Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مزدور

MORE BYمحمد احمد عابد

    وہ اڈے پر پہنچا تو 8 بج رہےتھے۔ اکا دکا مزدور دکھائی دے رہے تھے۔ اسے دیکھتے ہی ایک مزدور نے آواز لگائی۔ ’’بھائی نواز! خیر تو ہے، آج اتنی دیر کیوں‘‘۔

    وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا۔ ’’آج تمہاری بھابھی کی طبیعت صبح صبح بگڑ گئی، ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا، اس لیے دیر ہو گئی‘‘۔

    ’’اوہ۔۔۔ اللہ اپنا رحم فرمائے‘‘۔ ایسے ہی وقت ایک موٹر سائیکل سوار وہاں رکا۔

    میلے چیلے لباس میں ملبوس بچے کھچے مزدور اس کے گرد مکھیوں کی طرح جمع ہو گئے۔

    ’’جی صاحب‘‘۔ کی آواز نووارد کی سماعت چیرنے لگیں۔

    ’’کتنی دیہاڑی لوگے؟‘‘۔ نووارد نے ایک مزدور کی طرف دیکھا۔

    ’’چھے سو جنابش۔۔۔ دوپہر کا کھانا اور دو وقت چائے‘‘۔

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ چھے سو زیادہ ہیں۔۔۔ پانچ سو دوں گا۔۔۔ ہاں کھانا وغیرہ مل جائےگا‘‘۔

    یہ سن کر سب مزدور ڈھیلے قدموں پیچھے ہٹ گئے اور اپنی اپنی جگہ جا بیٹھے۔ نواز البتہ کشمکش میں تھا۔

    ’’صاحب پانچ سو پچاس دے دینا‘‘۔

    ’’۔۔۔ صرف پانچ سو کا ایک نوٹ‘‘۔

    نواز نے سوچا۔۔۔ اگر آج دیہاڑی نہ لگی تو کیا بنےگا۔ بیوی کے علاج پر بھی رقم صرف ہوتی رہتی تھی۔ منے کا دودھ اور سبزی اور۔۔۔ اور۔۔۔

    اس نے سر جھکا لیا ’’چلیں صاحب۔۔۔ کہاں چلنا ہے‘‘۔

    ’’میرے پیچھے بیٹھ جاؤ۔۔۔ بس دس منٹ کا سفر ہے‘‘۔

    شام ہو چکی تھی۔۔۔ نواز نے اپنا کام ختم کر لیا تھا۔۔۔ اب وہ آجر جس کا نام مختار تھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ جو کچھ لینے بازار گیا تھا۔۔۔ جلدی ہی وہ واپس آ گیا۔

    ’’ہو گیا کام‘‘۔

    ’’جی ہاں۔۔۔جناب‘‘۔

    ’’واہ۔۔۔ یہ سارا کام ایک دن میں نمٹا لیا۔۔۔ کمال ہے‘‘۔

    ’’جی صاحب۔۔۔ کام تھا ہی کتنا‘‘۔

    مختار نے اسے غور سےدیکھا۔۔۔ وہ تھکاوٹ زدہ نظر آ رہا تھا‘‘۔

    اب مختار نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔۔۔ پانچ سو کا ایک نوٹ نکالا۔

    ’’یہ لو۔۔۔ تمہاری مزدوری‘‘۔ نواز نے رقم جیب میں منتقل کرتے ہوئے الحمدللہ پڑھا۔

    ’’ٹھیک ہے میں چلتا ہوں صاحب‘‘۔

    ’’کیا یہ رقم کافی ہے؟‘‘۔ مختار کے سوال پر نواز چونکا۔

    ’’کیا مطلب صاحب‘‘۔

    ’’نہیں کچھ نہیں۔۔۔ چلو میں تمہیں گھر چھوڑ دوں‘‘۔

    وہ نواز کو لئے اس کے گھر پہنچا۔۔۔ اس وقت مغرب کی اذان شروع ہو گئی۔

    نواز نیچے اترا۔۔۔

    ’’ادھر آؤ مختار نے آواز لگائی۔

    ’’جی صاحب‘‘۔

    ’’پانچ سو کا نوٹ مجھے واپس کرو‘‘۔

    نواز حیران رہ گیا۔ ’’کیا مطلب جی‘‘۔

    مختار نے جیب سے ہزار کا نوٹ نکالا۔۔۔

    ’’دیکھو۔۔۔ تم نے جتنا کام کیا ہے۔۔۔ اس کی مزدوری ایک ہزار بنتی ہے۔۔۔ اصل میں آج کل کے مزدور کام چور ہو گئے ہیں۔۔۔ دیہاڑی پوری لیں گے مگر کام ایمانداری سے نہیں کریں گے۔۔۔ میں نے تمہارا گھر دیکھ لیا ہے۔ آئندہ تم ہی میرے تمام کام کیا کروگے۔۔۔ جب بھی مجھے ضرورت ہوگی‘‘۔ نواز کا وہ نوٹ تھامتے ہوئے کہا۔ ’’یا اللہ تیرا شکر ہے۔۔۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔۔۔ تو ایمانداری کا صلہ دیتا ہے۔ ضرور دیتا ہے‘‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے