Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میلی کتاب کی اجلی کہانی

سلمیٰ جیلانی

میلی کتاب کی اجلی کہانی

سلمیٰ جیلانی

MORE BYسلمیٰ جیلانی

    ’’سلام بی بی، امارا نام زرمینہ ہے اور ام ادھر سے آیا اے۔۔۔‘‘ فائزہ کے سامنے کوئی آٹھ نو برس کی شربتی آنکھوں والی بچی کھڑی کالونی کے آخر میں موجود کچی بستی کی طرف اشارہ کر رہی تھی اور رسان سے اپنا تعارف کرانے کے بعد اسے پر شوق نظروں سے تک رہی تھی۔ اس کے کاندھے پر بڑا سا میلے کچیلے کاغذوں سے بھرا ہوا بد رنگ ٹاٹ کا تھیلا تھا اور ہاتھ میں ایک میلی سی کہانیوں کی کتاب جس کے صفحے پھٹے ہوئے تھے۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اس نے کسی کچرے کے ڈھیر سے ہی اٹھائی تھی۔

    صبح کا اجالا پوری طرح سے پھیل چکا تھا فائزہ گھر کے گیٹ پر اسکول جانے کے لئے بالکل تیار کھڑی تھی اس کی وین کسی وقت بھی آ سکتی تھی، اس کا دھیان آج اسکول میں ہونے والے تقریری مقابلے کی طرف تھا وہ دل ہی دل میں اپنی تقریر کے جملے دہرا رہی تھی کہ ایسے میں اچانک اس اجنبی لڑکی کی بےوقت کی مداخلت گراں گزری۔ وہ جھنجلا کر بولی۔ ’’دیکھو اس وقت میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی اگر تمہیں روٹی چاہئے یا ردی اخبار تو دن میں کسی اور وقت آنا۔۔۔ امی بھی مصروف ہیں تم جاؤ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ادھ کھلے گیٹ کو کنڈے سے بند کر نے لگی مگر بچی کا ایک پاؤں گیٹ کے اندر ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی وہ بچی جو اپنا نام زرمینہ بتا رہی تھی لڑکھڑا سی گئی لیکن جلد ہی سنبھل کر اپنے ہاتھ میں دبی کتاب فائزہ کے آگے کرتے ہوئے بولی۔۔۔’’ نہ نہ بی بی ام کچھ نئیں مانگتا، تم یہ کہانی سناؤ جو اس کتاب میں لکھی ہے‘‘ اس نے پھٹے کاغذوں والی کتاب فائزہ کے ہاتھ میں تھمانے کی کوشش کی، فائزہ ٹھٹھک کر پیچھے ہو گئی اور ناک سکوڑتے ہوئے بولی ’’ارے ارے یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔ اتنی گندی کتاب میں کیوں پڑھوں؟‘‘

    زرمینہ نے حیرت سے فائزہ کے چہرے کی طرف دیکھا اور پیار سے کتاب کے صفحات پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔

    ’’یہ گندی کتاب تو نئیں۔۔۔ دیکھو کتنے پیارے کپڑے پہنے کوئی پری ہے، اس کے سر پر تاج بھی ہے‘‘ اس نے کتاب میں بنی ہوئی ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا جو واقعی میں کبھی بہت خوبصورت رہی ہو گی لیکن اب تو اس پر طرح طرح کی غلاظت چپکی ہوئی تھی، زرمینہ نے بےتابی سے صفحہ پلٹا۔۔۔’’ اور۔۔۔ اور یہ دیکھو، کتنا پیارا باغیچہ ہے۔پھولوں کی جگہ ستارے اگ رہے ہیں ضرور کوئی مزے کی کہانی ہے۔‘‘

    فائزہ نے اس کی بےتابی اور خوشی کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک بار پھر اسے جھڑکا ’’ہوگی۔۔۔ مجھے کیا۔۔۔ پتا نہیں کون ہو تم اور کہاں سے یہ غلیظ کتاب اٹھا لائی ہو۔۔۔ ہٹو سامنے سے مجھے اسکول کو دیر ہو رہی ہے‘‘ یہ کہتے ہوئے امی کو آواز دی۔۔۔ فائزہ کی امی جو اسے کھانے کا ٹفن دینے پہلے ہی وہاں آن کھڑی ہوئی تھیں۔۔۔ تحمل سے بولیں۔

    ’’ارے فائزہ تو اس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا بات ہے‘‘ زرمینہ نے انہیں مہربان دیکھا تو جلدی سے کتاب لے کر ان کے پاس پہنچ گئی اور وہی سب کچھ دوبارہ سے دہرانے لگی۔۔۔ ابھی اس کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ فائزہ کی اسکول وین کے تیز ہارن نے ان سب کو چونکا دیا۔ امی نے اس بچی زرمینہ کو کسی اور وقت آنے کی ہدایت کی اور فائزہ کو وین میں بیٹھنے میں مدد کرنے لگیں۔

    سہ پہر کو فائزہ اسکول سے گھر آئی تو اسے برآمدے سے امی کی آواز سنائی دی۔۔۔ ارے یہ تو اس کی پسندیدہ کہانی تھی۔۔۔ جو بچپن میں ہر رات وہ سونے سے پہلے سنا کرتی تھی۔۔۔ وہ بھاگ کر برآمدے میں پہنچی تو اس نے دیکھا کہ زرمینہ برآمدے میں تخت کے ساتھ بچھی بید کی کرسی پر براجمان تھی اس کے ساتھ دو اور چھوٹے بچے بھی تھے اب کے ان کے چہرے میل کے دھبے ہونے کے باوجود خوشی سے جگمگا رہے تھے۔۔۔ تخت پر امی بیٹھی تھیں اور کہانی سنانے میں اتنی منہمک تھیں کہ انہیں فائزہ کے آنے کا پتہ ہی نہ چلا۔۔۔ فائزہ خاموشی سے اپنا بستہ ایک طرف رکھ کر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔۔ ’’ہاں تو بچو! اس باغ میں پھولوں کی جگہ ستارے اگتے تھے اور جھیل میں شربت کی طرح میٹھا پانی۔۔۔ یہ سب بچوں کی ہنسی کی وجہ سے ہوتا۔۔۔ جب بچے خوش ہوتے۔۔۔ لیکن جب کبھی بچے اداس ہو جاتے تو باغ میں اندھیرا چھا جاتا اور جھیل کا پانی کڑوا۔‘‘ فائزہ کی امی نے کہانی سناتے ہوئے بچوں کے چہروں کی طرف دیکھا۔۔۔ انہیں فائزہ، زرمینہ اور اس کے دونوں چھوٹے بھائیوں کے چہرے بھی ستاروں کی طرح دکھائی دیئے۔۔۔ امی نے میلی کچیلی کتاب کا صفحہ پلٹا اور کہانی آگے بڑھ گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے