لاری کے جوتے
انڈے سے نکلا ننھا لاروا جب درخت کے ایک سبز پتے پر گہری نیند سے جاگا تو اس کے جسم پر صرف ہلکی سی سبز جیکٹ تھی۔ لیکن اس چھ ننھے ننھے نازک پیروں میں جوتے نہیں تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ بغیر جوتوں کے اس جنگل میں چلنا تو بہت مشکل ہے۔اتنے میں قریب ہی ایک کالے دھبے والے گول سرخ کیڑے “ لیڈی برڈ” لکی نے درخت کی جڑوں کے پاس سے آواز لگائی۔
’’ہیلو لاروا لاری! میرا نام لکی ہے تم جلدی سے نیچے آؤ ہم سب کیڑے یہاں جنگل میں کھیل رہے ہیں ۔۔۔ درخت کی جڑوں میں‘‘
لاروا لاری نے کھیل کی دعوت پر خوش ہوکر فوراً جواب دیا
’’ میں ابھی آیا‘‘
لیکن نرم مخمل جیسےپتے سے نکلتے ہی اس کے ایک پیر میں کھردرے تنے کا حصہ چُبھ گیا اور وہ چلایا
’’ اوئی! یہ تنا تو بہت سخت ہے میں بغیر جوتوں کے اس پر کیسے چلوں؟‘‘
یہ سُن کر لیڈی برڈ لکی نے اپنے ننھے پر پھیلائے اور اُڑتا ہوا اپنے دوست لاروا لاری کے پاس آیا اور بولا
’’ لاری! میں تمہاری مدد کرتا ہوں لیکن میں تمہیں اٹھا نہیں پاؤں گا صرف ہلکا سا دھکہ دے کر نیچے کی جانب گراؤں گا۔۔۔ تم نیچے آنے کے لیے تیار رہنا اور یہاں آکر اپنے لیے جوتا بھی تلاش کر لیناا!‘‘
لاروا لاری نے درخت سے زمین تک کا فاصلہ دیکھ کر ڈرتے ہوئے کہا
’’ ٹھیک ہے دوست! تم کوشش کرنا کہ میں زخمی ہوئے بغیر زمین پر آجاؤں‘‘
لیڈی برڈ لکی نے اپنے پر کھول کر ایک دو تین کہا اور پوری قوت سے لاروا لاری کو درخت سے زمین کی طرف لڑھکانے کے لیے زور لگا دیا۔ لاروا لاری ہلکا پھلکا سا تھا اس لیے وہ درخت کے پتے سے نکل کر گرا اور زمین پر گرنے کے بجائے درخت کی نچلی شاخ پر ایک مکڑی کے جالے میں جاکر اٹک گیا ، وہاں سے اس نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو اس کے پاؤں میں جالے کا ایک تار پھنس گیا اس نے تار سے اپنے ننگے پاؤں کو چھڑاتے ہوئے مکڑی کی جانب دیکھا جو غصے میں اپنے منہ میں بھرے تھوک کو لیے جالا بُن رہی تھی اور لاری کے اچانک آدھمکنے پر ناراض تھی۔ اس اپنے جالےکے ٹوٹے ہوئے تار اور لاری کو باری باری دیکھا اور غصے سے منہ بسورنے لگی۔
’’ہیلو بی مکڑی ! میں لاری ہوں ۔۔۔ میرے پاس جوتے نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے میں چل نہیں پارہا۔ لیڈی برڈ لکی نے مجھے زمین تک پہنچانے میں مدد کی تھی لیکن میں تمہارے گھر تک آکر گرا اور اٹک گیا، کیا تم اپنے جوتے مجھے اُدھار دے سکتی ہو ۔۔۔
لاروا لاری نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ اپنا تعارف کرواتے ہوئے بی مکڑی سےپوچھا
’’ ہر گز نہیں ! میں ابھی مصروف ہوں اور یوں بھی میرے پاس کوئی جوتے ووتےنہیں ہیں‘‘
مکڑی نے منہ سے لعاب پھینکتے ہوئے غصے سے کہا تو لاروا لاری ڈر کر اپنے پیر کو جالے کے تار سے چھڑانے لگا اور اسی کوشش میں تیزی سے جال سے نکل کر درخت کے ایک سوکھے پتے پر جا گرا۔
ہوا نے اُس سوکھے پتے کو اُڑا کر ایک ندی میں لا پھینکا۔ لاروا پتے پر چپک کر بیٹھا رہا۔ پتہ تیرتے ہوئے جب ندی کے کنارے پہنچا تو وہاں ایک مینڈک کو دیکھ کر لاروا لاری نے آواز لگائی
’’ ہیلو ڈو ڈو مینڈک! میری مدد کرو اور اپنے جوتے مجھے اُدھار دے دو تاکہ میں کچھ دیر چل کر اپنے گھر پہنچ سکوں‘‘
ڈوڈو مینڈک نے لاروا کے چھ ننھے ننھے پیروں پر نگاہ ڈالی اور بولا
’’ ہا ہا ! لاری بھائی کیوں مذاق کرتے ہو؟ میرے اتنے بڑے جوتے بھلا تمہارے ننھے سے پاؤں میں کہاں فٹ آئیں گے اور یوں بھی تمہارے اتنے سارے پیر ہیں اور میرے صرف دو ۔۔۔ نہیں شاید چار؟
ڈوڈو کا جواب سن کر لاری نے کے اس کے پیر گننے کے لیے نگاہ ڈالی تو ڈوڈو مینڈک نے اپنے جسم کو سیدھا کرتے ہوئے ندی میں ایک زور کی چھلانگ لگائی اور کہیں پانی میں غائب ہوگیا۔
لاروا لاری نے اپنے پیروں کو دیکھا تو لگا کہ بغیر جوتے کے اس کا ایک پیر شاید زخمی ہوگیا تھا اور اس میں درد بھی ہورہا تھا۔ لاری جوتے نہ ہونے اور زخمی ہونے کے احساس سے تڑپ کر رونے لگا۔ اس کے رونے کی آواز سن کر قریب ہی ایک گھاس پر بیٹھا ایک ٹڈا کہیں سے چھلانگ لگا کر اس کے سامنے آگیا اور بولا
’’ ارے میرے دوست لاری! تم کیوں پریشان ہو اور یہاں بیٹھ کر کیوں رو رہے ہو؟
لاری نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اپنے ننگے پاؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
دوست ٹڈے ! میرے جوتے کہیں کھو گئے ہیں اور بغیر جوتے کے میں اس جنگل میں چل نہیں پارہا ہوں۔۔ دیکھو میرے پیر زخمی ہوگئے ہیں۔
ٹڈے نے اپنے پیروں سے جوتے اُتار کر لاری کو دیتے ہوئے کہا
’’ لو تم میرے جوتے پہن لو ۔۔۔ مگر میرے دوست یہ جوتے کانٹے دار ہیں تمہارے پاؤں کو تکلیف نہ دے‘‘
لاری نے جوتوں کو غور سے دیکھا جس میں جا بہ جا کانٹے لگے ہوئے تھے۔ اس نے گھبرا کر وہ جوتے ٹڈے کو واپس کردیے اور کہا
’’ نہیں میرے دوست یہ جوتے تو میرے پاؤں کو اور زخمی کردیں گے۔۔۔ میں ہمت کرتا ہوں اور یونہی بغیر جوتوں کے چلنے کی کوشش کرتا ہوں‘‘
اتنا کہہ کر لاروا لاری ندی کے کنارے رینگنے لگا اور کچھ دیر میں تھک ہار کر ایک نرم گھاس پر لیٹ گیا۔ ایک چیونٹی وہاں سے گزر رہی تھی اس نے لاری کو ہوشیار کرتے ہوئے کہا
’’لاری بھائی ! تم درخت کے پتوں میں چھپ کر بیٹھ جاؤ ورنہ یہاں تمہیں یہاں مردہ سمجھ کر چیونٹیاں اپنے گھر لے جائیں گی اور اپنے بچوں کو کھلا دیں گی‘‘
لاری چیونٹی کی بات سُن کر کر سٹپٹا گیا اور تیزی سے رینگتا ہوا وہاں ایک پودے کے پتوں میں چھپ گیا، کچھ دیر میں اس نے پتے پر ہی اپنی سبز جیکٹ کا ایک خول بنایا اور اس میں تب تک چھپ کر بیٹھنے کا ارادہ کر لیا جب تک اس کا پاؤں ٹھیک نہ ہوجائے۔ پتوں کے درمیان نرم گرم جیکٹ کےخول میں چھپ کر بیٹھنے کے بعد لاری کو گہری نیند آگئی اور وہ سوگیا۔ کئی گھنٹے آرام سے سونے کے بعد جب وہ جاگا اور اپنے زخمی پاؤں کا حال دیکھنے کے لیے اپنی جیکٹ اتار کر اس کے خول سے باہر نکلا تو اس اچانک اس کی پیٹھ پر خوبصورت اور رنگین دو پنکھ آگئے اس نے جوتے اور زخمی پاؤں کی فکر چھوڑ کر خوشی اور حیرت سے اپنے پنکھ ہلائے تو وہ اُڑنے لگا اور اُڑتے ہوئے ایک پودے کے پھولوں پر آبیٹھا۔ پنکھ آنے کے بعد اب لاری ایک خوبصورت رنگین تتلی بن گیا تھا اور اب اسے دور تک جانے اور جنگل میں گھومنے کے لیے پیروں میں جوتے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ وہ اب اُڑ کر سارے جنگل کی سیر کر سکتا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.