Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مگرمچھ کی ناراضگی

محمد مجیب احمد

مگرمچھ کی ناراضگی

محمد مجیب احمد

MORE BYمحمد مجیب احمد

    اس چڑیا گھر میں جب طلباء مگرمچھ کو کھلانے کا تماشہ دیکھ رہے تھے تو مگرمچھ نے اس دن نہ جانے کیوں غصہ سے اپنی دیکھ بھال کرنے والے چڑیا گھر کے ’باسو‘ نامی نگراں کار پر ہی حملہ کرتے ہوئے اسے پانی میں گھسیٹ لیا تھا۔ لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ حملہ کے دوران مگرمچھ جس کا نام ’جونی‘ تھا۔ اس نے باسو کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور چبا ڈالا تھا۔ سارے تماشائی جن میں اکثریت طلباء کی تھی دم بخود ہو کر یہ منظر دیکھنے کے بعد دہشت زدہ ہو گئے تھے۔

    اس سنگین حملہ کے بعد بوس کو شہر کے ایک دواخانہ میں منتقل کیا گیا تھا۔ جہاں اس کے ہاتھ کی جراحی کی گئی ۔ یہ واقعہ ایک قدیم چڑیا گھر میں پیش آیا تھا۔ جس میں مگرمچھوں کی ہمہ اقسام نسل کو محفوظ رکھنے کا انتظام تھا ۔ بوس کے دونوں ہاتھ زخمی ہو گئے تھے۔ مگر ایک ہاتھ پر مگرمچھ کے کاٹ لینے کے گہرے نشان تھے۔ اور جگہ جگہ سے کھال ادھیڑ گئی تھی۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے بوس پر کمزوری کا غلبہ طاری ہو گیا تھا۔ چند گھنٹوں تک اسے دواخانہ میں شریک رکھنے کے بعد گھر جانےکی اجازت دے دی گئی تھی۔

    بوس کے ہاتھ کا زخم اس وقت خطرناک شکل اختیار کر جاتا۔ اگر اس نے ذرا سی غفلت اور چوکسی نہ برتی ہوتی۔ اس نے بہت ہی پھرتی اور چستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرزور طریقے سے مگرمچھ کو پیچھے دھکیل کر اپنا ہاتھ اس کے منہ سے چھڑانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ ورنہ قوی اندیشہ تھا کہ وہ ضرور اپنے ایک ہاتھ سے سدا کے لیے محروم ہو جاتا اور مگرمچھ اپنے سخت اور نوکیلے دانتوں سے اس کا ہاتھ چبا کر کھا جاتا۔ یہ تو بوس کی خوش بختی تھی کہ ایسا نہ ہوا۔ اسے اپنے زخم سے زیادہ غم اس کا تھا کہ اس نے ہی مگرمچھ کو تربیت دی تھی اور روز اسے کھلانا اس کا معمول تھا۔

    ’’میں روز کی طرح اسے کھلانے ہی جارہا تھا کہ پھر نجانے کیا ہوا جو اس نے مجھ پر اچانک حملہ آور ہو کر گوشت میرے منہ پر دے مارا اور میرے ہاتھ کو اپنے تیز دانتوں میں لے کر چبانا شروع کر دیا۔ شاید اس نے بھوک کی تاب نہ لا کر ایسا قدم اٹھایا ہو یا پھر کسی وجہ سے برہمی کے عالم میں اس سے یہ انتہائی غیر مناسب حرکت سرزد ہوئی تھی۔‘‘ صدمے کا شکار بوس نے کہا۔

    بوس تقریباً کئی برسوں سے مگرمچھوں کی دیکھ بھال اور نگرانی پر مامور تھا۔ وہ ہر مگرمچھ کی عادت اور فطرت سے بخوبی واقف تھا۔ وہ بڑے ہی اہتمام سے ان کی غذا اور صحت کا بھرپور خیال رکھتا تھا ۔ جونی کے غیر متوقع حملے نے اسے حد درجہ افسردہ اور دل شکستہ بنا دیا تھا۔ اسے جونی سے ایسی بے وفائی اور باغیانہ حرکت کی امید نہیں تھی۔ اس نے نہ صرف بوس پر حملہ کیا تھا بلکہ اسے زمین سے گھسیٹتے ہوئے پانی میں لے گیا تھا اور اسکا ہاتھ اپنے منہ سے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہ تو تربیت یافتہ بوس کا کمال تھا کہ اس نے بڑی ہی مہارت سے حملہ کا سامنا کرتے ہوئے مشکل سے اپنا ہاتھ چھڑا کر پانی سے سلامتی کے ساتھ باہر نکل آیا۔ اگر وہ جونی کی مضبوط گرفت سے آزاد نہ ہوتا تو یہ حملہ مہلک ثابت ہوتا یا پھر بوس ہمیشہ کے لیے لولا ہو جاتا تھا:

    اچھا ہوا کہ بوس نے خود کو کسی طرح چھڑالیا اور جونی کا شکار ہونے سے بچ گیا۔ تاہم وہ رسہ کشی اور اپنی مدافعت کے درمیان زخمی ضرور ہوا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ بھیانک حملہ کے باوجود وہ ہلاکت سے محفوظ رہا۔ جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ یہ جان لیوا حادثہ کیوں پیش آیا ہم اس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں؟ اور کس بات پر وہ برہم ہوا تھا یہ بھی معلوم کرنا ضروری ہے؟ چڑیا گھر کے کیوریٹرڈاکٹر میر گوہر علی خاں نے بتایا۔

    بوس پر ہلاکت خیز حملے کے بعد جونی نے گہری چپ سادھ لی تھی۔ وہ سب اپنے مگرمچھوں سے الگ تھلگ ہو کر ہر وقت اداس اور خاموش رہنے لگا تھا۔ غالباً اسے اپنے کئے پر پچھتاوا ہورہا تھا۔ اس نے بوس کی عدم موجودگی میں غذا لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ جو ان دنوں زخمی ہونے کے سبب چھٹی پر تھا۔ جب اس کی اطلاع بوس کو ہوئی تو وہ اپنی زخمی حالت کے باوجود دوڑا چلا آیا۔ وہ بھی جونی سے بہت ہی مانوس تھا۔ یہی سبب تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نہیں رہ رہے تھے۔

    جونی اپنے باس بوس کو سامنے پاکر آنکھیں پھیلائے حیرت سے اسے یک ٹک دیکھنے لگا۔ اس کو جہاں اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس تھا تو وہیں اپنے نگراں کار کی موجودگی پر خوشی بھی ہو رہی تھی۔ وہ بوس کو دیکھ کر آہستہ آہستہ پانی سے نکل کر کنارے پر آیا۔ جونی کی شرمساری بوس سے چھپی نہ رہی وہ اپنے ایک ہاتھ سے گوشت کا ٹکڑا لے کر اس کے آگے ڈال دیا۔ بھوکا جونی بڑی ہی بے تابی سے کھانے لگا۔ اسے کھاتے ہوئے دیکھ کر بوس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ جونی کو نہیں کھلائے گا تو بے چارا ایسے ہی بھوکوں مر جائے گا۔ جو کہ اسے کبھی بھی ایسا ہونا گوارا نہ تھا۔

    جونی کے حملہ سے دو روز پہلے ہی بوس نے اپنی خرابی صحت کی بنا پر رخصت لی تھی۔ قیاس یہی کیا جانے لگا کہ بوس کی غیر حاضری میں اس نے برابر نہ کھایا ہو اور اسی ناراضگی کے تحت وہ اس کے حملے کا شکار ہوا تھا۔ جونی کو کسی اور کے ہاتھ سے کھانا پسند نہیں تھا اور بوس کی رخصتی اس کو نہایت ناگوار گزری تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے