کیا جواب دیں
”آج کل کے بچے جو نہ پوچھیں وہ کم ہے۔ اُن کے سوالوں کے جواب دینا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں بہلایا نہیں جا سکتا بلکہ صاف اور درست معلومات کے ذریعے ہی انہیں مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ میرے جیسے لوگ تو اس نئی پود کے سوالوں کا صحیح جواب دینا چاہتے ہیں لیکن کئی مرتبہ راہ فرار اختیار کرنا پڑتی ہے۔ جیسے آج بھاگ کر آرہا ہوں۔ پروفیسر صاحب! کیا ہر سوال کا جواب فوراً دیا جانا ممکن ہے؟“اچھے میاں نے چائے کے پہلے گھونٹ کے ساتھ ہی اپنی الجھن پروفیسر صاحب سے بیان کردی۔
”اچھے میاں!آپ اتنے تذبذب کے شکار تو کبھی نہیں ہوتے۔آج کس بات نے آپ کو اس درجہ پریشان کر دیا۔ ذرا اپنی بات واضح طور پر کہئے۔ شاید میں آپ کی الجھن سلجھانے میں کوئی مدد کر سکوں؟“پروفیسر صاحب نے سنجیدگی سے کہا
”ہوا یوں کہ آج جب میرا پوتا اسکول سے واپس آیا تو وہ اپنی دوست کے تعلق سے بہت پریشان تھا۔ آتے ہی مجھ سے کہنے لگا کہ اُس کی دوست آج زخمی ہو گئی۔اُس کے چوٹ لگ گئی،اُس کی پوری یونیفارم پر خون ہی خون تھا۔ ہماری کلاس ٹیچر اُسے اپنے ساتھ لے گئیں۔ وہ بہت رو رہی تھی۔یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن جب اُس نے مجھ سے پوچھا کہ داداجی! اُسے اچانک کیا ہوا؟جب وہ ایک سوال کا جواب دینے کے لیے کھڑی ہوئی تو پیچھے بیٹھے ہوئے بچوں نے دیکھا کہ اُس کے کپڑوں پر خون لگا ہے۔ ہم سب ڈر گئے تھے۔ لیکن ٹیچر اُسے اپنے ساتھ لے گئیں۔ داداجی اگر اُسے چوٹ لگتی تو درد ہونا چاہئے تھا نا۔ لیکن اُسے تو ہمارے بتانے کے بعد معلوم ہوا کہ اُس کے کپڑوں پر خون لگا ہے۔ تب میں سمجھا کہ وہ کس بارے میں جاننا چاہتاہے۔ وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ داداجی بتائیے نا اسے کیا ہوا؟چوٹ لگی ہے یا کوئی اور بات ہے؟وہ سوال پر سوال کر رہا تھا۔ میرے پاس جواب تو تھے مگر یہ طے نہیں کر پا رہا تھا کہ اس عمر میں اسے کیا اور کتنا بتاؤں!“اچھے میاں کی پریشانی سُن کر کچھ وقت کے لیے پروفیسر صاحب بھی خاموش ہو گئے۔ ذرا توقف کے بعدانہوں نے کہا
”میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ اکثر ایسے سوالوں سے ہمارا سامنا ہوتا رہتا ہے۔ ایسے وقت میں یہ طے کرنا ہماری ذمہ داری ہے کہ کسے،کب اور کتنی معلومات دینا ضروری ہے۔ آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہاں معلومات حاصل کرنے کے مختلف ذرائع موجود ہیں۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ صحیح وقت اور موقع کی مناسبت سے ہم بچوں کو ضروری معلومات دیتے رہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم آج بھی کئی موضوعات پر کھل کر بات کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کے پوتے نے یہاں وہاں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سیدھا آپ کے پاس آیا۔اگر آج آپ نے اس کے تجسس بھرے سوالوں کا جواب نہیں دیا تو ممکن ہے وہ اگلی مرتبہ آپ کے سامنے اپنی الجھن بیان ہی نہ کرے۔کیونکہ معلومات آپ نہیں دیں گے تو کوئی اور دے گا۔بھلے ہی وہ معلومات صحیح ہوں یا غلط۔“پروفیسر صاحب نے جواب کے بجائے اچھے میاں کو ہی سوالوں کے گھیرے میں جکڑ لیا
”پروفیسر صاحب!آپ ہی بتائیے کہ میں ماہواری(menstruation)کے بارے میں اسے کیسے بتاتا؟ابھی وہ بہت چھوٹا ہے۔صرف پانچویں جماعت میں ہے۔اُس کی بات سُن کر توایک بات میرے ذہن میں بھی کلبلا رہی ہے کہ کیا دس گیارہ سال کی بچی کو بھی ماہواری آنا شروع ہو سکتی ہے؟“اچھے میاں نے پوچھا
”جی! عام طور پر بارہ سال کی عمر کے آس پاس لڑکیوں کو پیریڈ آنا شروع ہوتے ہیں لیکن نو سال کی عمر میں بھی ماہواری شروع ہو سکتی ہے۔“ پروفیسر صاحب نے وضاحت کی
”اس کا مطلب اب ہمیں اپنے بچوں کو اس تعلق سے آٹھ نو سال کی عمر میں ہی آگاہ کرنا ہوگا۔ تاکہ لڑکیوں کو شرمندگی کا سامنا نا کرنا پڑے۔“ اچھے میاں نے سنجیدگی کے ساتھ کہا
”اچھے میاں!سب سے پہلے ہمیں خود شرم اور فطری جسمانی عمل کو الگ کرنا سیکھنا ہوگا۔ ماہواری ایک نارمل عمل ہے۔جسے ہم اور آپ نے شرم کے پردے میں چھپاکر پیچیدہ بنا دیا ہے۔والدین اپنے بچوں سے بات نہیں کر پاتے،دقت تو تب آتی ہے جب کوئی بچی اچانک ہونے والی ماہواری کو دیکھ کر گھبرا جاتی ہے۔ضروری تو نہیں کہ جب بچی کو پہلی ماہواری آئے تو وہ گھر پر ہی ہو؟کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری کم عقلی کے سبب بچیوں کو دوہرے تناؤ سے گزرنا پڑتا ہے۔ایک تو ماہواری دوسرے لوگوں کی سوال پوچھتی نگاہیں۔اس طرح کے حالات کا شکار ہونے والی بچی کیا کبھی اُس واقع یا حادثے کو بھول سکتی ہے؟شاید کبھی نہیں۔بچی کو اس صورتِ حال سے دوچار کرنے کے ذمہ دار ہم خودبھی ہیں۔“پروفیسر صاحب آج بہت خفا دکھائی دے رہے تھے۔
”اس شرم کے پردے کو چاک کرنے کا ہمیں کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔مگر کیسے؟“اچھے میاں سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں۔
”سب سے پہلے ہمیں اپنے ہی گھروں سے شروعات کرنا ہوگی۔جس طرح چھوٹے بچوں کے لیے پیمپر خریدتے ہوئے اسے کالی تھیلی میں پیک کر کے چوری چوری نہیں بلکہ آرام سے لاتے ہیں اسی طرح سینیٹری نیپکین sanitary napkin کو پردے سے باہر لانا ہوگا۔ہمیں صحت اور حفظانِ صحت کے متعلق آگاہی کو پھیلانا ہوگا۔خوش آئند ہے کہ لوگ اب اس بارے میں بات کرنے لگے ہیں لیکن اچھے میاں!سوچ اور خیالات میں تبدیلی اتنی جلدی اور آسانی سے نہیں آتی۔اُس میں وقت لگتا ہے۔“پروفیسر صاحب نے کہا
”میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ دوارانِ ماہواری لڑکیوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔انہیں گندا کہہ کر بالکل الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔کیا یہ خون گندا ہوتا ہے؟“اچھے میاں نے پوچھا
”سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ اگر ماہواری نہ ہو توافزائشِ نسل ممکن نہیں۔یعنی اگر حیض نہ ہوتا تو آپ کا اور میرا وجود بھی نہیں ہوتا۔اگر ہم چھوٹی عمر میں ہی بچوں کو اتنا بتا دیں کہ اسی خون کے سبب کسی عورت میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے تو وہ اسے گندہ نہیں بلکہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے۔باقی معلومات عمر اور وقت کی مناسبت سے دی جا سکتی ہیں۔اور اب تو اسکول نے یہ ذمہ داری سنبھال لی ہے۔مگر کبھی کبھی اسکولوں کی طے کی گئی مدت اور وقت کا بچی کی ماہواری انتظار نہیں کرتی اور معصوم بچپن معلومات نہ ہونے کے سبب ذہنی اذیت کا شکار بن جاتا ہے۔جبکہ اس میں اُس کی کوئی غلطی بھی نہیں ہوتی۔“پروفیسر صاحب نے مشورہ دیتے ہوئے کہا
”ہماری سوسائٹی میں اکثر تعلیم،سرکاری اسکیم،مشاعرے،ہولی دیوالی،عید ملن اور اسی طرح کے دیگر پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔لیکن میں نے آج تک ایسا کوئی پروگرام اپنی سوسائٹی میں نہیں دیکھا جس میں خواتین کی زندگی کے سب سے اہم پہلو پر بات کی گئی ہو۔ ابھی ۸ مارچ کوخواتین کا عالمی دن (International Women's Day)ہے۔اس مرتبہ ماہرِ امراض نسواں (gynaecologist)کومدعو کرتے ہیں اور ماہواری کے تعلق سے جو غلط فہمییاں پھیلی ہوئی ہیں اُنہیں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس مرتبہ نہ جوشیلی تقریر،نہ خواتین کی آزادی کی بات اور نا ہی خواتین کو پُر اعتمادبنانے کے وعدے بلکہ ہر مہینے خواتین کو ہونے والی ماہواری پر گفتگو کی جائے۔مرد حضرات کو بھی کم سے کم بنیادی معلومات تو ہونا ہی چاہئیں۔ کیا خیال ہے۔ہم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں؟“اچھے میاں نے جوش کے ساتھ کہا
”قابلِ تعریف قدم۔آج ہی سے تیاری شروع کرتے ہیں۔چائے ختم کیجئے ابھی سوسائٹی کے دفتر چلتے ہیں۔اور آگے کی تیاری کرتے ہیں۔“پروفیسر صاحب نے کہا اور دونوں چائے پینے کے بعد سوسائٹی کے صدر سے ملنے کے لیے نکل گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.