Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مچھلیاں اڑنے لگیں

تسنیمہ زیدی

مچھلیاں اڑنے لگیں

تسنیمہ زیدی

MORE BYتسنیمہ زیدی

    ہوا کے چٹختے چنگھاڑتے جھونکے آسمان کا سینہ چیرے ڈال رہے تھے۔ ستاروں نے سہم کر اپنے چہرے چھپا لیے۔ چاند بےچارہ، سب سے بے خبر۔ ہوا کے جھکڑ جب اس کے خوبصورت جسم سے ٹکراتے تو وہ حیرت سے ادھر ادھر تکنے لگتا۔ بگولوں کے یہ تابڑ توڑ حملے اسے دکھی کیے دے رہے تھے۔ اس کے دودھ جیسے آنسوؤں نے اس کے چہرے کی دمک کو ماند کر دیا۔ پر طرف اندھیرا چھانے لگا۔

    یہاں تک کہ خوبصورتی اور بدصورتی سب ایک ہو گئے۔ ہواؤں کی سائیں سائیں اور سیٹیاں۔۔۔ بادل بھی ہوا کے تھپیڑوں سے ٹوٹ کر آسمان میں دھجیوں کی طرح بکھر گئے۔

    سمندر کا پانی تڑپ کر اچھلنے لگا۔ جیسے بڑی دیو جیسی لہروں نے بغاوت کر دی ہو۔۔۔ اور ان سے ڈر کر سہمی ہوئی چھوتی لہروں نے سمندر کے سینے میں اپنی منہ چھپایا۔

    گھبرا کر پانی کی ملکہ ساحل پر ابھری۔ اوپر اور اوپر۔ یہاں تک کہ اس کا رعب اور شان و شوکت ساری دنیا پر چھا گئے۔

    ’’یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟‘‘ اس نے شاہانہ رعب اور غصے کے ساتھ پوچھا۔ ’’ہوا کے اس طوفان نے ہر چیز پر کیوں اتنی بےدردی سے حملہ بولا ہے؟‘‘

    ’’آج رات میری ملکہ سو نہیں پا رہی ہے!‘‘ پانی کی ملکہ کے چاروں طرف چکر لگاتے ہوئے ہواؤں کے بادشاہ نے جواب دیا۔

    ’’بس کیا صرف اتنی سی بات پر دنیا بھر کو تباہ کر ڈالنا اور سب کو دکھی کردینا ضروری ہے۔۔۔!؟‘‘ پانی کی ملکہ نے پوچھا۔

    ’’۔۔۔ اور آخر وہ کون سی بات ہے جس سے تمہاری ملکہ اتنی بے چین اور اداس ہے؟‘‘

    ہواؤں کے بادشاہ کا سرشرم سے جھک گیا۔ وہ کچھ نہیں بولا، جیسے وہ گونگا ہو گیا ہو۔

    تھوڑی دیر بعد اس نے دبی زبان سے کہا:

    ’’اے پانی کی خوبصورت ملکہ!۔ تمہارے سمندر میں زندگی ہے۔۔۔ رنگ برنگ کی مچھلیاں، طرح طرح کے خوبصورت پیڑ پودے ہیں۔ لیکن میری ملکہ اس نعمت سے محروم ہے۔ اس کے پاس نہ زندگی کی چہل پہل ہے نہ ننھے منے معصوم بچے۔۔۔! اور چوں کہ میں اس کی یہ چھوٹی سی تمنا اور معمولی سی خوشی بھی پوری نہیں کر سکتا اس لیے جھنجھلا کر میں یہ سب کر رہا ہوں۔۔۔ میرا جی چاہتا ہے، میں سب کچھ تباہ کر ڈالوں۔ میری ملکہ کو بچے چاہئیں۔۔۔ یہی تمنا، یہی جنون میرے دماغ پر بھی سوار ہے۔‘‘

    ’’میں تمہارا درد سمجھ سکتی ہوں۔ پھر بھی تمہیں اپنی ذمہ داری تو نہیں بھولنی چاہئے۔ یاد رکھو، ان معصوموں کو اپنی پریشانی اور بےچینی کا شکار بنانے کا تمہیں ذرا بھی حق نہیں ہے۔ دیکھو۔ آنکھیں کھول کر دیکھو! میری ننھی منی لہریں کتنی سہمی ہوئی ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر پانی کی ملکہ غصے میں کانپتی ایک دم گہرے صاف شفاف سمندر میں غائب ہو گئی۔

    اگلی رات ڈرے سہمے چاند ستاروں نے بادلوں کی اوٹ سے جھانک کر دیکھا۔ ’نہ جانے ہواؤں کا بادشاہ آج کیا کرےگا!۔

    ہواؤں کا بادشاہ کھویا کھویا اداس سا باہر نکلا۔ کچھ دیر یوں ہی ادھر ادھر چکر لگاتا رہا۔ بے کار، بے مقصد۔ آخر سمندر کے کنارے پر آکر خاموش بیٹھ گیا۔

    اس کے دل کا درد آنکھوں کے راستے امنڈ پڑا اور پھر جب اس کے آنسوؤں کے گرم گرم قطروں نے سمندر کے پانی کو چھوا تو سمندر کی لہریں سر سے پیر تک کانپ گئیں۔

    پانی کی ملکہ ایک بار پھر ساحل کے پاس ابھری۔اس نے دیکھا۔بادشاہ بےبس، لاچار اور اداس بیٹھا ہے۔اسے اس حال میں دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا۔ وہ سمندر کے نیلے نیلے پانی میں واپس لوٹ گئی۔

    سمندر کی کچھ چھوٹی چھوٹی سب سے خوبصورت مچھلیوں کو چنا اور انھیں اپنے ساتھ لے ساحل پر ابھر آئی۔

    ’’لو۔ ہواؤں کے بادشاہ! یہ میری ننھی منی مچھلیاں ہیں۔ انہیں لے جاؤ۔ ان کی دیکھ بھال اور پرورش اچھی طرح کرنا اور ہاں۔! انہیں پانی بغیر جینا سکھانا! ہاں۔ میں جانتی ہوں یہ کام بہت مشکل ہے۔ تم اپنے بادلوں سے کہنا کہ وہ تمہاری دنیا کی ہواؤں میں اتنی نمی اور نرمی بھر دیں کہ ان ننھی ننھی جانوں کو پانی کی کمی محسوس نہ ہو اور دھیرے دھیرے انہیں پانی بغیر جینا آجائے۔

    بادشاہ کو یقین تو نہیں آ رہا تھا، پھر بھی اس نے بڑی احتیاط سے ان خوبصورت مچھلیوں کو سنبھالا۔ جھک کر ملکہ کا شکریہ ادا کیا۔

    اور خوشی اور جوش کے ساتھ تیزی سے واپس لوٹ گیا۔

    ان معصوم سی خوبصورت جانوں کو دیکھ کر ہواؤں کی ملکہ کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا اور پھر ان کی دیکھ بھال اور پرورش میں ملکہ نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔

    ننھی منی مچھلیوں کو جہاں ملکہ سے ہمت اور اٹھان ملی، وہیں ہواؤں کے بادشاہ سے انہیں آزادی اور تیز رفتار سے اڑنے کی لگن بھی ملی، جس نے ان کے جسموں میں چھوٹے چھوٹے پروں کی سی شکل اختیار کر لی۔

    بادلوں نے ان کے جسم میں نرمی اور ہلکا پن بھر دیا جس نے آہستہ آہستہ ان کے مخملی بالوں اور پروں کا روپ لے لیا اور پھر سب نے مل کر ان مچھلیوں کو اڑنا سکھا دیا۔ چاند اور ستارے تو مچھلیوں کے اڑنے کے خیال سے بھی حیران تھے۔

    ہاں یہ دنیا کی سب سے بڑی حیرت کی بات بھی تھی۔

    جب ان ننھی منی جانوں نے پہلی بار اڑنا شروع کیا ہے اس وقت کا منظر لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

    اور پھر بادشاہ بڑے فخر سے انہیں اپنے سینے پر رکھ کر چلا اور سب سے پہلے انہیں سمندر کی ملکہ سے ملایا۔

    ملکہ اپنی مچھلیوں کے چھوٹے چھوٹے ’پنکھوں‘ کو مضبوط پروں میں بدلا ہوا دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھی۔

    ’’ارے یہ تو سچ مچ بہت شان دار اور صحت مند مچھلیاں بن گئی ہیں!‘‘

    ’’مچھلیاں!‘‘ ہواؤں کے بادشاہ نے فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ دہرایا، ’’ہاں۔ کبھی تھیں یہ مچھلیاں‘‘۔! مگر اب ان کے بازوؤں میں میری تیز رفتاری بھری ہوئی ہے اور ہاں! ان کا یہ چہچہانا جو آپ سن رہی ہیں، یہ بھی میرے جھونکوں کی تیز سیٹیاں ہیں۔ ان کے پربادلوں کی طرح نرم ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ملک عالی!۔۔۔ کہ آپ کی طرح ۔۔۔ یہ بھی خوبصورت ہیں‘‘۔

    یہ کہہ کر بادشاہ نے ایک پرواز بھری اور اپنے خوبصورت پرندوں کو چاند ستاروں اور پیڑوں سے ملانے آگے لے اڑا۔

    دنیا کی ہر چیز نے ان کا بڑے جوش کے ساتھ استقبال کیا۔

    اور پیڑوں نے تو انہیں رہنے اور ٹھہرنے کے لیے اپنا سب کچھ دے دیا۔

    اور بس پہلی بار آسمان کی خاموش اور سنسان فضاؤں میں پرندوں کی چہچہاہٹ کے سریلے گیتوں سے ایک نئی زندگی اور چہل پہل نظر آنے لگی۔

    آہستہ آہستہ ساری دنیا نے چہچہانا شروع کر دیا۔

    ہاں۔ یہی ہماری زمین پر سب سے پہلی چہچہاہٹ تھی۔

    جب سے آج تک۔ یہ چڑیاں ابھرتے اور ڈوبتے سورج اور زمین پر کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کے میٹھے میٹھے گیت سناتی رہتی ہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    نام کتاب : داستاں گو آیا ہے

    مصنف رتن سنگھ

    پہلی اشاعت: 2016

    داستان گو آیا

    दासतान-गो आया है

    Dastango Aaya Hai

    داستان گو آیا ہے

    اور اپنے ساتھ کہانیوں کا پٹارا لایا ہے

    کون سی کہانی سنائے

    یہی بات اس کی سمجھ میں نہ آئے

    اتنے میں پٹارے سے آواز آئی

    آج تو میری باری ہے بھائی

    داستاں گو نے ایک بار بچوں کی طرف دیکھا

    اور پھر اپنے پٹارے میں جھانکا

    کہانی ہری بھری تھی

    دیکھنے میں بہت ہی بھلی تھی

    اس نے اسی کو نکالا

    اور یوں گویا ہوا

    واہ واہ! کیا کہانی ہے

    سمجھ لو۔ ’پوری‘ زندگانی ہے

    یہ تب کی بات ہے، جب دھرتی پر بنسپتی کا راج تھا

    اور جنگل اس راج کا سرتاج تھا۔

    آپ جانتے ہیں مگر پھر بھی بتاتا ہوں

    زندگی کے بھید کو پھر سے دہراتا ہوں

    جنگل ہی ہیں جو زندگی کو خوشبوؤں سے مہکاتے ہیں

    اور ہواؤں کو پاک صاف بناتے ہیں

    صاف لفظوں میں کہوں تو اسی سے جاندار زندگی پاتے ہیں۔

    تو بچو! ہوا کچھ ایسا

    کہ ایک تھا لکڑہارا

    کلہاڑی کندھے پر رکھ کر جنگل میں جاتا تھا۔

    اور وہاں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا تھا۔

    لکڑہارے کی کلہاڑی جب پیڑ پر پڑتی تھی

    تو پیر کی جان نکلتی تھی۔

    اسے بڑا درد ہوتا تھا

    اور وہ ہزار آنسو روتا تھا۔

    کسی بچے نے کیا کہا؟

    ہاں! یہ سوال اچھا ہے۔

    میں بتاتا ہوں

    سنو۔ پوری بات سمجھاتا ہوں۔

    پیڑ بھی ہماری آپ کی طرح سانس لیتے ہیں

    وہ ہوا سے نائیٹروجن نچوڑتے ہیں

    اور آکسیجن چھوڑتے ہیں۔

    مطلب یہ ہوا کہ وہ ہماری آپ کی طرح زندہ ہیں

    دھرتی پر موجود زندگی کا بہت بڑا حصہ ہیں۔

    دوسرے لفظوں میں کہوں تو دھرتی پر خود بھی پنپتے ہیں ۔

    اور دوسرے جانداروں کو زندگی بخشتے ہیں۔

    ہاں! تو میں کہہ رہا تھا

    لکڑہارے کی بات سنا رہا تھا۔

    ایک رات، کچھ ایسا ہوا

    لکڑہارا دن بھر کا تھکا ہارا تھا

    گہری نیند سویا تھا

    سپنوں کی دنیا میں کھویا تھا۔

    سپنوں میں آپ جانتے ہیں کہ ایسا اکثر ہوتا ہے

    کہ آدمی کسی اور ہی دنیا میں جا پہنچتا ہے

    لیکن لکڑہارے کے ساتھ کچھ ایسا ہوا

    سپنے میں بھی وہ ایک بہت بڑے جنگل میں پہنچ گیا

    جنگل کیا تھا، ایک پوری دنیا بسی ہوئی تھی

    لکڑہارا تو اسے دیکھ کر دیکھتا رہ گیا

    یوں کہہ لیجئے کہ بھونچکا سا ہو گیا۔

    کہیں کیکر تھا، کہیں لسوڑھا تھا

    کوئی ننھا سا پودا تھا، کوئی صدیوں بوڑھا تھا۔

    کہیں چندن کے پیڑ مہک رہے تھے

    تو کہیں پیڑوں پر لگے پھول چہک رہے تھے۔

    کہیں بڑے سے پیڑ پر پتلی سی بیل چڑھی تھی اور کسی پیڑ کی داڑھی زمین میں گڑی تھی۔

    غرض یہ کہ چھوٹے یا بڑے پھولوں سے لدے یا کانٹوں سے بھرے سب کے سب مل جل کر ایسے رہتے تھے جیسے وہ ایک ہی جسم کے حصے تھے۔

    جنگل کیا تھا، زندگی کا ہنستا ہوا چہرہ تھا

    ہر طرف خوشیوں کا پہرہ تھا۔

    کہانی کا لکڑہارا، دیکھ دیکھ کر حیران

    بار بار اس کے منہ سے نکلے۔ یا مولا۔ تیری شان۔

    پھر اس نے سوچا

    اور خود کو کہتے سنا

    کہ آدم کی زندگی میں ایسا کیا ہے

    کہیں راستے روشن ہو گئے ہیں اور کہیں اندھیرا چھا گیا ہے

    کوئی سکھوں کی نیند سوتا ہے اور کوئی دکھوں کے

    اندھیرے میں بھٹک رہا ہے۔

    لکڑہارے نےاتنا تو سوچ لیا۔

    مگر اس کے آگے نہ بڑھ سکا

    آخر تو بیچارہ صرف لکڑہارا تھا

    وہ لکڑی کاٹنے کے تصور میں بھٹک گیا۔

    اور اس نے سوچا

    میرے پاس کلہاڑی ہوتی تو ایک بوجھ لکڑی کاٹ لیتا۔

    جنگل کی عظمت دیکھ کر وہ بھول گیا تھا کہ وہ سپنا دیکھ رہا ہے۔

    وہ سمجھتا تھا کہ وہ حقیقت جی رہا ہے۔

    سپنے میں تو ایسا ہوتا ہے۔

    جو دل چاہتا ہے، تو وہ ہو جاتا ہے

    اس لیے اس وقت ایک معجزہ ہوا

    اور اس کے کندھے پر ایک کلہاڑا آ گیا۔

    لکڑہارا خوش ہوا

    اور لکڑی کاٹنے کی بات سوچنے لگا۔

    اس نے کلہاڑا ہاتھ میں پکڑا

    اور پیڑ پر چوٹ کرنے کے لئے کلہاڑا اوپر اٹھایا

    تبھی ہوا میں لہراتی ایک آواز نے اسے ٹوکا

    اسے مت کاٹو۔ یہ نیم ہے

    یہ تو اپنے آپ میں پورا حکیم ہے

    اسے دیکھ کر ہر بیماری کانپتی ہے

    کیونکہ اس کی کڑواہٹ میں امرت کی دھار بسی ہوتی ہے۔

    لکڑہارے نے ادھر ادھر دیکھا

    حیران ہوا۔ وہاں تو کوئی نہ تھا۔

    پھر بھی وہ نیم کو چھوڑکر دوسرے پیڑ کی طرف بڑھا

    تبھی ایک آواز پھر ہوا میں لہرائی

    اور اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

    یہ پیپل ہے۔ آگے نہ بڑھو۔ ٹھہر جاؤ

    اپنے راستے میں کاٹنے نہ پھیلاؤ

    اسے بچا کر، زندگی کو بچاؤ

    اس کی جڑ، چھال، پتے، بیج، کن کن دواہے

    اسی لیے لوگ کہتے ہیں کہ یہ پیڑ نہیں۔ دیوتا ہے۔

    اس طرح لکڑہارا، جدھر بھی قدم بڑھائے۔

    تبھی ہوا میں لہراتی ہوئی آواز آئے

    ہر پیڑ کے گن گنوائے

    اور اسے کاٹنے سے ٹوکتی جائے۔

    ہوتے ہوتے لکڑہارے کے سامنے ایک سوکھا پیڑ پڑا۔

    تو وہ زمین پر مٹی کے ساتھ مٹی ہوتا جا رہا تھا۔

    اس نے سوچا اسے کاٹنے سے اسے کوئی نہیں روکےگا

    اور وہ کلہاڑا ہاتھ میں لیے آگے بڑھا

    لیکن پھر وہی آواز پھر سے آئی

    اور لکڑہارے کو ایک نئی بات بتائی۔

    پیڑ مر کر بھی پیڑوں کا بھلا کرتے ہیں

    وہ مٹی سے مٹی ہوکر ان کے لیے کھاد بن جاتے ہیں

    یہ سوکھی سڑی لکڑی، دوسروں کے لیے زندگی بن جائےگی

    اور خود بھی پتے پتے میں ہری بھری ہوکر لہرائےگی۔

    آخر لکڑہارا سپنے میں چلتا چلتا

    آگے بڑھتا رہا اور آخر وہ ایک برگد کے نیچے پہنچ گیا۔

    برگد، آپ جانتے ہیں کہ پیڑوں کا بادشاہ ہے۔

    بادشاہ ہے، مگر خود کو زندگی کا خادم سمجھتا ہے۔

    اسی نے ہوا کے ذریعے پیغام بھیجا تھا۔

    اور لکڑہارے کو پیڑ کاٹنے سے روکا تھا۔

    لکڑہارا سوتے میں سپنا دیکھ رہا تھا

    مگر خود کو جاگتا ہوا سمجھ رہا تھا۔

    اسے جب یہ احساس ہوا کہ وہ جنگل کے بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا ہے

    تو اس نے سوچا۔ میرے لیے اپنی بات کہنے کا یہی موقع ہے۔

    اس نے ہمت بٹوری اور یوں گویا ہوا

    حضور! لکڑی نہیں کاٹوں گا تو بیچوں گا کیا؟

    اسی میں روزی ہے۔ روٹی ہے، اسی سے اپنا گزارا کرتا ہوں

    یہ سہارا نہ رہا تو آج نہیں تو کل مرتا ہوں۔

    تھوڑی دیر کے لئے وہاں سناٹا چھا گیا

    تبھی ہوا کا ایک ٹھنڈا میٹھا جھونکا آیا

    اس نے لکڑہارے کو دلاسہ دیا

    اور آخر یوں گویا ہوا۔

    دیکھو لکڑہارے! یہ جنگل زندگی کی بیش قیمت دولت ہے

    صاف لفظوں میں کہوں تو یہ زندگی کی بنیادی ضرورت ہے

    یوں سمجھ لو کہ ان کے دم سے ہی زندگی کے گھر میں سویرا ہے

    یہ نہیں ہوں گے تو وہی آخرت کا سا اندھیرا ہے۔

    اب رہی بات تمہاری روزی روٹی کا تو ہم

    اس کا بھی انتظام کرتے ہیں

    اور تمہاری جھولی موسمی پھلوں سے بھرتے ہیں۔

    آواز کا ایسا کہنا تھا۔

    کہ تبھی ایک معجزہ ہوا

    بھانت بھانت کے پھل ہوا میں اڑتے ہوئے آئے

    اور لکڑہارے کے سامنے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے۔

    پھلوں کا بھاری گٹھر اٹھائے لکڑہارا گھر کی طرف جا رہا تھا

    تو اس کا سپنا ٹوٹ گیا۔

    کہتے ہیں کہ اب لکڑہارے کے گھر میں زندگی کی بڑی رحمت ہے

    یوں کہئے کہ اب برکت ہی برکت ہے۔

    اتنا کہہ کر داستاں گونے اپنا پٹارا کھولا

    اور بچوں سے یوں گویا ہوا۔

    آپ کا ہے فرض اولیں

    جنگل بچا کے رکھنا

    دھرتی کے ہیں یہ زیور

    ان کو سجا کے رکھنا

    جنگل کے دم سے ہم ہیں

    جنگل سے زندگی ہے

    جنگل کی حفاظت ہی

    قدرت کی بندگی ہے

    یہ کہتے ہوئے داستاں گونے اپنا پٹارا لپیٹا

    اور دوسری جگہ جانے کے لیے اٹھا۔

    بچوں نے کہا۔ جاؤ۔ ضرور جاؤ اور یہ سندیشہ سب کو سناؤ

    لیکن ہمیں اپنا نام اور پتہ تو بتاؤ۔

    ارے نام میں کیا رکھا ہے؟ زندگی کا حاصل تو افسانہ ہے۔

    اور کتابوں میں میرا ٹھکانہ ہے،

    جہاں قاری ہے، وہیں میرا ڈیرا ہے۔

    اور وقت کا ہر دور میرا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے