Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں ہوں ناں

وقار محسن

میں ہوں ناں

وقار محسن

MORE BYوقار محسن

    جب پہلی بار چھوٹی سی دو پہیوں والی سائیکل چلانا سیکھی تو میں خوف سے کانپ رہا تھا۔

    بچپن کی جو روشن ترین یادیں آج بھی جگنوؤں کی طرح ذہن میں جگمگاتی ہیں۔ وہ دادا پاپا کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ہیں۔ ویسے تو پاپا اور ممی بھی بھت لاڈ کرتے تھے لیکن ممکن ہے اپنی بے پناہ مشغولیت کی وجہ سے اتنا وقت نہ دے پاتے ہوں۔ دادا نے کبھی محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ ہم دونوں میں 75 سالوں کی خلیج (فاصلہ) ہے۔ ہوم ورک کرانے کے علاوہ میرے ہر کھیل میں دادا شریک ہوتے۔ کرکٹ، تیراکی، مچھلی کا شکار، باغبانی، لوڈو، کیرم کے کھیل میں دادا میرے ساتھ ہوتے۔ میں جب بھی کسی کام میں ہچکچاتا یا خوف محسوس کرتا۔ دادا بڑی شفقت سے کہتے: ’’میں ہوں نا!‘‘ ان تین الفاظ میں ایسا جادو ایسی طاقت تھی کہ میں خود کو ہر طرح سے محفوظ سمجھتا۔

    مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے پہلی بار چھوٹی سی دو پہیوں والی سائیکل چلانا سیکھی تو میں خوف سے کانپ رہا تھا۔ ہینڈل ڈگمگا رہا تھا۔ دادا سائیکل کی گدی تھامے میرے ساتھ دوڑ رہے تھے۔ وہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ کہہ رہے تھے۔

    ’’شاباش بیٹا! سامنے دیکھو۔ گھبراؤ نہیں۔ میں ہوں نا!‘‘

    یہ الفاظ سنتے ہی میرا خوف جاتا رہا اور میں نے دیکھا کہ دادا بہت پیچھے کھڑے تالی بجا رہے ہیں اور سائیکل سڑک پر پھسلی اور چلی جا رہی ہے۔ اسی دن میں سائیکل چلانا سیکھ چکا تھا۔

    جب میرے امتحانات ہوتے تو دادا رات کو بہت جلد مجھے اپنے پاس لٹا لیتے اور میری پسندیدہ شیخ چلی کی کہانی سنا کر سلا دیتے۔ اگلے دن صبح کو اپنی سائیکل پر بٹھاکر اسکول لے جاتے۔ گیٹ پر مجھے چھوڑتے ہوئے اپنا مخصوص جملہ دہراتے۔

    ’’بیٹا بالکل مت گھبرانا۔ میں ہوں نا!‘‘

    مجھے تیرنا بھی دادا پاپا ہی نے سکھایا۔ غالباً جب میں میٹرک میں تھا۔ دادا میرے ساتھ تیراکی کے لباس میں کالج کے سوئمنگ پول جاتے۔ تین چار دن تک دادا مجھے کنارے پر پانی کی سطح پر لیٹ کر پیر چلانے کی مشق کراتے رہے۔ پھر ایک دن میرے ساتھ ٹہلتے ہوئے گہرے پانی کی طرف گئے اور باتیں کرتے کرتے مجھے کہنی سے پول میں گرا دیا۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ پائوں مارنا شروع کیے۔ کچھ پانی بھی پیٹ میں گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک ہاتھ میرے پیٹ کے نیچے ہے۔ میں نے پھر ہاتھ پاؤں مارنے اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی، جب میں نے محسوس کیا کہ میں بغیر کسی سہارے کے تیر رہا ہوں اور دادا بھی میرے ساتھ تیر رہے ہیں۔ پول کے باہر آکر جب میں تولیے سے بدن صاف کر رہا تھا۔ تو دادا نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

    بیٹا! جو تم نے آج سیکھا یہی زندگی کی کہانی ہے۔ مشکلات اور مسائل میں گھر کر جب انسان ان پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بےپناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے اور جب مشکلات میں گھر کر وہ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے تو راستے خود بخود کھلتے جاتے ہیں۔ جب میری عمر پندرہ سال تھی تو ایک طویل علالت کے بعد دادا کا انتقال ہوا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی گھنے درخت کی چھاؤں سے اچانک چلچلاتی دھوپ میں آ گیا ہوں۔آہستہ آہستہ زندگی کا سفر طے ہوتا گیا۔ جوانی کے بعد میرے سر پر بھی سفید دھوپ اتر آئی۔ زندگی میں جب بھی مجھے صدموں، مشکلات، آزمائشوں نے گھیرا اور ایسا محسوس ہوا کہ میں ایک بند گلی میں کھڑا ہوں تو اچانک اپنے کاندھے پر ایک مانوس شفیق لمس کے ساتھ آواز آتی: ’’میں ہوں نا!‘‘ اور پھر تاریکی چھٹ جاتی۔

    اب میں بھی زندگی کی ستردہائیاں گزار چکا ہوں۔ میرے پوتے ایان مجھ سے اسی طرح مانوس ہیں جیسے میں اپنے دادا سے تھا۔ وہ بھی مجھے دادا پاپا ہی کہتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک پیچیدہ آپریشن ہوا۔ ایک دن پہلے تک میں بالکل نارمل محسوس کر رہا تھا۔ لیکن نا جانے کیوں آپریشن سے کچھ گھنٹے پہلے میں کچھ نروس سا ہو رہا تھا۔ جب مجھے اسٹریچر پر آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو میرا دل نا جانے کیوں انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔ اتنے میں ایان دوڑتے ہوئے آئے۔ اسٹریچر کے نیچے نصب اسٹینڈپر کھڑے ہو کر میرے چہرے پر پیار کرکے کہنے لگے۔

    ’’دادا پاپا! آپ بالکل نہ گھبرائیں۔ میں ہوں نا!‘‘

    میں نے محسوس کیا کہ ایان کے پیچھے میرے دادا پاپا کھڑے ہیں اور مسکراتے ہوئے اثبات میں سرہلارہے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے