لوٹ کے بدھو گھر کو آئے!
راجستھان کے مہاراج پور میں ایک تاجر تھا رامنا وہ اونٹوں پر سامان لاد کر دوسرے شہروں میں لے جاتا، وہاں فروخت کرتا۔ اچھا خاصا منافع حاصل ہوتا۔ رامنا کئی برسوں سے تجارت کر رہا تھا۔
سفر اکثر ہی رات کو کیا جاتا۔ اونٹ سدھے ہوئے تھے۔ تمام رات چل کر وہ دوسرے شہر پہنچ جاتا۔ رامنا شہر کے باہر کھلے میدان میں ڈیرا ڈالتا۔ سویرے کی ضروریات سے فارغ ہو کر نہا دھوکر وہ ناشتہ کرتے اور پھر سامان تجارت لے کر ہاٹ پہنچ جاتا۔ اونٹ آرام کرتا۔
تمام دن ہاٹ میں مصروف رہ کر وہ ڈیرے لوٹتے۔ کھانا پکاتے کھاتے اور واپسی کے سفر کے لئے تیار ہو جاتے۔
ایک مرتبہ رامنا متھرا جانے کے لئے نکلا۔ قافلہ میں دس اونٹ تھے۔ اونٹ ادھر ادھرنہ نکل جائیں اس لئے انہیں ایک دوسرے سے اس طرح باندھا گیا کہ قطار کے پہلے اونٹ کی دم سے دوسرے اونٹ کی دم میں رسی، دوسرے کی دم سے تیسرے اونٹ کی دم میں رسی۔ اس طرح پہلے اونٹ سے آخری اونٹ تک اونٹ ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے۔ سب اونٹوں کے ساتھ ان کے ساربان تھے۔ قافلہ چل پڑا۔ اونٹوں پر ساربان بیٹھ گئے۔ اونگھنے لگے۔ رامنا بھی اونگھنے لگا۔ آہستہ آہستہ سب سو گئے۔ اونٹ چلتے رہے۔
مہاراج پور سے 02 میل آگے جانے کے بعد پہلے اونٹ کو سڑک کی دونوں طرف بیر سے لدے پیڑ نظر آئے۔ بیر کی خوشبو نے اسے بیتاب کر دیا۔ وہ بیر اور پتیاں کھانے لگا۔ پیڑوں کے تنے گول تھے۔ پہلا اونٹ بیر کھاتے کھاتے گھومتا گیا۔ دوسرے اونٹ اس کے پیچھے تھے۔ پیڑ کی گولائی میں بیر کھاتے کھاتے پہلے اونٹ کا رخ مہاراج پور کی طرف ہوگیا۔ دوسرے اونٹ چونکے بندھے ہوئے تھے اس لئے بیر کھاتے کھاتے وہ بھی گولائی میں گھومے اور مہاراج پور کی طرف چلنے لگے۔ سواروں کو پتہ ہی نہیں چلا کسی کی آنکھ کھلی بھی تو اونٹوں کو چلتے دیکھ وہ پھر آرام سے سو گیا۔
سویرا ہوا۔ رامنا کی آنکھ کھلی تو اونٹ مہاراج پور میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اس کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ غلطی کس کی ہے! اس نے اونٹوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر غلطی کی یا اونٹوں نے بیر کھانے میں راستے کا دھیان نہ رکھ کر غلطی کی! آپ بتائیں غلطی کس کی تھی؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.