لاڈلا لیپ ٹاپ
میں اچانک ابو جان کا لیپ ٹاپ بن گیا تھا۔ جس میں انہوں نے ونڈو پروگرام ڈاؤن لوڈ کر کے نہ جانے کیا کیا الم غلم بھر دیا تھا اور اب وہ صرف اپنی انگلیوں کو حرکت دیتے تو مجھے ایکٹو ہو کر اُن کا جمع کیا ہوا سارا ڈیٹا اُگلنا ہوتا تھا۔ اب مجھے وہ ہی آن کرتے تو میں حرکت میں آتا اور جب اُن کا دل چاہتا وہ مجھے شٹ ڈاؤن کر دیتے۔ میری ضرورت اور قابلیت سے زیادہ وہ مجھ میں اپنی مرضی سے چیزیں فیڈ کرتے رہتے۔ اُن کی ضرورت اور خواہش کے مطابق اب مجھے ایک ساتھ اپنی کئی ونڈوز کھول کر رکھنا پڑتی تھیں۔ اُن کے ایک حکم اور اشارے پر مجھے سب کچھ وہی کرنا پڑتا جو وہ چاہتے تھے۔ یہ بات مجھے اب سمجھ میں آرہی تھی کہ کتنا مشکل ہے انسان سے کمپیوٹر بننا۔ لیکن اب جو کچھ ہوا تھا وہ میری خواہش کے پر ہی ہوا تھا۔ اس لیے اب مجھے یہ اپنی خواہش جو ایک سزا بن گئی تھی کسی نہ کسی طرح جھیلنا تھی۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ دو دن پہلے میں نے ابو جان سے کہا تھا کہ مجھے فٹ بال کھیلنے کے لیے الگ سے جوتے خریدنے ہیں۔ ابو جان نے میری ضرورت اور خواہش کا خیال رکھتے ہوئے فوراً چاچو کو پیسے دے کر کہا کہ مجھے نئے جوتے دلا دیں۔ ایسا نہیں تھا کہ چاچو کے ساتھ میں جوتے لینے نہیں جاسکتا تھا۔ چاچو کے ساتھ تو میں اپنی ساری ضرورت کی چیزیں خریدنے جاتا تھا۔ میں ہی کیا امی، دادا، دادی اور منی کی ہر ضرورت اور خواہش کو پورا کرنے کے لیے بے چارے چاچو گاڑی بازار میں گھمائے گھمائے پھرتے تھے اور تو اور خود بے چارے چاچو اپنی چیزیں خریدنے کے لیے مجھے یعنی اپنے گیارہ سالہ بھتیجے سے مشورہ مانگتے اور ساتھ شاپنگ کے لیے لے جاتے۔ ابو جان کو کوئی چیز اگر عزیز تھی تو وہ صرف اُن کا لیپ ٹاپ تھا جسے وہ اپنے کندھے سے لٹکائے کبھی ہاتھ میں تھامے اور کبھی ٹیبل و بستر پر سامنے رکھے مصروف رہتے تھے۔ اُن کے پاس کسی کے لیے بھی وقت نہیں تھا لیکن اُن کا لیپ ٹاپ اُن کے دن اور رات کا ساتھی تھا اور شاید اتنا بہترین دوست تھا شاید کہ وہ دادا دادی امی اور منی کے لیے بھی کم ہی وقت نکال پاتے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ ابو جان میرے ساتھ فٹ بال کھیلیں، منی کے ساتھ وقت گزاریں، امی اور دادا دادی کے ساتھ بھی بیٹھ کر ٹی وی دیکھیں باتیں کریں۔ لیکن وہ دفتر کے بعد گھر کے اوقات میں بھی گھر کو دفتر بنائے رکھتے۔ کبھی بھولے سے جو مجھے پاس بلا کر بٹھاتے یا منی کو گود میں اٹھا کر جھولا جھلاتے تو انہیں چند ہی منٹ بعد اپنا کوئی کام یاد آجاتا اور ہمیں چھوڑ کر وہ واپس اپنا لیپ ٹاپ آن کر کے اس میں جُت جاتے۔
میں نے امی سے اور دادا دادی سے کئی بار پوچھا تھا کہ ابو جان کے پاس ہمارے لیے وقت کیوں نہیں ہے تو امی مسکرا کر کہتی تھیں کہ یہ سارا وقت تم ہی لوگوں کے لیے ہے۔ دادی بھی یہی کہتیں اور دادا کبھی خاموش ہوجاتے اور کبھی کہتے کہ زمانہ بدل گیا ہے اور انسان کی ضرورتیں بڑھ گئی ہیں جب تم باپ بنو گے تب پتہ لگے گا۔ لیکن چاچو نے مجھے بتایا تھا کہ لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ و موبائل آج کے دور کی سب سے اہم چیزیں ہیں اور وقت پر چیزوں کا لطف اور اُن سے کام لینا عقلمندوں کی نشانی میں سے ہے۔ تمہارے ابو ایک سافٹ ویر انجنئر ہیں اسی لیے انہیں اپنا لیپ ٹاپ اور کام ساری دنیا کی چیزوں اور نعمتوں سے پیارا ہے۔
‘‘کیا مجھ سے اور اپنے گھر والوں سے بھی زیادہ؟’’
میں نے حیرت سے چاچو سے پوچھا تو انہوں نے اپنے کالج کی کتاب کھولتے ہوئے جواب دیا کہ
ہوسکتا ہے۔۔۔ اب اس تکنیکی دور میں سب ممکن ہے۔
چاچو کی یہ بات سن کر میں بہت اُداس ہوا تھا اس روز میں نے رات روتے روتے اللہ میاں سے شکوہ کیا کہ وہ مجھے ابو جان کا بیٹا بنانے کے بجائے اُن کا لیپ ٹاپ بنا دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ شاید وہ قبولیت کا وقت تھا کیونکہ جب میں سو کر اٹھا تو اپنے پلنگ کے بجائے میں ابو جان کی پڑھنے لکھنے کی میز پر پڑا تھا۔ میں نے میز سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن ایسا لگا کہ میری ٹانگیں، ہاتھ اور جسم کچھ بھی نہیں ہے صرف ایک پھیلا ہوا میرا دماغ میز پر پڑا ہے۔
‘‘اوہ! میں تو سچ مچ لیپ ٹاپ بن گیا۔۔۔ چلو اب ابوکے ساتھ تو رہوں گا ہر وقت’’۔
میں نے اپنی پریشانی اور رات کی دعا کی قبولیت کو یاد کرتے ہوئے سوچا۔ لیکن زیادہ سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا ابو جان نے مجھے اٹھا کر ایک سیاہ بیگ میں بند کر دیا اور اپنے ساتھ آفس لے آئے۔ جب انہوں نے آفس کے کمرے کی میز پر رکھ کر مجھے آن کیا تو مجھے لگا کہ اب مجھے اپنے ابو کا دن بھر کا ساتھ ملنے والا ہے۔ اب ہم خوب سارے ویڈیو آڈیو گیم کھیلیں گے، نرم میٹھے گیت سنیں گے، تھوڑا سستانے کے لیے دوستوں سے چیٹنگ ہوگی اور دن گزر جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ابو جان نے اپنے بھاری ہاتھوں کی انگلیاں میرے کی بورڈ کے بٹن پر مارتے ہوئے کئی پروگراموں کی کھڑکیاں ایک ساتھ کھول ڈالیں۔ وہ نہایت تیزی سے کچھ حساب کتاب کا ڈیٹا بھی بھرتے جاتے اور پھرتی سے دوسری کھڑکی کھول کر لکھتے بھی جاتے۔ اس دوران کئی فضول اور نہایت غیر دلچسپ ای میلز نے بھی میری کھڑکیوں پہ دستک دی اور ابو جان فوری ان کے جوابات بھی لکھنا شروع ہوگئے۔ پھر کبھی ایک میموری اسٹک میری سائڈ میں لگاتے کبھی کوئی ڈیٹا انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرتے لیکن وہ سارے کا سارا نہ صرف بوریت سے بھرپور ہوتا بلکہ مجھے تھکا نے بھی لگتا۔ کوئی موسیقی، کوئی کارٹون فلم، کوئی گیت یا کوئی بھی گیم ابو جان نے دن بھر کسی بھی میری کھڑکی سے نہیں کھولا۔ میں سارا دن الم غلم حساب کتاب اور تحریروں سے جب اُکتا گیا تو غصے سے گرم ہونے لگا۔ ابو نے کچھ دیر کے لیے مجھے شٹ ڈاؤن کر دیا اور وہیں آفس کی میز پر چھوڑ کر ایک ڈائری اٹھا کر کچھ پڑھنے لکھنے لگے اس دوران وہ اپنا ٹفن بکس کھول کر کھانا کھاتے رہے اور ساتھ ہی امی کو بھی فون کرنے لگے۔ ایک وقت میں تین کام کرنا ابو کے لیے بہت آسان تھا۔ امی نے ابو کا حال چال پوچھا اور بتایا کہ دادی کی دوا ختم ہوگئی ہے اورمنی کے ڈائپرز بھی اس لیے وہ آفس سے واپسی پر یاد سے یہ سامان لیتے آئیں۔ ابو نے امی کی باتیں اس ڈائری میں نوٹ کیں اور کچھ دیر سب کا حال چال پوچھ کر فون بند کردیا۔ اتنی دیر میں وہ اپنا لنچ بھی کر چکے تھے۔ انہوں نے مجھے یعنی لیپ ٹاپ کو پھر اسٹارٹ کیا اور ایک نئی ونڈو کھولی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اس بار لیپ ٹاپ پہ ہمارے پورے خاندان کی تصویر پروفائل تصویر کے طور پر سب سے پہلے سامنے آئی۔
ہممم!!! تو ابو آفس میں بھی ہمیں یاد رکھتے ہیں کبھی کبھی۔۔۔
میں نے سوچا اور پیار سے ابو کے گلے لگنا چاہا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ میز پر پڑا اُن کو دیکھتا رہا اُن کی نگاہیں بھی مجھ پر جمی تھیں۔ وہ جس ونڈو کو کھولے میرے کی بورڈ پہ ہاتھ روکے بیٹھے تھے اُس میں ایک لمبی سی لسٹ تھی۔ کچھ حساب کتاب کے آگے دادا دادی کا ذکر امی کا نام اور میرا اور چاچو کا ذکر بھی تھا۔ منی کے نام کے آگے بڑا سا سرخ دل بھی بنا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ابو نے اپنی ڈائری سے ایک صفحہ کھولا اور اس میں لکھے مضمون کو لیپ ٹاپ میں فیڈ کرنے لگے۔ میں نے تجسس سے وہ ڈیٹا پڑھنا شروع کیا۔ اس ڈائری میں ابو نے گھر کے کرائے، بجلی گیس کے بل اور گھر کے سودا سلف کے اخراجات کی لسٹ بنا رکھی تھی۔ جس میں ہماری ساری ضروریات، گھر کے خرچے، دادا دادی کی دوائیوں اور اسکول کی فیس کے متعلق حساب کتاب لکھا تھا۔ منی کے دودھ اور ڈائپرز کا بھی ذکر تھا۔ میں ابھی وہ پیج پورا بھی نہیں پڑھ پایا تھا کہ ابو نے صفحہ اسکرول کرکے آگے بڑھا دیا۔ جس میں سب سے اوپراوردوسرے خرچوں کی ہیڈنگ کے نیچے بڑے بڑے حروف میں میرے جوتے، منی کی سالگرہ کی تقریب کا خرچہ اور دادی کے ہسپتال کا خرچہ کئی ہزاروں روپے میں لکھا تھا۔ میں نے ابو کی طرف دیکھا تو وہ میرے کی بورڈ سے ہاتھ اٹھائے اپنے سر کے بالوں میں فکر سےانگلیاں پھیرتے ہوئے کہہ رہے تھے
‘‘اتنے سارے اور خرچے پورے کرنے کے لیے اب مجھے اگلے مہینے کم سے کم پندرہ بیس گھنٹے اور بھی زیادہ وقت کام کرنا ضروری ہے۔۔۔ میرے بچے اور والدین پھر میری شکل دیکھنے کو ترسیں گے۔۔۔ اور میں بھی تو اُن کے ساتھ وقت نہ گزار کر کتنا اُداس ہوں گا اور بہت تھک بھی جاؤں گا’’
ابو کی آنکھیں نم تھیں لیکن شرمندگی سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اب تک یہی سمجھتا تھا کہ ابو کو اپنا لیپ ٹاپ اور آفس ہم سے زیادہ عزیز ہے لیکن آج پتہ چلا کہ ابو تو ہم سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ میرے دادا اکثر کہتے ہیں بچوں سے پیار کرنے اور اُن سے پیار جتانے کے طریقے ہر والدین کے الگ الگ ہوتے ہیں۔ تمہارے ابو تمہاری خواہش کو کبھی رد نہیں کرتے یا اس گھر کی اور اس کی لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ یہ بھی ان کے پیار جتانے کا ایک انداز ہے۔
مجھے دادا جان کی باتیں یاد آرہی تھیں اور ابو جان سے کئے گئے شکوے پر میں دل سے شرمندہ ہوکر رو رہا تھا لیکن اب کیا فائدہ اب تو میں اُن کا لیپ ٹاپ بن چکا تھا۔ اچانک مجھے لگا کہ میرے سارے آنسو میرے چہرے پر ۔۔۔ اوہو! میری ونڈ اسکرین پر پھیل گئے ہیں اب مجھے ابو کا چہرہ دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔
اٹھو ندیم بیٹے! آج تم نے کہا تھا کہ میرے ساتھ صبح کی سیر کو چلوگے۔۔۔ جلدی سے اٹھ کر تیار ہوجاؤ۔۔۔ ورنہ مجھے آج کام سے دیر ہوجائے گی۔
میں نے اپنے ہاتھوں سے آنکھیں ملتے ہوئے ابو کو دیکھا پھر اپنے ارد گرد ریکھتے ہوئے بے اختیار بول اٹھا ‘‘شکر ہے کہ وہ سب خواب تھا اور میں لیپ ٹاپ نہیں بنا’’
’’لیپ ٹاپ؟‘‘
ابو نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو میں جھٹ سے اُن کے گلے لگ گیا اور بولا ’’جی! اپنے پیارے ابو کا لاڈلا لیپ ٹاپ‘‘
ابو نے مجھے بھینچ کر پیار کرتے ہوئے زور سے قہقہ لگایا اور میں ابو کی اس ہنسی میں سارے گھر بھر کو خوشیوں سے مسکراتا محسوس کرنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.