مزہ آ گیا
کہتے ہیں ’’گرمی کی دوپہر اور سردی کی چاندنی ضائع ہو جاتی ہے‘‘۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی تو ہو سکتا ہے کہ سردی کی دوپہر میں اور گرمی کی چاندنی میں لوگ پورا لطف لیتے ہیں۔
ہوگی یہ کہاوت بڑوں کے لئے، ہمارے لیے تو ساون سوکھے نہ بھادوں ہرے، ہر موسم کا ہر سمے پر برابر ہے۔ ایک ایسی ہی دوپہر کی بات ہے۔
گرمی کی چلچلاتی آگ برساتی دوپہر۔۔۔ ابا کی گرج دار آواز گونجی ’’راشد! خبردار جو تو باہر نکلا! ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘۔
ادھر امی کے انداز میں مامتا جھلک رہی تھی۔ ’’راشد بیٹے، باہر بڑی گرمی ہے۔ آگ برس رہی ہے۔ چپ چاپ سو جاؤ۔ چار بجے نکلنا۔ سمجھے!‘‘
میں نے دونوں کو نصیحت دل و جان سے سنی اور چپ سادھے پڑا رہا۔ تھوڑی ہی دیر میں ابا کی خرخر نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے تو لمبی اور گہری کھینچ لی۔ آدھا اطمینان تو ہو گیا۔ اب باقی آدھے کے لئے میں نے چوہے کی طرح ذرا سی گردن تکیہ سے اٹھا کر امی کی طرف دیکھا، تو ان کے چہرہ پر پڑا ہوا دوپٹہ منہ کے پاس سے ہر سانس کے ساتھ پھر پھر اڑتا دکھائی دیا۔ اب پورا اطمینان ہو گیا۔ وہ بھی سوچکی تھیں۔ ہم نے دو ایک کروٹیں لیں۔ ’’کھوں کھوں کھٹ کھٹ۔‘‘ دو ایک بار کھانس کر اندازہ کیا اور جب دیکھا کہ میدان صاف ہے تو سرک سرک کر دروازے کے پاس آکر ذرا سا پٹ سرکایا اور آخر باہر نکل ہی آئے۔
باہر کی گلی میں یاروں کا مجمع پہلے سے موجود تھا۔ کیسی گرمی اور کہاں کی آگ۔۔۔ ہمارے لئے تو گلی کی آب و ہوا گل گلزار سے کم نہ تھی۔ شاہد، کمو، نیاز اور وہ محلے کا دادا غفران، سبھی موجود تھے۔ بس ابھی ارشاد اور خالد نہیں آئے تھے۔ شاید وہ دونوں ابھی اماں ابا کے قید خاے سے نہ نکل سکے ہوں۔ ’اے لو!‘ وہ دونوں بھی آتے نظر آئے۔
سب جمع ہو گئے اور ایک مکان کے سائے میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ یہی طے نہیں ہو رہا تھا کہ آج کا یہ سہانا وقت گذارا کیسے جائے۔
دیکھتے ہی دیکھتے کمو اور نیاز گروپ سے نکلے اور پاس ہی گھڑی رامو کی ٹھیلی پر جا بیٹھے۔ رامو صبح کو اسی ٹھیلی پر منڈی سے سبزی لاد کر خود ہی کھینچ کر لاتا تھا اور دن بھر بیچتا تھا۔ یوں تو وہ ٹھیلی بیلوں یا خچروں کو کھینچنے کی تھی مگر رامو غریب کے پاس جانور کہاں۔۔۔ وہ خود ہی ان کی جگہ یہ محنت کرتا تھا۔ سبزی دوکان پر لگاکر ٹھیلی اس جگہ کھڑی کر دیتا۔ پھر وہ دن بھر یہیں کھڑی رہتی۔
نیاز اور کمو ٹھیلی پر جا بیٹھے۔ ان کو دیکھ کر ہمیں سوجھی کہ چلو دو دو دوست اس پر بیٹھیں اور باقی مل کر اسے کھینچیں۔ آج یہی سہی، گلی کے چکر لگائیں گے۔
کھیل اچھا تھا، باری شروع ہو گئی۔ کھڑنجے کی گلی میں کھڑبڑ کھڑبڑ ٹھیلی چلنے لگی۔
دو چکروں کے بعد ہی شامت کا مارا ایک گدھا گلی میں آنکلا۔ اب کیا تھا ہماری تو عید ہو گئی۔ اب شاہد اور خالد کی باری تھی۔ دونوں ڈٹ کر ٹھیلی پر جم گئے۔ کمو بھاگ کر اپنے گھر سے بھینسوں کی رسی اٹھا لایا۔ سب نے مل کر گدھے کو ٹھیلی میں جوڑ دیا۔ دلشاد نے ہلکی سی ٹٹخاری دی اور گدھا مستی سے ٹھیلی لے کر چلتا بنا۔ شاہد اور خالد ہاتھ اٹھا اٹھا کر ٹھیلی پر ناچنے کودنے لگے۔
’’ساون کے نظارے ہیں۔ آہا آہا‘‘ کی تانی گلی میں گونجنے لگیں۔ اچانک نہ جانے کہاں سے میرے ہاتھوں میں ایک ڈنڈا آ گیا۔ کچھ دیر تک میں اسے اپنے ہاتھ میں لئے اپنی باری کے لئے ٹھیلی کے پیچھے پیچھے دوڑتا رہا۔ مگر جیسے ہی میں نے سامنے آکر گدھے کو مارنے کے خیال سے ڈنڈا ذرا اوپر اٹھایا تو اس کے سائے سے ہی گدھا پہلے کچھ بدکا، اچھلا کودا اور پھر جو بھاگا ہے تو یہ جاوہ جا۔ شاہد اور خالد آرام سے غافل بیٹھے ہوئے تھے۔ اب جو اچانک یہ آواز آئی اور ٹھیلی کھڑنجے پر کودنے لگی تو پہلے خالد اور اس کے اوپر شاہد چاروں نے خانے چت، نیچے آ رہے اور گدھا تھا کہ ٹھیلی لئے کھڑ بڑ کھڑ بڑ بھاگا ہی چلا گیا اور ہم میں سے ہر ایک جدھر منہ اٹھا، بھاگ کھڑا ہوا۔ کیسی باری کہاں کی ٹھیلی۔
میرا گھر پاس ہی تھا۔ اپنی چھت پر چڑھ کر دیکھا تو شاہد اور خالد منہ لٹکائے لنگڑاتے چلے آ رہے تھے۔اور دور بہت دور، رامو گدھے کے منہ سے رسی کھول کر اپنی ٹھیلی ایک طرف کھڑی کر رہا تھا اور شاید ہم شیطانوں کو منہ بھر کر گالیاں بھی دے رہا تھا۔ بات آئی گئی ہوگی میں چپکےچپکے چھت کے نیچے آیا اور کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔
مگر اصل مزہ تو دوسرے دن آیا، کوئی دن میں دو بجے تھے۔ میں اسکول سے آکر بیٹھا ہی تھا، اچانک ابا کے کمرے میں کچھ کھسر پھسر سنائی دی ابا کسی کو جواب دے رہے تھے۔
’’جی جی، میں دیکھ لوں گا، ذرا اسکول سے آنے دیجئے اسے۔‘‘
’’ارے یہ تو میرے ہی بارے میں کوئی معاملہ ہے!‘‘ گھر میں اور کون اسکول جاتا ہے۔
میں اسی ادھیڑ بن میں تھا، ادھر ابا اندر داخل ہوئے اور لگے گرجنے۔ ’’کیوں؟ جب میں نے منع کیا تھا کہ دوپہر میں باہر مت جانا، تو تم کیوں گئے۔ مگر تمہارا سب سے بھیانک جرم یہ ہے کہ ایک غریب کی ٹھیلی کو تم نے توڑ ڈالی، جس کی اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر مرمت کروائی ہے‘‘۔
جرم کی یہ چارج شیٹ میں ڈرا سہما سن رہا تھا اور سزا کے اعلان کے خوف سے کانپ رہا تھا مگر یہ آخری جملہ سن کر تو سناٹے میں آ گیا۔ ڈرتے ڈرتے بولا۔
’’مگر ابا جان یہ سب آپ سے کس نے کہا؟‘‘
ابا نے آنکھیں نکال کر زور کی گھڑکی کی۔ ’’نالائق! تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم جو چاہے کرتے پھرو۔ مجھے خبر بھی نہ ہوگی۔ ابھی ابھی محلے کے بندومیاں ساری رپورٹ دے کر گئے ہیں۔‘‘
میں نے اقبال جرم کے طور پر سر جھکا لیا۔ مگر ایک خیال۔ ایک اصل بات میرے دل میں چٹکیاں لے رہی تھی۔ وہ راز، وہ خیال وہ بات بار بار میرے ہونٹ تک آتی تھی کہ ابا سے کہہ دوں۔ مگر نہ جانے کون سا احساس تھا جو زبان پکڑ لیتا تھا۔ آخر میں کچھ نہ کہہ سکا اور ہاتھ جوڑ کر ابا سے معافی مانگ لی۔ جان تو بچے۔ پھر بھی چلتے چلاتے ابا نے دو ہاتھ جھاڑ ہی دیئے۔
شام کو چائے کی میز پر اچانک ابا کا ہاتھ بڑھا اور بڑی محبت سے میرے سر پر آکر رک گیا۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں شفقت کا بے پناہ سمندر موجیں مار رہا تھا۔
’’بیٹا راشد! رامو ٹھیلی والا آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ تم نے اس پر ترس کھا کر اپنے دوستوں سے چندہ کیا اور اس کی ٹھیلی بنوا دی ہے!‘‘
’’بیٹے میں تمہارے اس جذبے سے بہت متاثر ہوں، شرارت کا تو کچھ نہیں۔ لڑکے شرارت کرتے ہی ہیں، مگر شرارت کے ساتھ تمہارا یہ جذبہ قابل قدر ہے‘‘۔
’’اور پھر میں تمہیں ایک غلط بات پر ڈانٹتا پھٹکارتا رہا اور تم سب کچھ چپ چاپ سنتے رہے۔ شاباش! دیکھا تم نے‘‘ انہوں نے اماں کی طرف اشارہ کیا اور مجھے گلے لگا لیا۔
ان کے یہ لفظ میرے دل میں ایک گدگدی سی پیدا کر رہے تھے اور مجھے نہ ٹھیلی دوڑانے میں وہ لطف ملا تھا نہ رامو کی دعائیں سن کر جیتنا ابا کے منہ سے ’شاباش‘ سن کر اس وقت محسوس ہو رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.