Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ننھی ماچس فروش لڑکی

ہما نصر

ننھی ماچس فروش لڑکی

ہما نصر

MORE BYہما نصر

    جاتے سال کی آخری شام تھی، شدت کی سردی اور کچھ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور تیز برفباری ہو رہی تھی۔ ٹھنڈ اور اندھیرے میں ایک ننھی غریب لڑکی، ننگے سر اور ننگے پاؤں، گلیوں میں بھٹکتی چکر لگا رہی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس نے سلیپر پہن رکھے تھے۔ وہ کچھ زیادہ قابل استعمال نہیں تھے۔ وہ بہت برے تھے۔ اتنے برے کہ اصل میں وہ اس کی ماں کے پاؤں میں پورے آتے تھے اور گلیوں میں چکر لگاتے، دوڑتے ہوئے وہ بھی اس سے تب کھو گئے جب اس نے دو چھکڑوں سے بچنے کی کوشش کی جو کہ اپنی پوری رفتار سے آ رہے تھے۔ ایک سلیپر کو تو وہ تلاش نہ کر سکی اور دوسرے کو ایک لڑکے نے اچک لیا اور یہ کہتا ہوا بھاگ گیا کہ جب اس کے بچے ہوں گے تو وہ اسے ایک جھولنے کے طور پر استعمال کرے گا۔ تب چھوٹی لڑکی کو ننگے پاؤں ہی چلنا پڑا جو سردی کی وجہ سے کافی سرخ اور نیلے پڑ گئے تھے۔ ایک پرانے رومال میں اس نے ماچس کی ڈبیاں باندھ رکھی تھیں اور کچھ ہاتھوں میں پکڑ رکھی تھیں۔ کسی ایک نے بھی سارے دن میں اس سے ایک بھی ماچس نہیں خریدی تھی اور نہ ہی کسی نے اسے ایک پیسہ تک دیا تھا۔ وہ ٹھنڈ سے کانپتی، پیٹ سے بھوکی ادھر ادھر چکر لگا رہی تھی۔ اس کے خوبصورت لمبے گھنگھریالے بال جو شانوں تک لہراتے تھے، ان پر برف کے گالے مسلسل گر رہے تھے۔ لیکن ان کی اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔

    ہر ایک کھڑکی سے روشنیاں چمک رہی تھیں اور راج ہنس کے بھنے ہوئے گوشت کی بہت ہی ذائقہ سے خوشبو پھیلی ہوئی تھی کیونکہ یہ نئے سال کی پہلی شام تھی۔ ہاں، نئے سال کی پہلی شام! یہ اسے یاد تھا۔ ایک سرائے کے کونے میں، دو گھروں کے درمیان، جن میں سے ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر تھا، وہ گٹھڑی کی طرح نیچے بیٹھ گئی اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنے چھوٹے چھوٹے پیروں کو اپنے نیچے کر لیا۔ لیکن وہ ٹھنڈ کو خود سے دور نہ رکھ سکی اور وہ گھر جانے کی توہمت ہی نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ اس نے ایک بھی ماچس نہیں بیچی تھی اور اس کے پاس گھر ساتھ لے جانے کے لئے ایک پیسہ تک نہیں تھا۔ کیونکہ اس نے تو آج کچھ بھی نہیں کمایا تھا۔ اس کا باپ یقیناً اسے مارے گا۔ یہ اس کی سوچ تھی اور پھر اس وقت جہاں وہ بیٹھی تھی یہاں بھی اتنی ہی سردی تھی جتنی کہ اس کے گھر میں تھی۔ کیونکہ ان کے پاس سر چھپانے کو صرف ایک چھت ہی تو تھی اور اس میں سوراخ تھے جنہیں بھوسے سے بند تو کر دیا گیا ہوا تھا لیکن ان سے ہوا کا خاصا گزر رہتا تھا۔ اس کے ننھے ہاتھ ٹھنڈ سے کم و بیش جم گئے تھے۔ اوہ! اگر وہ ماچس کی ایک تیلی نکال کر اسے دیوار سے رگڑ کے جلا سکے تو شاید جلتی ہوئی دیا سلائی اس کی انگلیوں کو گرم کرنے میں کچھ مدد کرے۔ اس نے ایک تیلی نکالی۔۔۔ اسے دیوار سے رگڑا اور ایک شعلہ نکلا! اس سے کچھ حرارت ملی اور ایک چھوٹی موم بتی کی طرح روشنی بھی، وہ اپنے ہاتھ کو اس کے اوپر رکھے ہوئے تھی۔ یہ ایک عجیب روشنی تھی۔ چھوٹی لڑکی نے محسوس کیا کہ جیسے وہ لوہے کے ایک بڑے چولھے کے پاس بیٹھی تھی۔ کیسی آگ جلی تھی! یہ اتنی خوبصورت اور گرم لگ رہی تھی کہ بچی نے اپنے پاؤں باہر نکال لیے تاکہ وہ بھی کچھ گرم ہوجائیں۔ لیکن، پھو! ماچس کا شلعہ جلد ہی بجھ گیا، چولھا غائب ہو گیا اور صرف ماچس کی آدھ جلی تیلی اس کے ہاتھ میں باقی رہ گئی۔

    اس نے ایک اور تیلی کو دیوار سے رگڑا۔ اس سے ایک شعلہ نکلا اور اس کی روشنی پڑی۔ دیوار پر وہ جگہ ایک ایسے گھونگھٹ کی طرح بن گئی جس کے آرپار دیکھا جا سکے۔ وہ کمرے کے اندر دیکھ سکتی تھی۔ میز پر برف جیسا سفید کپڑا بچھا تھا، جس پر چینی کے عمدہ برتن سجے تھے اور سیبوں اور خشک کھجوروں کے مکے میں بھنا ہوا بھاپ چھوڑتا ایک راج ہنس اور ان سب سے بڑھ کر بہت ہی عجیب و حیرتناک بات یہ کہ راج ہنس طشتری سے اچھل کر فرش پر اتر کر جھومتے ہوئے چھوٹی لڑکی کی جانب چلنے لگا تھا۔ اس کی چھاتی میں کھانا کھانے والی ایک چھری اور ایک کانٹا گبھا ہوا تھا۔ تب ماچس کی تیلی بجھ گئی اور اب وہاں ننھی بچی کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا، ہاں، صرف ایک موٹی، گیلی ٹھنڈی دیوار!

    اس نے ایک اور تیلی جلائی اور اب اس نے اپنے آپ کو ایک خوبصورت ’’کرسمس ٹری‘‘ کے نیچے پایا۔ یہ ایک بڑا کرسمس ٹری تھا اور یہ ان سب چیزوں سے زیادہ خوبصورتی سے سجا ہوا تھا جو اس نے شیشے کے دروازے سے امیر تاجر کے گھر کے اندر دیکھیں تھیں۔ اس کی سبز شاخوں پر ہزاروں شمعیں جل رہی تھیں اور ’’رنگین تصویریں‘‘ بالکل ویسی تھیں جیسی اس نے دوکان کی کھڑکی میں دیکھی تھیں۔ ننھی لڑکی نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا اور تیلی بجھ گئی۔

    کرسمس کی روشنیاں بلند سے بلند ہوتی گئیں اور وہ اسے آسمان کے ستاروں کی طرف دکھائی دینے لگیں۔ پھر اس نے ایک تارے کو گرتے دیکھا۔ اس کے پیچھے آسمان پر روشنی کی ایک لمبی لکیر تھی۔ ’’کوئی مر رہا ہے‘‘ ننھی لڑکی نے سوچا۔ اس کی بوڑھی ماں، وہی ایک تو تھی جو اس سے محبت کرتی تھی۔ لیکن اب وہ مر چکی تھی۔ اسی نے اسے بتایا تھا کہ جب کوئی تارہ گرتا ہے تو کوئی روح خدا کی طرف جا رہی ہوتی ہے۔

    اس نے ایک اور تیلی کو دیوار سے رگڑا تو اس کے اردگرد روشنی پھیل گئی جس کی چمک میں اس کی بوڑھی نانی ماں کھڑی تھی، صاف اور بڑی واضح صورت! نرم دل اور محبت سے بھرپور!! ’’نانی ماں‘‘ ننھی بچی چلائی۔ ’’آؤ، مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو‘‘، میں جانتی ہوں تم دور چلی جاؤگی تیلی بجھ جائےگی، تم گرم چولھے کی طرح غائب ہو جاؤگی، بھنے ہوئے راج ہنس کی طرح اور بڑے درخشاں ’’کرسمس ٹری‘‘ کی طرح۔ اس نے جلدی سے باقی ساری تیلیوں کو جلا دیا، کیونکہ وہ نانی ماں اتنی بڑی اور بہت ہی خوبصورت دکھائی دینے لگی تھی۔ اس نے ننھی لڑکی کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور وہ دونوں زمین سے اوپر بہت اوپر، مزے لینے کے لئے وہاں اڑگئیں جہاں نہ ٹھنڈ تھی، نہ بھوک اور نہ درد، کیونکہ وہ خدا کے حضور میں تھیں!

    اگلی صبح پوپھٹنے پر غریب ننھی لڑکی دیوار کے ساتھ لگی بیٹھی ہوئی تھی، اس کے گال پیلے پڑ چکے تھے اور منہ پر مسکراہٹ تھی۔ وہ سال کی آخری شام، ٹھنڈ سے جم کر مر گئی تھی۔ نئے سال کا سورج نکلا اور اس نے ایک چھوٹی میت پر روشنی بکھیر دی۔ بچی ابھی تک بیٹھی تھی، اس کے ہاتھ میں ابھی تک تیلیاں تھیں، جن میں سے ایک پورا بنڈل جلا ہوا تھا۔ ’’اس نے خود کو گرم رکھنے کی کوشش کی تھی!‘‘، کسی نے کہا۔ لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس نے کتنی عجیب و خوبصورت چیزیں دیکھی تھیں اور نہ ہی کسی کو یہ معلوم تھا کہ وہ تو نئے سال کی خوشیاں منانے کے لئے اپنی نانی ماںکے پاس فردوس میں جا چکی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے