابلہ میں ہی جیتوں گا۔‘‘

    اسد نے مضبوط لہجے میں کہا۔

    فرحان اور اسد جگری دوست تھے لیکن سال میں جب بھی پتنگوں کا موسم آتا ان دونوں کے درمیان ایک جنگ سے چھڑ جاتی۔ دونوں دوست حریف بن جاتے، جو دوسرے کی پتنگ زیادہ مرتبہ کاٹتا وہی اس مقابلے کا فاتح ہوتا۔ تین چار سال سے یہ مقابلہ مسلسل فرحان جیت رہا تھا۔ اب اسد نے اس مقابلے کو جیتنا اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ وہ کسی بھی صورت اس بار یہ مقابلہ جیتنا چاہتا تھا اور اس نے جیت حاصل کرنے کے اپنی تیاری مکمل کر لی تھی۔ اس بار اسد نے اپنا کہا درست کر دکھایا اور پہلے دن ہی اسد نے فرحان کی دس پتنگیں کاٹ کر فرحان کو چاروں شانے چت کر دیا۔ فرحان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنے برے طریقے سے کیسے ہار گیا جب کہ وہ جانتا تھا کہ وہ اسد سے کئی گُنا بہتر پتنگ باز ہے۔ لیکن اس نے پھر بھی اپنی ہار کھلے دل سے تسلیم کی اور اسد کو مبارکباد دی۔

    اسد اپنی جیت پر بہت خوش تھا۔ اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔

    ’’دیکھا سعد یہ میں اپنا کہا درست کر دکھایا ناں۔ کیا تم مجھے مبارک باد نہیں دوگی؟‘‘

    ’’سوچ رہی ہوں مبارکباد دوں یا افسوس کا اظہار کروں اسد بھائی!‘‘

    ’’افسوس کس لیے؟‘‘

    اسد نے حیرت سے پوچھا

    ’’افسوس اس لیے کہ آپ کی جیت نے آپ ہی کے دو معصوم کبوتروں کی جان لے لی ہے ۔ یہ برابر والوں کی چھت پر تڑپ رہے تھے وہ دے کر گئے ہیں۔‘‘

    اپنے کبوتروں کا برا حال دیکھ کر اسد آب دیدہ ہوگیا اور کہنے لگا:

    ’’کاش میں جیتنے کے لئے دھاتی ڈور کا استعمال نہ کرتا تو میرے معصوم کبوتر آج زندہ ہوتے‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے