ناراض طوطا
اس شخص کو یہ طوطا ایک مصروف سڑک پر دستیاب ہوا تھا۔ جب اس نے اس بھورے رنگ کے طوطے کو شہر کی شاہراہ کے بیچوں بیچ دیکھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کچھ کھا رہا ہو۔ لیکن وہ اپنی بات منوانے کے لئے احتجاجی طور پر ایسا کر رہا تھا۔ جس کی وجہ سے آمد و رفت درہم برہم ہوگئی تھی۔ جب راہگیروں نے ہارن بجا کر اسے اسے بھگانا چاہا تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔ اسے ٹریفک کی مسدودی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ یہ دیکھ کر کچھ لوگوں نے اس کے پاس پہنچنا چاہا تو اس رکاوٹ نے ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر ایک شخص نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا تو طوطے نے نہ صرف اپنے پنجوں سے اس پر حملہ کیا بلکہ اسے کاٹ بھی لیا تھا۔ اور اس رحم دل اور ہمدرد شخص کو دل کھول کر گالیاں بھی دی تھیں۔ اس شخص کا قصور یہی تھا کہ اس نے طوطے کی جان بچانے کے ساتھ ٹریفک کی بحالی عمل میں لائی تھی۔ جس پر اس احسان فراموش طوطے نے اپنے محسن کو پہلے تو سخت برا بھلا کہا پھر برہمی کے عالم میں اسے کاٹ بھی لیا تھا۔
اس برہم اور بد زبان طوطے کو یہ نیک خصلت شخص نے کسی نہ کسی طرح پکڑ کر اپنی کار میں بند کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ پھر وہ اس کو لے کر ایک حیوانات کے دواخانے کے عملے کے حوالے کر دیا لیکن یہاں بھی اس احتجاجی اور غصیلے طوطے نے عملے کو اپنے غصے کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ طوطا حقیقت میں سرکش اور باغیانہ مزاج کا حامل ہو گیا تھا۔ وہ کسی کوبھی خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔ شاید وہ قید تنہائی سے اکتا کر مشتعل ہوگیا تھا یا پھر اپنے مالک کے برتاؤ سے بدظن ہوگیا تھا۔ دواخانے کی نرس نے بتایا۔
اس بدمزاج اور طاقتور طوطے نے سب پر اپنے تیز ناخنوں سے حملہ کیا اور اپنی نوکیلی چونچ سے کاٹ لیا تھا پھر اس برہم صفت طوطے نے دواخانہ پہنچنے کے بعد اپنی جان بچانے والے شخص کو مسلسل گھورتے ہوئے اپنی برہمی کا اظہار کر رہا تھا۔ مگر کچھ دیر بعد وہ شخص روانہ ہوگیا تو حیرت انگیز طور پر یہ طوطا اداس اور رنجیدہ ہو گیا تھا۔ غالباً اسے اپنی احسان فراموشی اور غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ چند گھنٹوں کے بعد طوطے کا مالک اسے تلاش کرتے ہوئے دواخانہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ طوطا اس کے مکان کی کھلی کھڑکی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ طوطے کو اپنے مالک سے یہ شکایت تھی کہ اس نے طوطے کی خبرگیری نہ کرتے ہوئے اسے نظرانداز کرتا جارہا تھا۔ چنانچہ اس نے یہ احتجاجی راستہ اختیار کیا تھا تاکہ اس کا مالک آئندہ اپنے سلوک سے بازآجائے۔ اب وہ ناراض طوطا اپنے مالک کے منانے پر اس کے مکان آکر خوش اور مطمئن تھا۔
’مٹھو بیٹے پپی دئے‘۔ جیسے ہی مالک نے اسے آواز دی تو وہ پہلے کی طرح خوشی سے ٹیو۔۔۔ ٹیو۔۔۔ ٹیو۔۔۔ پکار اٹھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.