Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ننھا پکاسو

ناصرہ شرما

ننھا پکاسو

ناصرہ شرما

MORE BYناصرہ شرما

    طارق مزاج میں اپنی ماں پر گیا تھا۔ کسی کا دکھ اس سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ ایک دن کی بات ہے کہ وہ اسکول جارہا تھا تبھی اس نے دیکھا کہ ایک عورت باسی کھانا سڑک کے کنارے ڈال رہی ہے یہ دیکھ کر طارق نے پوچھا۔ ’’آنٹی آپ یہ سب یہاں کیوں پھینک رہی ہیں؟‘‘

    ’’کھانا خراب ہو گیا تھا کوڑے یا نابدان میں دانا پھینکنا یا بہانا گناہ ہے بیٹے اس لئے یہاں رکھ دیا کہ کوئی گائے یا کتا کھا لےگا۔‘‘

    ’’مگر آنٹی سڑا کھانا کھا کر اگر کتے یا گائے کی طیبعت خراب ہوگئی تو انہیں ڈاکٹر کے پاس کون لے جائےگا؟ ‘‘ طارق نے پریشان ہو کر پوچھا۔ اس کی باتیں سن پڑوس والی انٹی کھلکھلاکر ہنس پڑیں اور خالی کٹورا لے کر اندر چلی گئیں طارق اسکول کا بیگ اٹھائے بس اسٹاپ پر جاکر کھڑا ہو گیا۔ آج اس کا انگریزی کا ٹسٹ ہے مگر دماغ الجھا ہے کہ کہیں محلہ کے کتے یا گائے وہ کھانا کھا کر بیمار نہ پڑ جائیں۔ اور پھر ساری رات بچارے پیٹ در میں روئیں گے۔

    طارق اسکول میں جیسے ہی داخل ہوا۔ اسے اپنا پیارا دوست عامر نظر آیا۔ اسے دیکھ کر وہ سب کچھ بھول گیا۔ عامر کا بایاں پیر داہنے پیر سے چھوٹا تھا۔ وہ لنگڑا کر چلتا تھا۔ سب اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ طارق کی اس بات پر کئی لڑکوں سے مار پیٹ کی نوبت بھی آ چکی تھی وہ عامر کو ’لنگڑا دین بجائے بین گھڑی میں بجا ہے ساڑھے تین‘کہہ کر نہ چھیڑا کریں مگر کون سنتا ہے۔ سب کو مزہ آتا تھا۔ خاص کر تب جب عامر سر جھکاکر بیٹھ جاتا اور اس کا اداس چہرہ طارق سے دیکھا نہ جاتا اس کی بے بسی دیکھ کر طارق سب سے لڑتا۔ عامر سے جلنے کی سب کی ایک بنیادی وجہہ تھی۔ کہ وہ عیب دار ضرور تھا مگر خدا نے اس کو غضب کا ذہن عطا کیا تھا۔ کلاس میں اول آتا تھا اور ڈرائنگ بنانے میں تو کوئی اس کا جوڑ نہ تھا۔ اس کی تعریف ٹیچروں کے منہ سے سن کر اپنے کو عامر کی طرح بنانے کی جگہ سب اس کے اکلوتے عیب کو لے کر مزہ لیتے اور اپنی کھسیاہٹ کم کرتے تھے۔ یہ بات عامر اور طارق دونوں جانتے تھے پھر بھی طارق کو عامر کی طرح ہر بات مسکرا کر بھلا دینا پسند نہیں تھا۔ عامر اکثر طارق کو سمجھاتا تھا کہ تم ناحق پریشان ہوتے ہو۔ وہ غلط تھوڑی کہتے ہیں۔ میں لنگڑا ہوں تو ہوں۔ خدا نے مجھے ایسا ہی پیدا کیا ہے تو میں کیا کروں مگر مجھے خدا سے کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ میں اس کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے دوسری دولت عطا کی ہے۔

    طارق اس کی بات سن کر چپ رہتا۔ یہ سچ تھا کہ عامر کو نہ جانے کتنی بار تصویر بنانے کے مقابلہ میں انعام مل چکا تھا۔ اس کی اس خوبی کو طارق کے علاوہ باقی لڑکے بھی دل دل میں قبول کرتے تھے۔ مگر اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ ایک لنگڑا لڑکا بھی خوبیوں والا ہو سکتا ہے۔ پتہ نہیں ان کے دل و دماغ میں عامر کے لیے حقارت کا جذبہ کیوں تھا؟ یہ ان کا بچپنا تھا یا پھر لاپرواہی؟ طارق کی امی کا کہنا تھا غلط تعلیم پرورش کا اثر ہے جو ماں باپ اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔ ان کے دل میں دوسرے کے لئے پیار اور مجبوروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ نہیں بھرتے ہیں۔ اس لئے بچے غیر ضروری مذاق کرتے ہیں۔

    ایک دن کی بات ہے کہ اسکول کے ایک کمرے میں آگ لگ گئی۔ شاٹ سرکٹ کی وجہ سے دھواں بھی بھر گیا۔ لڑکے تیزی سے باہر بھاگے طارق بھی اپنا بیگ اٹھا کر فیلڈ کی طرف تیزی سے بھاگا۔ کچھ دیر بعد اسے خیال آیا کہ عامر تو کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔ وہ پاگلوں کی طرح دوڑتا ہوا کلاس روم میں داخل ہوا۔ عامر بیہوش پڑا تھا۔ اس کا پیر ڈسک میں پھنسا تھا اور ایک بھاری بینچ اس کی کمر پر گری ہوئی تھی۔ شاید اسی کو ہٹانے کی جدوجہد میں دھوئیں نے اس کو بیہوش کر دیا تھا۔ طارق کی آنکھوں اور سینے میں تیز جلن شروع ہو گئی تھی کھانستا ہوا وہ آگے بڑھا اور بینچ ہٹائی اور اس کا پیر ڈسک سے باہر نکالا پھر عامر کو باہر گھسیٹا۔ طارق کو لگا وہ بیہوش ہونے والا ہے اس کا سر تیزی سے گھوم رہا تھا۔ اسے بھی کھانسی آ رہی تھی۔ باہر کافی شور ہو رہا تھا۔ چپراسی اور چوکیدار پرنسپل کے کہنے پر اندر داخل ہوئے مگر تب تک طارق عامر کو گھسیٹ لایا۔ کمرے میں آگ لگی ہوئی تھی۔ طارق کا بایاں ہاتھ جھلس گیا تھا۔ تب تک آگ بجھانے والی گاڑی بھی پہنچ چکی تھی۔ طارق اور عامر کا فرسٹ ایڈ ہو رہا تھا۔ گھروں سے بچوں کے ماں باپ روتے پریشان پہنچ چکے تھے۔ حالات قابو میں تھے مگر اچانک ہوئے حادثہ نے سب کے حواس گم کر دیے تھے۔

    طارق کے جھلسے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر کسی بچے کی ماں نے ہمدردی سے طارق کی امی سے کہا، ’’اچھا بھلا لڑکا بیٹھے بٹھائے اب عیب دار ہو جائےگا اگر ہاتھ پر جلنے کا داغ پڑ گیا۔‘‘ طارق کی امی نے ڈبڈبائی آنکھوں سے بیٹے کو دیکھا۔ طارق ماں کا چہرہ دیکھ کر مسکرایا اور کہا۔

    ’’آنٹی بدن میں عیب ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بس دماغ اور دل میں عیب نہیں ہونا چاہئے۔ میں نے اپنے پکے دوست کو بچایا یہ دماغ اسی دوستی کی یادگار رہےگا۔‘‘

    بیٹے کی بات سن کر طارق کی امی نے اپنے سینے سے لگایا۔ پاس کھڑی ٹیچر نے طارق کی پیٹ ٹھونک کر اس کو شاباشی دی۔ عامر کے ماں باپ تو طارق کے ہاتھوں بک چکے تھے ان کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ کیسے اس کا شکریہ ادا کریں۔ پرنسپل نے اسے دوسرے دن ’بریو بوائے اف دی ایر‘ کا خطاب دیا گیا مگر جس چیز نے طارق کو سب سے زیادہ خوشی دی۔ وہ تھی پورے کلاس کا بدلہ ہوا ارویہ ،اب وہ عامر کو لنگڑا دین کی جگہ ’لٹل پکاسو‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ فرانس کے اس عظیم فنکار کا نام سن کر جب عامر مسکراتا ہے تو اس کے چہرے پر ہزار چاند چمک اٹھتے ہیں اور طارق کی آنکھوں میں لاکھوں جگنوں کی چمک آ جاتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے