خر خر شاہ وزیر بنے
عقلمندی اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ عقلمند آدمی سے مشکل حالات میں ہار نہیں مانتا اور کامیاب ہوتا ہے۔ بچو! آج ہم تمہیں ایسی ہی ایک کہانی سناتے ہیں۔
گیر جنگل کے راجہ جنگلی خاں اپنے جگری دوست شیرو خاں سے ملنے دھنوا منوا کے جنگل آیا۔ یہ جنگل چھوٹا ناگپور کے پہاڑی علاقہ میں ہے۔ اس علاقہ میں اللہ نے معدنیات بھی خوب عطا کئے ہیں۔ جنگلی خاں نے دیکھا شیرو خاں فکر مند ہے۔
’’کیا بات ہے شیرو خاں، تم کس فکر میں ڈوبے ہوئے ہو؟ جنگلی خاں نے پوچھا۔ کیا سناؤں دوست۔ میرے وزیر چیتا خاں اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے ہیں۔ میں چاہتا ہوں ان جیسا ہی کوئی عقلمند میرا وزیر بنے لیکن اس جنگل میں کون سب سے لائق اور عقلمند ہے اس کا پتہ کیسے چلے؟‘‘ شیرو خاں نے کہا۔
’’ارے یہ کون سی مشکل ہے میری مانو تو آنکھ بند کر کے خر خر شاہ کو اپنا وزیر بنا لو اس جنگل میں اس جیسا عقلمند کوئی نہیں۔‘‘ جنگلی خاں نے مشورہ دیا۔
شیرو خاں نے کہا: ’’مانتا ہوں کہ خر خر شاہ ہوشیار ہے لیکن آنکھ بند کر کے میں کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ جنگل کے اور دوسرے باشندوں کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔میں سبھی کو موقع دینا چاہتا ہوں۔‘‘
کافی غور کرنے کے بعد شیرو خاں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک مقابلہ کیا جائے جو سب سے زیادہ عقلمند ہوگا اسے ہی وزیر منتخب کر لیں گے۔
’’ہاں، تم ٹھیک فرما رہے ہو۔‘‘ جنگلی خاں نے حامی بھری۔ پھر دونوں بہت دیر تک سوچتے رہے۔ اگلے دن دھنوا منوا کے جنگل میں اعلان ہوا۔ ’’اتوار کی صبح جھیل کے کنارے وزیر کے عہدے کے لیے ایک مقابلہ ہوگا۔ جنگل کا جو باشندہ اس مقابلہ میں حصہ لینا چاہے اپنا نام درج کرا دے۔‘‘ یہ اعلان سن کر خر خر شاہ، لمبو ہاتھی اور دینو گدھا سبھی نے اپنا نام درج کرا دیا۔ اتوار کی صبح سارا جنگل جھیل کے کنارے اکٹھا ہو گیا اس دلچسپ مقابلے کو دیکھنے کے لئے شیرو خاں اور جنگلی خاں ایک بکری اور ایک گھاس کے گٹھر لے آئے۔ جھیل کے کنارے ایک کشتی کھڑی تھی شیرو خاں نے جنگل کے باشندوں سے کہا۔ ’’اس کشتی سے جنگلی خاں، بکری اور گھاس کے گٹھر کو دوسرے کنارے پر پہنچانا ہے جو اسے پورا کرے گا وہ میرا وزیر بنےگا۔‘‘
کشتی بہت چھوٹی ہے اس پر سب ایک ساتھ سوار نہیں ہو سکتے۔ ہاں ایک بار میں دو لوگ یا جانور جا سکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے گھاس کے کٹھر لے گئے تو پیچھے جنگلی خاں بکری کو چٹ کر جائےگا۔ اگر جنگلی خاں کو لے گئے تو بکری گھاس کھا جائےگی۔ اس لیے خوب سوچ سمجھ کر اس کا حل نکالیں۔ ہنس کر سبھی جنگل کے باشندے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ مگر مقابلہ تو مقابلہ تھا سب سے پہلے لمبو ہاتھی آئے۔ جیسے ہی وہ کشتی پر بیٹھنے لگا کشتی ڈگمگانے لگی۔ سبھی جانور ہنس پڑے۔ دینو گدھے نے ہنستے ہوئے کہا: ’’دیکھو لمبو اسی لیے کہتا ہوں کہ تمہیں ڈائٹنگ کرنےکی ضرورت ہے۔‘‘، ’’میرا تو جسم موٹا ہے لیکن تمہاری تو عقل موٹی ہے۔‘‘ لمبو ہاتھی چڑھ کر بولا۔
پھر ہاتھی نے بکری کو ناؤ پر بٹھایا اور چل دیا دوسرے کنارے پر بکری کو چھوڑ کر لمبو ہاتھی واپس لوٹا۔ اب وہ سوچنے لگا کہ کسے ناؤ پر بٹھائے جنگلی خاں کو دوسرے کنارے پر لے جائے تو وہ بکری کو کھا جائےگا، گھاس لے جائے تو بکری گھاس کھا جائےگی۔ لمبو ہاتھی کا دماغ گھومنے لگا۔ شیروخاں کے پاس آکر بولا: ’’عالی جاہ! مجھے معاف کریں یہ مسئلہ مجھ سے حل نہیں ہوگا۔ لمبو ہاتھی کو گھبرایا دیکھ کر دینو گدھے نے بھی بغیر کوشش کئے ہتھیار ڈال دیئے۔‘‘
آخرکار خر خر شاہ کچھ سوچتا ہوا آیا۔ اس نے سب سے پہلے بکری کو کشتی پر بٹھایا اور چل دیا۔ بکری کو دوسرے کنارے پر چھوڑ کر وہ لوٹا اب اس نے جنگلی خاں کو کشتی پر بٹھا لیا۔ جنگلی خاں سوچ رہا تھا کہ جب خر خر شاہ اسے کنارے اتار کر گھاس لینے لوٹے گا تو اس درمیان وہ بکری کا نوالہ بنا لےگا۔ لیکن خر خر شاہ کچھ کم چالاک نہیں تھا۔ اس نے جنگلی خاں کو کنارے پر چھوڑ دیا اور فوراً بکری کو کشتی پر بٹھا لیا۔ اس پار آکر اس نے بکری کو کنارے پر چھوڑ دیا اور گھاس کا گٹھر لے کر دوسرے کنارے پر پہنچا۔ اب صرف بکری بچی تھی۔ خر خر دوبارہ پہلے کنارے پر آیا اور کشتی میں بکری کو بٹھا کر اسے بھی دوسرے کنارے پر پہنچا دیا۔
خر خر شاہ کی اس عقلمندی کو دیکھ کر جنگل کے سبھی جانور حیرت میں پڑ گئے انہوں نے تالیاں بجا کر خر خر شاہ کو شاباشی دی۔
شیرو خاں نے خر خر شاہ کو گلے لگا لیا اور اپنا وزیر مقرر کر لیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.