میرے کھلونے
آج ننھی کی چوتھی سالگرہ تھی۔ نانی اماں ننھی کے لیے ایک کپڑے کی گڑیا خود اپنے ہاتھوں سے سی کرلائیں تھیں۔ ننھی کو وہ سرخ جوڑا پہنے ہوئی گڑیا بہت پیاری لگی۔ اس نے اپنی نانی اماں کو گلے لگاکر شکریہ ادا کیا اور کہا
‘‘نانی اماں بہت شکریہ! آپ کا تحفہ بہت خوبصورت ہے’’
نانی اماں نے اس کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے کہا
‘‘ننھی بٹیا! اس گڑیا کو سنبھال کر رکھنا۔ یہ گڑیا تمہاری دوست ہے۔’’
‘‘ایسا کیسے ہو سکتا ہے نانی اماں! یہ تو ایک جان کھلونا ہے اوریہ کیسے میری دوست ہو سکتی ہے؟یہ تو بےجان ہے اور بے جان چیزیں دوست کیسے ہو سکتی ہیں؟’’
ننھی نے کہا۔
’’تم بھول رہی ہو بیٹی کہ بے جان چیزیں بھی توجہ چاہتی ہیں۔ ہم جن چیزوں کے ساتھ اپنا دل بہلانے کے لیے وقت گزارتے ہیں انہیں اگر انہیں سنبھال کر نہ رکھا جائے تو وہ ناراض بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ چیزیں بالکل ایسی ہی ہیں جیسے تمہارے دوست ہوتے ہیں۔۔۔ جیسے تمہاری سہیلی منی!۔۔۔ ویسے وہ آج مجھے سالگرہ پر دکھائی نہیں دے رہی‘‘
نانی نے ننھی کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنی نظریں ادھر ادھر گھماتے ہوئے بولیں۔ ننھی اپنی نانی اماں کی باتیں غور سے سن کر بولی
‘‘میری سہیلی منی مجھ سے ناراض نہیں ہے وہ آج اپنے دادا دادی سے ملنے گئی ہوئی ہے ۔ میں کبھی بھی اپنی دوست کو ناراض نہیں کرونگی اور ہمیشہ اپنی نانی کا تحفہ سنبھال کر رکھوں گی’’
نانی اماں ننھی کی باتیں سن کر خوش ہو گئیں اور اُس کو پیار کرتے ہوئےڈھیروں دعائیں دینے لگیں۔
ننھی نے مگر دل میں سوچا کہ بھلا یہ گڑیا میری سہیلی منی جیسی کیسے ہو سکتی ہے، میری دوست تو میرے ساتھ دوڑتی بھاگتی باتیں کرتی اور کھیلتی ہے لیکن یہ کپڑے کی گڑیا تو کچھ بھی نہیں کرتی۔ یہ بھلا میری سہیلی کیسے بن سکتی ہے؟ یہ ہی سوچتے ہوئے اس نے گڑیا کو اٹھا کر اپنے کمرے میں کھلونوں کے ایک ریک پر سجا دیا۔ کچھ ہی دیر میں ننھی کے ابو بھی کیک لے کر آ گئے۔ ننھی نے کیک کاٹا اور اس کی امی، ابو اور نانی نے مل کر سالگرہ کا گانا ننھی کے لیے گایا۔ ننھی بہت خوش تھی کہ اگرچہ اس کی پکی سہیلی منی اس کے ساتھ آج نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کی نانی، ابو اور امی نے اس کے ساتھ سالگرہ بہت اچھی منائی۔
ننھی کے امی اور ابو نے ایک بہت پیارا فراک اور چابی سے چلنے والا بندر اسے تحفے میں دیا تھا۔ نانی نے اس کے لیے اس کا پسندیدہ حلوہ بھی پکایا تھا اور ساتھ ہی ایک لال لباس میں کپڑے کی پیاری گڑیا سی کر دی تھی۔ ننھی کو یہ سارے تحفے بہت اچھے لگے تھے لیکن چابی سے چلنے والا اور ڈھول بجانے والا بندر اُس کو بہت پسند آیا۔ وہ ہر روز کنڈر گارٹن جانے سے پہلے آنے کے بعد اپنے بندر سے کھیلتی رہتی اور گھر میں ہر جگہ بار بار چابی چلا کر اس کو ناچنے اور ڈھول بجانے میں مصروف رکھتی ۔کبھی وہ بندر کو زور سے اچھال کر ناچتے ناچتے زمین پہ گرا دیتی لیکن بندر پھر بھی ڈھول بجاتا رہتا اور کبھی واش بیسن میں منہ دھوتے وقت اسے باتھ ٹب میں ڈال دیتی۔ اس کی گڑیا مگر ویسے ہی کھلونے کی ریک پر سجی رہتی۔ جب وہ گڑیا سے کھیلنے کا سوچتی تو اسے یہ احساس ہوتا کہ نہ یہ گڑیا ناچ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی حرکت کرتی ہے، کم از کم آنکھیں بند اور کھول لیتی تو وہ اس کے ساتھ سونے جاگنے کا ہی کوئی کھیل کھیلتی۔ نانی اماں کا دوسرا تحفہ یعنی وہ حلوہ تو اس نے دو دن ہی میں کھا کر ختم کر دیا تھا اور امی ابو کی لائی اس کی پیاری فراک اس سے الماری میں ہینگر میں لگا کر لٹکا کر دی تھی اور دن گن رہی تھی کہ اس کی سہیلی منی اپنے دادا دادی سے مل کر واپس اپنے گھر آئے تو وہ اسے پہن کر اس کے گھر جائے اور اپنا ناچنے والا بندر اُس کو دکھائے، ہاں گڑیا کے بارے میں وہ سوچتی تھی کہ منی میری نانی کے اس تحفے کا مذاق بنائے گی اس لیے اس کے بارے میں وہ منی کو کچھ نہیں بتائےگی۔
ننھی کےچابی والے بندر نے ایک دن اچانک چلنا اور ناچنا بند کر دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ننھی نے اپنا بندر سیڑھیوں پہ چابی دے کر زینہ اترنے کے لیے رکھا تو وہ لڑھکتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے گرا شاید اسی میں اس ناچنے اور ڈھول بجانے والے بندر کی چابی خراب ہو گئی تھی اور اس کی کمر سے بندھا ڈھول نکل کر باہر آ گیا اور اس کا سر بھی دھڑ سے الگ ہو گیا۔ ننھی کے ابو نے اس بندر کی چابی ٹھیک کرنے اور بندر کے سر کو جوڑنے کی کوشش کی لیکن بندر نہیں ناچا اور نہ ہی ڈھول بجا سکا اور اس کا سر بھی دوبارہ اس کے جسم سے نہ جڑ سکا۔ انہوں نے ننھی سے کہا کہ یہ کھلونا تو ٹوٹ گیا وہ اسے نیا کھلونا لا دیں گے ابھی وہ اپنی گڑیا ہی سے کھیلے۔ ننھی کو اپنے کھلونے کے ٹوٹنے پر دکھ بھی تھا اور غصہ بھی۔ اُس نے وہ بندر اپنے گھر کے کوڑے دان میں پھینک دیا اور مجبوراً گڑیا سے کھیلنے کے لیے اسے ریک سے نکالا۔ لیکن کپڑے کی گڑیا نہ بولتی تھی، نہ ناچتی تھی اور نہ ہی چلتی تھی۔ بندر کے مقابلے میں گڑیا کے ساتھ کھیلنا ننھی کو زیادہ نہیں بھایا۔ کپڑے کی اس گڑیا کے ساتھ کھیلنے میں ننھی کو مزا نہیں آ رہا تھا۔ اس نے غصے میں گڑیا کو بھی ایک تھیلی میں ڈال کر کمرے کے اندر زور سے ہوا میں اچھال کر پھینکا۔ وہ کھڑکی سے ٹکراتی ہوئی شاید وہیں کہیں کمرے میں زمین پہ گر گئی۔ ننھی بہت اداس ہو گئی تھی۔ لیکن ایک دو دن بعد جیسے ہی اس کو خبر ملی کہ منی واپس اپنے گھر آ گئی ہے تو اس نے جھٹ الماری سے اپنا لال فراک نکال کر پہنا اور پڑوس میں اپنی سہیلی منی کے یہاں کھیلنے اور اس سے ملنے چلی گئی۔
دونوں سہیلیاں بہت دنوں کے بعد ملیں تھیں اور شام کو اکھٹے کھیل رہی تھیں۔ منی کے پاس بہت سے کھلونے تھے۔ اس نے اپنی کھلونوں کی الماری سے کچھ پرانے کھلونے نکالے، جیسے گیند، چھوٹی چھوٹی چائے کی پیالیاں اور پلیٹیں اور اپنا ٹیڈی بئیر، کچھ دیر وہ دونوں گیند سے باغیچے میں کھیلتی رہیں۔ پھر کمرے میں آکر جھوٹ موٹ کی چائے بنائی اور ٹیڈی کے ساتھ ننھی اور منی نے مہمان میزبان کا کھیل کھیلا۔
شام کو جب ننھی اپنے گھر جانے کے لیے اپنے جوتے پہننے لگی تو منی نے اس سے کہا:
‘‘ننھی! آؤ پہلے ہم اپنے کھلونے اٹھا کر انہیں صاف کرکے واپس کھلونوں کی الماری میں رکھ دیں تاکہ جب ہم دوبارہ کھیلیں تو چائے کی پیالیاں بھی صاف ہوں اور گیند پر بھی باہر کی مٹی نہ لگی ہو۔۔۔ اگر ہم نے اپنے کھلونوں کو سنبھال کر اور صاف کرکے نہیں رکھا تو وہ ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور ہم سے دور چلے جائیں گے’’
ننھی نے منی کی بات سن کر ہنستے ہوئے کہا
‘‘ارے یہ بے جان کھلونے کیسے ناراض ہو سکتے ہیں؟ اور خود سے کہاں جا سکتے ہیں؟ لیکن میں پھر بھی تمہاری مدد کرتی ہوں کھلونوں کو واپس ان کی جگہ پر صاف کرکے رکھنے کے لیے’’
یہ کہہ کر ننھی جو اپنے گھر جانے کے لئے نکلنے والی تھی رک گئی اور اپنے جوتے اتارے اور گھر کی چپل پہن کر منی کے ساتھ اس کے کھلونے سمیٹ کر اور صاف کر کے الماری میں رکھنے لگی۔ کچھ دیر بعد دونوں سہیلیوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور ننھی اپنے گھر چلی گئی۔
ننھی گھر آکر بہت دیر تک منی کی باتیں یاد کرتی رہی۔ اسے ایسا لگا کہ منی ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔ شاید اس نے اپنا بندر سنبھال کر نہیں رکھا تھا تب ہی وہ ناراض ہوکر ٹوٹ گیا۔ ننھی کو یاد آنے لگا کہ اُس نے بندر کو کبھی کھانے کی میز کے نیچے، کبھی سیڑھیوں پہ اور کبھی غسل خانے میں خوب چلایا اور وہیں چھوڑ دیا۔ شاید غسل خانے میں اس میں پانی چلا گیا ہو، اس نے بندر کی کبھی صفائی نہیں کی، ساتھ ہی وہ یاد کرنے لگی کہ اس نے خود ہی بندر کو چابی لگاکر سیڑھیوں سے نیچے گرایا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ ٹوٹ پھوٹ کر کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
ننھی کو اچانک اپنی گڑیا کا خیال آیا وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی۔ کمرا صاف ستھرا تھا اور اس کے کمرے کا ڈسٹ بن بھی صاف تھا۔ اس نے بستر کے پاس، الماری کے نیچے اور اپنی میز کے پاس گڑیا کی تھیلی تلاش کی ۔لیکن وہ تھیلی اس کو کہیں نظر نہیں آئی جس میں اس نے اپنی گڑیا کو ڈال کر زور سے زمین پہ پھینک دیا تھا۔ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی اپنی امی ابو کے کمرے میں آئی۔ اس کی امی کمرے میں نہیں تھیں۔ ننھی نے اپنے ابو سے پوچھا کہ
امی کہاں ہیں ابو؟۔۔۔ میرے کمرے میں ایک تھیلی پڑی تھی وہ کہاں گئی؟
اس کے ابو نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
‘‘کیسی تھیلی؟۔۔۔ مجھے تو نہیں معلوم لیکن ابھی تمہاری امی گھر بھر کی صفائی کرنے کے بعد سارا کوڑا کرکٹ کوڑے اٹھانے والی گاڑی میں ڈالنے گئی ہیں’’
ننھی نے جیسے ہی یہ سنا تو تیزی سے باہر جانے والے دروازے کی سمت دوڑی۔ اس کی امی اسی وقت ہاتھ جھاڑتے ہوئے گھر میں داخل ہورہی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک ویسی ہی خالی تھیلی تھی جیسی اس نے صبح دراز سے نکالی تھی اور اس میں اپنی کپڑے کی گڑیا کو لپیٹ کر اپنے کمرے کے کونے میں ڈال دیا تھا۔ وہ رو ہانسی ہوکر بولی
‘‘امی آپ نے میری گڑیا بھی ٹرک کوڑے دان میں پھینک دی؟’’
اس کی امی نے کہا
‘‘ گڑیا؟ کون سی گڑیا؟ میں نے تو تمہارے کمرے کی زمین پہ پھیلے ہوئے ٹوٹے کھلونے اور تھیلیاں جمع کرکے کوڑے والے ٹرک میں ڈالی ہیں۔ تم اپنی چیزوں کو سنبھال کر کیوں نہیں رکھتیں؟ اب شام ہو رہی ہے ہم صبح تمہاری گڑیا تلاش کریں گے۔’’
اگلا دن اتوار کا تھا۔ ننھی کی نانی ہر اتوار کی صبح ننھی کے گھر آیا کرتی تھیں۔ ننھی نانی کے آنے سے بہت خوش تھی۔ ہر اتوار کو ننھی اپنی نانی کے ساتھ خوب باتیں کرتی، کھیلتی اور ان کے ہاتھ کے پکے حلوے کھاتی۔
ہر اتوار کی شام کو جب منی اور ننھی کے والدین ایک ساتھ چہل قدمی کے لیے جاتے تو منی اور ننھی دونوں مل کر نانی کے پاس بیٹھ جاتیں اور ان سے کہانیاں سنتیں۔
ننھی سارے ہفتے اتوار کا خوب انتظار کرتی۔ یہ دن اس کا پسندیدہ دن تھا۔ لیکن اس اتوار کو ننھی دعا کر رہی تھی کہ نانی نہ آئیں۔ وہ انہیں کیسے بتائےگی کہ ان کا تحفہ میں نے کوڑے دان میں پھینک دیا۔
اس اتوار کو ننھی اور منی کے والدین چہل قدمی کے لیے بھی اکھٹے نہیں گئے۔ البتہ منی ننھی کے پاس کھیلنے کے لیے صبح ہی سے آ گئی۔
منی کو بھی ننھی کی نانی اماں کا انتظار تھا۔ کیونکہ وہ ان دونوں کو مزے مزے کی کہانیاں سناتی تھیں۔ منی اپنا ٹیڈی بئیر اپنے ساتھ لائی تھی۔ وہ اپنے ٹیڈی بئیر کو گود میں سنبھالتے ہوئے ننھی سے بولی
‘‘تم نے بتایا تھا کہ سالگرہ پر تمہیں تمہاری نانینے ایک گڑیا بھی دی تھی وہ کہاں ہے؟ اور تمہارا بندر جو چابی سے چلتا ہے وہ بھی لاؤ تاکہ ہم دونوں اپنے اپنے کھلونوں سے کھیل سکیں’’
ننھی نے اداسی سے جواب دیا
‘‘میرا بندر تو سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے ٹوٹ گیا اور وہ کپڑے کی گڑیا نہ بولتی نہ چلتی ہے اور نہ آنکھیں جھپکتی ہے۔ اس سے کھیلنے میں کیا مزا آئےگا ۔ چلو اہم تمہارے ٹیڈی بیئر سے کھیلتے ہیں’’ ننھی نے سٹپٹا کر جواب دیا۔
‘‘کوئی بات نہیں! میرا ٹیڈی بیئر کون سا بولتا ہے اور چلتا ہے۔ لیکن میں ہر وقت اس کو اپنے ساتھ رکھتی ہوں، جب تم میرے ساتھ نہیں ہوتی ہو تو اس کے ساتھ کھیلنے میں مجھے بہت مزا آتا ہے۔ یہ بھی میرا پکا دوست ہے۔’’
منی نے اپنے ٹیڈی بیئر کو پیار سے گود میں سنبھالتے ہوئے کہا۔ ننھی کو اپنی گڑیا یاد آنے لگی۔ سچ کہا تھا نانی اماں نے کہ اگر اپنے کھلونوں کو سنبھال کر نہ رکھو تو وہ روٹھ جاتے ہیں۔ ننھی کی آنکھوں میں پچھتاوے سےآنسو آ گئے۔ منی اس کو غور سے دیکھ رہی تھی کہ اتنی دیر میں دروازے پر گھنٹی بجی اور ننھی کی امی نے دروازہ کھولا تو نانی اماں اپنا بڑا سا بیگ سنبھالے سلام کرتی ہوئی اندر داخل ہوئیں۔
‘‘کیا حال ہے ننھی کا اور میری منی کا؟’’
نانی اماں نے دونوں بچیوں کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔ منی ابھی کچھ کہنا چاہتی ہی تھی کہ ننھی ندامت اور افسوس کے احساس سے رو پڑی اور کہنے لگی
‘‘مجھے معاف کر دیں نانی اماں! میں نے اپنی گڑیا کی حفاظت نہیں کی اس کو سنبھالا بھی نہیں۔۔۔ بلکہ اس کو شاید کوڑے دان میں پھینک دیا۔۔۔۔ میری پکی دوست میری گڑیا! اوں اوں۔۔۔’’
ننھی اپنی دونوں مٹھیوں سے آنکھیں مل کر رونے لگی۔ نانی اماں اس صورتحال سے گھبراکر اسے چمکارتے ہوئے بولیں ‘‘کوئی بات نہیں میری ننھی بیٹی! اب تمہیں پتہ چل گیا ہے کہ تحفے چاہے من پسند ہوں یا نہیں وہ محبت کا اظہار ہوتے ہیں انہیں سنبھال کر رکھنا چاہئے۔۔۔۔ اور وہ کپڑے کی گڑیا جو نہ بولتی، ناچتی اور چلتی ہے، وہ تمہاری ہر وقت کی ساتھی ہے اور پکی دوست ہے۔ لیکن تمہاری ایک دوست منی بھی ہے جو تمہارے ساتھ کھیلتی ہے ناچتی ہے اور بولتی ہے۔ یہ دوست خدا کا تحفہ ہوتے ہیں ان کو بھی سنبھال کر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔’’
یہ کہتے ہوئے نانی اماں نے اپنا بیگ کھولا اور اندر سے ننھی کی لال فراک پہنی کپڑے کی گڑیا نکال کر ننھی کو دی۔
‘‘یہ آپ کے پاس کیسے آئی؟’’
ننھی نے اپنی گڑیا کو گود میں لیتے ہوئے خوشی سے پوچھا۔
‘‘یہ گڑیا باہرلان میں ایک تھیلی سے آدھی نکلی ہوئی پڑی تھی۔۔۔ شاید تم نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے باہر پھینکا تھا۔ مجھے ابھی گھر میں داخل ہوتے ہوئے نظر آئی تو میں اسے صاف کرتی ہوئی لے آئی۔ سوچا تھا کہ تم سے پوچھوں گی اور سمجھاؤں گی کہ اپنی چیزیں یوں نہیں پھیکتے اور تحفے تو یوں بھی سنبھال کر رکھتے ہیں۔ لیکن تم اب اپنی حرکت پہ خود ہی نادم ہو تو چلو اس بات کو بھول جاتے ہیں اورتم کومعاف کرتے ہیں’’
نانی اماں کی بات سن کر ننھی ان کے گلے لگ گئی اور وعدہ کیا کہ اب ہمیشہ اپنے کھلونوں کی حفاظت منی کی طرح کرےگی اور بےجان کھلونوں اور تحفے کی بھی قدر ہمیشہ کرےگی۔
ننھی، منی، گڑیا اور ٹیڈی اب پکے دوست ہیں اور سب مل کر نانی اماں سے کہانیاں سنتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.