Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لڑائی کی سزا

راشد حسن قادری

لڑائی کی سزا

راشد حسن قادری

MORE BYراشد حسن قادری

    ہمیشہ کی طرح آج پھر وہ دونوں لڑپڑے اور اوراشی نے غصہ میں آکر اچھیا کی گڑیا کی چوٹی پکڑ کے گھمایا اور دیوار سے دے مارا۔ گڑیا زمین پر گری اور اس کی چٹیا الگ ہو گئی ’’اوئی اللہ‘‘ اچھیا نے چیخ ماری اور کچکچا کے دوڑی اشی جھک کر نکل گیا اور اچھیا کی نظر اشی کے چابی والے گھوڑے سوار پر پڑی۔ اس نے اس کو اٹھایا اور زمین پر پٹخ دیا۔ پلاسٹک کا گھوڑے سوار گھوڑے سے الگ ہو کر دور جا پڑا اور پھر دونوں میں گھمسان کی لڑائی ہو گئی جب تک امی نے آکر دونوں کو الگ نہیں کیا اور ڈانٹ پلائی ’’چلو چپ چاپ لیٹ جاؤ اپنے اپنے پلنگ پر۔ آج تم دونوں کو کھانا نہیں ملےگا۔ جب دیکھو لڑتے رہتے ہو‘‘ اور دونوں چپ چاپ اپنے اپنے پلنگ پر لحاف میں دبک گئے اچھیا سبکیاں لیتی بڑبڑاتی رہی ’’بڑے آئے کہیں کے ہماری گڑیا توڑ دی اللہ کرے ان کا گھوڑا اب کبھی نہ چلے‘‘ ادھر اشی اپنے گھوڑے کے غم میں آنسو بہاتے رہے۔

    ’’چچ۔۔۔ تم دونوں بڑے شریر ہو‘‘ کی آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔ انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ سامنے آتش دان کے قریب ایک خوبصورت سی پری کھڑی ہے۔ پری مسکرا رہی تھی۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ چل کر ان کے پلنگوں کے قریب آ گئی۔۔۔‘‘ ہونا۔۔۔ تم دونوں بہت خراب۔۔۔ گندے بچوں کی طرح ہر وقت لڑتے رہتے ہو۔۔۔ اشی نے اچھیا کی گڑیا توڑ دی اچھیا نے اشی کا گھوڑا۔۔۔ اور اس دن اشی نے اچھیا کی کتاب چھپا دی تو ماسٹر صاحب نے اس کو مارا اور اس سے پہلے ایک دن اچھیا نے اشی کی کاپی سے ماسٹر صاحب کا کام کئے ہوئے ورق پھاڑ دیئے تو اشی کو مرغا بننا پڑا۔۔۔ ٹھیک ہے نا‘‘

    پری خاموش ہو گئی اور دونوں سوچنے لگے کہ پری کو یہ سب باتیں کیسے معلوم ہو گئیں۔ پری پھر بولی ’’تم سوچ رہے ہو کہ مجھے یہ سب کیسے معلوم ہو جاتا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے نا۔۔۔ میرا کام ہی یہ ہے کہ تم جیسے شریر بچوں کی دیکھ بھال کروں اور اب تو تمہاری شرارتوں سے تمہاری امی بھی تنگ آ گئی ہیں۔ تم ان کا کہنا بھی نہیں مانتے ہو۔۔۔ اب میں تمہیں سزا دینے آئی ہوں۔‘‘

    ’’سزا‘‘ بےاختیار دونوں کےمونہہ سےنکلا۔

    ’’ہاں۔۔۔ اور یہ لو‘‘ یہ کہہ کر پری نے اپنے ہاتھ کی چھوٹی سی چھڑی کو گھمایا اور ایک دم دونوں کا قد چھوٹا ہونا شروع ہو گیا۔ دیکھتے دیکھتے اچھیا بالکل ننھی منی گڑیا نظر آنے لگی اوراشی کا قد بھی بالکل چھوٹے سے ببوے کی برابر ہو گیا۔ ’’آؤ اب تمہاری اصلی سزا شروع ہوگی، کہہ کر پری نے دونوں کو ایک ہاتھ میں اٹھا لیا اور کمرے سے نکل کر اڑ گئی ان دونوں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیں۔ تھوڑی دیر بعد پری ایک جگہ رکی تو انہوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ پری ایک بڑے سے کمرے میں کھڑی تھی سامنے پلنگوں پر دو بچے سو رہے تھے، پری نے اچھیا کو سوئی ہوئی بچی کے سرہانے رکھ دیا اور اشی کو بچے کے سرہانے اور غائب ہو گئی وہ دونوں چپ چاپ پڑے رہے ان کی آوازیں بھی اتنی کم ہو گئی تھیں کہ خود بھی نہیں سن سکتے تھے۔‘‘

    صبح کو جیسے ہی ان بچوں کی آنکھ کھلی وہ اپنے نئے کھلونے دیکھ کر خوش ہو گئے۔

    ’’دیکھا ڈیڈی کتنے اچھے ہیں چپکے سے رات کو کھلونے لاکر رکھ گئے‘‘ لڑکی نے کہا۔

    لڑکے نے جلدی سے اشی کو ہاتھوں میں دبوچ لیا اور ناک پکڑ کر دبا دی اشی کے مونہہ سے چیخ بھی نہ نکل سکی ادھر لڑکنے کی اچھیا کو چٹیا پکڑ کر اٹھا لیا۔ درد سے اچھیا بلبلا گئی۔ لڑکی نے کمر پکڑ کر ہلایا اچھیا کے مونہہ سے نکلا۔

    ’’امی‘‘

    ’’اہا تو بولتی گڑیا ہے‘‘ اور لڑکی نے اس کو پکڑ کر اور زور سے ہلایا اور اچھیا کے مونہہ سے پھر نکلا ’’امی‘‘

    ’’دکھاؤ ذرا اپنی گڑیا‘‘ لڑکے نے قریب آکر کہا۔

    ’’تم اپنا ببوا دکھاؤ‘‘ دونوں نے کھلونے بدل لئے۔ لڑکا زور زور سے اچھیا کو ہلانے لگا۔ پھر اس نے زور سے اس کو پلنگ پر دے مارا ’’امی‘‘ اچھیا کے مونہہ سے نکلا۔

    ’’ارے میری گڑیا کو کیوں مارتے ہو‘‘ کہہ کر لڑکی نے اشی کو لڑکے کے پلنگ پر پھینک دیا اور اشی بچارہ دھم سے لحاف پر اوندھے مونہہ جاگرا اس کا دل رونے کو چاہ رہا تھامگر اس کے مونہہ سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ لڑکی نے اچھیا کو پھر بلایا مگر اب کے اچھیا کے مونہہ سے ’’امی‘‘ نہیں نکلا۔

    ’’ارے میری گڑیا توڑ دی۔۔۔ امی‘‘ لڑکی چیخی۔

    ’’ہٹ جھوٹی۔۔۔ تیری گڑیا تو پگلی ہے کبھی بولتی ہے کبھی نہیں بولتی‘‘

    ’’اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ اوں‘‘ لڑکی رونے لگی۔

    لڑکے نے قریب آکر اچھیا کو اٹھا کر ہلایا ’’ارے بول۔۔۔ یہ خراب گڑیا ہے ڈیڈی نے بہکا دیا ہے تجھ کو‘‘ یہ کہہ کر لڑکے نے گڑیا زمین پر دے ماری اتنے میں لڑکی نے لپک کر اشی کو اٹھا لیا اور گھماکر دیوار پر دے مارا۔۔۔ ’’اوئی امی‘‘ دونوں کی بےساختہ چیخ نکل گئی۔

    ’’کیا ہے‘‘ امی کی آواز آئی۔

    اشی اور اچھیا نے آنکھ کھول کر دیکھا تو لحاف میں اپنے اپنے پلنگوں پر لیٹے ہوئے تھے اور امی کمرے میں آ رہی تھیں۔ دونوں لپک کر امی سے لپٹ گئے۔

    ’’امی اب نہیں لڑیں گے ہم دونوں‘‘

    ’’سچ‘‘ امی نے دونوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ‘‘اچھا چلو اب کھانا کھا لو۔۔۔ اب مت لڑنا‘‘ اشی اور اچھیا ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے اور پھر دونوں کی نظریں بےساختہ آتش دان کی طرف اٹھ گئیں مگر وہاں تو کوئی بھی نہ تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے