مکھانے کی کھیر
تابش جب سے اپنے دوست راجن کے یہاں دیوالی کے موقع پر مکھانے کی کھیر کھا کر آئے تھے۔ اپنی ممی کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ ممی آپ مکھانے کی کھیر کیوں نہیں بناتیں۔ بہت مزے دار ہوتی ہے۔ ’’اب ہر چیز ہر گھر میں نہیں بنتی۔ لیکن ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ بنا دوں گی۔‘‘ ممی نے جواب دیا۔ کچھ دن تک تابش خاموش رہے۔ ممی بھی بھول گئیں۔
بات آئی گئی ہوگی۔ لیکن ایک دن ہوایوں کی راجن اپنے ٹفن میں ایک کٹوری میں مکھانے کی کھیر لے آیا۔ اس نے تابش کو دعوت دی۔ ’’ادھر یکھ کیا ہے‘‘۔ تابش نے گردن نیہوڑائی۔
ارے واہ! انہوں نے نعرہ لگایا۔ مکھانے کی کھیر۔ آدھی سے زیادہ چٹ کر گئے اور گھر آکر پھر وہی رٹ۔
ممی آپ مکھانے کی کھیر کیوں نہیں بناتیں۔
’’ارے بھائی کھاتو آئے ہو‘‘۔ انہوں نے ٹالنا چاہا۔
’’نہیں آپ بھی بنائیے تو ہم ایک ساتھ بہت سی کھائیں۔ فرج میں بنا کر رکھ دیجئےگا۔ تو ہم لے لے کے کھاتے رہیں گے‘‘۔
اللہ رے نویدے۔ تابش کی بڑی بہن نے چڑایا۔
’’آپ کھا کے دیکھنا۔ تم بھی یہی کہوگی۔ بلکہ مل جائے تو یہی کروگی‘‘۔
’’کیا؟‘‘
’’فرج سے نکال نکال کے کھاتی رہوگی‘‘۔
’’سوت نہ کپاس، جو لاہوں میں لٹھم لٹھا‘‘۔ آمنہ بوانے کیا جو سوپ میں پالک کا ساگ لے کے تابش کی ممی کو دکھانے آئی تھیں۔ ’’سادہ بنالیں بیگم صاحب یا گوشت می ڈالیےگا‘‘۔
تابش کی ممی ہنسنے لگیں۔ ’’واقعی سوت نہ کپاس۔ ارے ہمیں تو مکھانے کی کھیر بنانی ہی نہیں آتی۔ دراصل یہ ہندو گھروں کی چیز ہے اور ان کے یہاں بہت عمدہ بنتی ہے۔
ہم تو بس چاول کی کھیر پکاتے ہیں‘‘۔
’’ہماری اماں لو کی کی کھیر بھی پکاتی تھیں‘‘۔ آمنہ بوا نے کہا ’’چلو بڑا تیر مارا‘‘۔ تابش کی ممی ہنسیں۔
’’یہ آپ لوگ کیا باتیں کرنے لگیں۔ آپ کو نہیں آتی تو راجن کی ممی سے پوچھ لیجئے‘‘۔
’’لو بھلا۔ جان نہ پہچان خالہ بی بی سلام۔ میں جاؤں ان سے کھیر کی ترکیب پوچھنے‘‘۔
’’ممی ایسا کرتے ہیں نیٹ پر دیکھ لیتے ہیں‘‘۔ تابس کی آپی، آسیہ نے تجویز پیش کی۔ ’’ہرگز نہیں‘‘۔ تابش مچل گئے۔ ’’نیٹ پر ویسی کھیر بنانا کوئی نہیں بتائےگا جیسی راجن کی ممی بناتی ہیں‘‘۔
’’اب یہ کیا ضد ہوئی؟‘‘
’’ارجن کی ممی کہتی ہیں کہ اس کی ترکیب انہیں راجن کی دادی سے ملی تھی۔ دادی کے وقت میں نیٹ نہیں تھا‘‘۔
’’تو؟‘‘
’’تو یہ کہ اصل ترکیب راجن کی دادی کو معلوم تھی۔ نیٹ پریوں ہی ہوگی۔ جھوٹ موٹ کی‘‘۔
’’ایسا کرو۔ راجن سے کہہ دو جب اس کے یہاں مکھانے کی کھیر بنے وہ تمہارے لیے ایک کٹوری لیتا آئے۔‘‘
’’ہمیں شرم آئے گی ایسا کہتے۔ پھر اگر چھٹیوں میں بنی تو‘‘۔
’’سر کھا گئے تم تابش‘‘۔
’’اچھا نہیں کھاتے آپ کا سر‘‘۔ تابش وہاں سے منہ پھلا کر چل دیے دوسرے دن وہ ایک کاغذ کا ٹکڑا لے کر ممی کے پاس آئے۔
’’اب یہ کیا ہے؟‘‘ ممی اس وقت دھوبی کا حساب دیکھ رہی تھیں۔
’’یہ مکھانے کی کھیر کی ترکیب ہوگی۔‘‘ آسیہ نے چڑایا۔ تابش نے اسے گھور کر دیکھا۔
’’یہ راجن کے گھر کا فون نمبر ہے۔ بلکہ اس کی ممی کے موبائل کا۔ ہم لے کر آئے ہیں راجن سے‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ آسیہ نے بھی تابش کو گھور کر دیکھا۔
’’ممی راجن کی ممی سے بات کر لیں گی۔ راجن انہیں ماں کہتا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے ماں کہنا‘‘۔
’’ہاں۔ ماں میں بڑی مٹھاس ہے‘‘۔ آمنہ بوا نے کہا۔ ان کی بیچ میں ٹپکنے کی عادت تھی۔ اب ماں کسی کی ہو۔ تابش بھیا کی ہو یا ان کے دوست راجن کی۔
’’انہیں لوگ مسز مہیشوری کہتے ہیں۔ ان کا گھر کا نام مینا ہے‘‘۔ تابش نے اپنی معلومات کا رعب جھاڑا۔ در اصل راجن ان کا اتنا گہرا دوست تھا کہ اسے اس کے گھر کے سب لوگوں کے بارے میں معلوم تھا۔ تابش نے کاغذ کا وہ ٹکڑا ممی کے پرس میں رکھ دیا۔
’’بچے کی ضد ہے۔ بات کر لیجئے نہ بیگم صاحب‘‘۔ آمنہ بوا نے کہا۔
’’پتہ نہیں کیسے لوگ ہوں۔ کیا سمجھیں۔ اب بچوں بچوں کی بات الگ ہے۔ تابش ضد کر کے راجن کے گھر چلے گئے تھے۔ ان کا ڈرائیور پہنچا گیا تھا‘‘۔
’’ایسے ہی میل جول بڑھتا ہے بیگم صاحب۔ نہ اچھی طرح بات کریں تو مت کیجئےگا‘‘۔ آمنہ بوا کا نام تابش کے پاس نے عاقلہ بوا رکھا تھا۔ شاید صحیح رکھا تھا۔
آخر کو تابش کی ممی نے فون ملایا۔
’’آداب، میرا نام تہمینہ ہے۔ تہمینہ صدیقی۔ میرا بیٹا تابش راجن کا کلاس فیلو ہے اور گہرا دوست‘‘۔
ادھر سے بڑی گرمجوشی آواز آئی۔ ’’نمستے نمستے۔ تہمینہ جی۔ تابش بڑا پیارا بچہ ہے۔ ہمارے یہاں آیا تھا۔ لیکن آپ نے کیسے فون کیا‘‘۔
تابش کی ممی نے بتایا کہ ان کے ہاتھ کی مکھانے کی کھیر کھا کے تابش دیوانہ بنا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ ان سے پوچھ کر اس ترکیب سے وہ بھی کھیر بنائیں۔ وہ بےحد خوش ہو گئیں۔ ضرور بتائیں گے۔ لیکن ایک شرط ہے۔ آپ ہمارے یہاں آئیں۔ انہوں نے اتنے خلوص سے کہا کہ تابش کی ممی نے فیصلہ کیا کہ وہ ضرور جائیں گی۔
’’بچوں کو لے کر آئےگا۔ مینا مہیشوری نے کہا۔ تابش نے بتایا تھا اس کی ایک بہن بھی ہے‘‘۔
اتوار کے دن تابش کی ممی دونوں بچوں کے ساتھ راجن کے گھر گئیں۔ اس کی ممی لگ بھگ انہیں کی ہم عمر تھیں۔ دونوں کا لباس بھی لگ بھگ ایک جیسا تھا۔ شلوار قمیص اور دوپٹہ۔
انہوں نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔ پھر پر تکلف ناشتہ پیش کیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس میں مکھانے کی کھیر بھی تھی۔ میاں تابش آپ کے تو چھکے پنجے۔ ممی نے ہنس کر کہا۔
واقعی بےحد لذیذ ہے۔ تابش کی ممی نے ایک چمچ کھیر منہ میں رکھتے ہی کہا۔ ترکیب تو پوچھنی ہی پڑےگی۔
’’دو کلو دودھ لیجئے۔ سوگرام مکھانوں کو گھی میں تل کر موٹا پیس لیجئے‘‘۔
’’صرف سو گرام؟‘‘
جی ہاں۔ پھر مکھانوں کے چورے کو دودھ میں ڈال کر اتنا پکائیے کہ دودھ آدھا رہ جئے۔ ذائقے کے مطابق شکر ڈالیے۔ ذرا سی پسی الائچی اور زعفران ڈالیے۔ (ٹھنڈا کر کے سروکیجئے)
تابش کی ممی ہنسنے لگیں۔ کھیر کا اصول ایک ہی ہے۔ دودھ اور دودھ اور دودھ۔
اب دو کلو دودھ میں سو گرام چاول ڈال کے ہم چاولوں کی کھیر بناتے ہیں۔ اب کی دونوں ساتھ ساتھ ہنسیں۔
’’آنٹی۔ ہم آپ کو ماں کہیں۔ ہمیں ماں کہنا بہت اچھا لگتا ہے‘‘۔
تابش نے چلتے وقت راجن کی ممی سے کہا۔
’’ہاں بیٹا۔ ضرور کہو۔ تم راجن کے دوست ہو تو ہمارے بیٹے ہی جیسے ہوئے نا‘‘۔
’’ماں، تابش نے کہا۔ اگلی بار ارجن ہمارے گھر آئےگا‘‘۔
’’ضرور جائےگا بیٹا۔ بس ایک بات کا خیال رکھنا‘‘۔
’’کیا؟‘‘ تابش اور اس کی ممی دونوں نے ساتھ ساتھ کہا۔
’’ہم لوگ ویجیٹرئن ہیں۔ گوشت یا انڈے سے بنی کوئی چیز مت کھلانا۔
’’یہاں ہمارے کھانے کے طور طریقے الگ ہو جاتے ہیں۔ تابش کی ممی نے سنجیدگی سے کہا۔ آپ گوشت انڈا مچھلی نہیں کھاتیں جب کہ ہم کھاتے ہیں۔
لیکن کیا کافی نہیں کہ ایک چیز مشترک ہے۔ وہ قدرے رکیں لیکن بچوں نے نعرہ لگایا۔
’’مکھانے کی کھیر۔۔۔‘‘
’’اور پیار کی مٹھاس بھی۔۔۔‘‘ مینا مہیشوری نے تہمینہ صدیقی سے کہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.