’’اب تک اس مکان میں جھاڑو نہیں دی گئی؟‘‘ شمیم نے رعب جمایا۔ ’’تو بڑی کام چور ہوگئی ہے شہناز‘‘ اور شہناز اپنے پھٹے ہوئے دوپٹے سے گھروندے کو اس طرح تندہی سے صاف کرنے لگی جیسے واقعی وہ اس گھر کی ماما ہو اور شمیم اس کی مالکن۔ لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ بچوں میں امیر و غریب کی تمیز نہیں ہوتی وہ کھیلتے وقت یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کا ساتھی امیر ہے یا غریب۔ لیکن شہناز کو معلوم تھا کہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ وہ سمجھتی تھی اگر یہ بات سچ ہوتی تو شمیم اور اس کی امیر سہیلیاں ہمیشہ خود شہزادی بن کر اور مسہری پر لیٹ کر اس سے پیر نہ دبوایا کرتیں۔ کبھی اسے بھی شہزادی بننے کا حق حاصل تھا۔ لیکن اسے اس حق سے محروم کردیا گیا تھا۔ کھیلوں میں بھی اسے ماما، چور اور بندر جیسے ہی پارٹ ادا کرنے پڑتے تھے۔ یہ بے انصافی کیوں کی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ؟ کیا صرف اس لیے کہ وہ ایک غریب استانی کی لڑکی تھی آہ! اس نے سوچا: ’’اگر میرے ابا جان کی ٹانگیں فوج میں زخمی نہ ہوجاتیں تو میں بھی شمیم کی طرح مزے کرتی۔ اور بے چاری امی کو اسکول میں دو سو روپئے ماہوار کی نوکری کرنی پڑتی‘‘۔ وہ تقریباً پورے گھروندے کو صاف کر چکی تھی۔ بے خیالی میں اس کا ہاتھ غلط پڑا اور گھروندے کا باورچی خانہ گر گیا۔ ایک دو ہتڑ اس کی پیٹھ پر پڑا ’’کمینی‘‘ شمیم چیخی۔ ’’ہمارا باورچی خانہ گرا دیا۔ چل نکل یہاں سے، ہمیں تجھ جیسی کام چور ماما کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اور پھر اس نے چوٹی پکڑ کر اسے گھروندے کی حد سے باہر نکال دیا۔ وہ چپ چاپ منہ لٹکا کر کلو تیلی کے چبوترے پر بیٹھ گئی اور دیکھتی رہی کہ پروفیسر الطاف حسین کی لڑکی ریحانہ کو بلا کر شمیم اسی کے ساتھ کھیلنے لگی۔ پھر گھر جاکر وہ سوجی گھی شکر اور کئی چھوٹے برتن لے آئی، دونوں نے مل کر ہنڈکلیا پکائی جتنا کھایا گیا کھایا اور باقی اپنے کتے روبی کو بلا کر کھلا دیا۔
اور اس رات ٹوٹے ہوئے پلنگ پر لیٹ کر شہناز کو ہمیشہ کی طرح جلد ہی نیند نہ آئی۔ اس کا ننھا سا دماغ ادھر ادھر چکر کاٹتا رہا۔ اور پھر نہ جانے کب نیند کی دیوی نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ شہناز نے خواب میں دیکھا کہ اس کے لنگڑے ابا جان اچھے ہوگئے ہیں۔ ان کا نام بھی اب صرف صدیق نہیں رہا بلکہ شمیم کے ڈیڈی سر محمد یعقوب کی طرح انہیں بھی سر محمد صدیق کہا جاتا ہے اور پھر اس نے دیکھا کہ اس کے پاس شمیم اور ریحانہ کی طرح بھڑکیلی پوشاکیں، قیمتی جوتے اور بہت اچھے اچھے کھلونے ہیں۔ پھر اس نے اپنے باغ میں جھولا ڈلوایا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ خود جھولے پر بیٹھی ہے اور شمیم پیچھے کھڑی ہو کر اسے جھولا جھلا رہی ہے۔ پینگ بڑھتی گئی، بڑھتی ہی گئی اور پھر جھولے کی رسی ٹوٹ گئی۔ اڑا اڑا دھڑام، وہ ٹوٹی ہوئی پلنگڑی کے نیچے پڑی تھی اور امی جان اس کے اوپر جھکی ہوئی تھیں۔
’’کیا ہوا میری بچی‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’کچھ نہیں امی، کچھ بھی تو نہیں۔‘‘ وہ اپنے آنسو پی کر بولی۔
اور دوسرے دن صبح وہ دن بھر شمیم کے گھر نہیں گئی۔ شام کو امی اسکول سے آئیں تو دیکھا کہ وہ اب تک منہ لپیٹے بستر پر پڑی تھی۔
’’آج ہماری بیٹی کھیلنے نہیں گئی‘‘۔ انہوں نے پوچھا۔
’’نہیں‘‘ ابا جان نے جواب دیا۔ آج تو صبح سے گھر میں ہے‘‘۔
’’جاؤ بیٹی، دن بھر گھر میں گھسے رہنا ٹھیک نہیں‘‘۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’جاکر کھیل آؤ۔‘‘
وہ باہر آئی تو جیسے شمیم اسی کا انتظار کر رہی تھی۔ ’’ارے شہناز‘‘ وہ گھروندے میں سے چیخی ’’تم تو جیسے پردے میں ہی بیٹھ گئیں، آؤ کھیلیں‘‘ شہناز کا دل باغ باغ ہوگیا۔ لیکن جیسے ہی قریب پہنچی اسے معلوم ہوگیا کہ شمیم اتنی میٹھی میٹھی باتیں کیوں کر رہی تھی۔ چنے کی دال، گھی، شکر اور بہت سا دوسرا سامان چھوٹے چھٹے برتنوں میں رکھا تھا۔ شہناز چنے کا حلوہ بہت لذیذ بناتی تھی اسی لئے اب اس کا انتظار کیا جارہا تھا۔ ’’لو ذرا جلدی سے حلوہ تیار کر ڈالو‘‘۔ شمیم نے احکام دینا شروع کردیے۔ شہناز جلدی جلدی کام کرنے لگی۔ دال بھونی، قوام تیار کیا اور پھر تھوڑی دیر بعد چنے کا سوندھا سوندھا لذیز حلوہ تیار ہوگیا۔ ’’اچھا اب تم جاکر ہمارے گھر سے بقچہ اٹھالاؤ۔‘‘ شمیم نے دوسرا حکم دیا اور حلوہ صاف کرنا شروع کردیا۔ شہناز تیزی سے بھاگی۔ بنگلہ میں جاکر آیا سے بقچہ لیا اور پھر تیزی سے واپس لوٹی، اسے ڈر تھا کہ اس کے پہنچنے سے پہلے حلوہ صاف نہ ہوجائے اور ہوا بھی یہی۔ گھرندے پر پہنچ کر اس نے دیکھا کتا روبی جلدی جلدی حلوہ کھا رہا تھا اور شمیم اور ریحانہ پاس ہی کھڑی تالیاں بجا بجا کر ہنس رہی تھیں انہوں نے جلدی سے شہناز کے ہاتھ سے گڑیوں کا بقچہ لے لیا اور کہا: ’’شہناز اب تمہاری چھٹی تمہیں نے توکل ہمارا گھروندا خراب کردیا تھا۔‘‘ بے چاری شہناز پھرکلو تیلی کے چبوترے پر بیٹھ گئی۔ شمیم نے ایک نیا گڈا بقچے سے نکال کر ریحانہ کو دکھایا:’’ یہ میرے ڈیڈی سترہ روپے کا لائے ہیں دیکھو کتنا اچھا ہے۔ اس بٹن کو دباؤ ذرا‘‘ ریحانہ نے بٹن دبایا۔ ’’ارے‘‘ وہ خوشی سے اچھلنے لگی۔ شہناز کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سلو لائڈ کا بے جان گڈا جلدی جلدی ہاتھ پیر چلا رہا تھا۔ اس نے پاس جاکر دیکھا گڈا پلکیں بھی جھپکا رہا تھا۔ ’’شمیم کیا یہ پلکیں بھی جھپکاتا ہے‘‘؟ اس نے بے اختیار ہو کر پوچھا اور جواب میں تڑ تڑ اس کے گال پر دو چپت پڑے’’کمینی کو کتنی بارکہا کہ ہمارے ساتھ نہ کھیلا کر۔ چل یہاں سے۔‘‘ شمیم نے پھٹکارا۔ ’’بے حیا ہے بے حیا‘‘ ریحانہ نے نمک چھڑکا۔
’’امی شمیم کے پاس بڑا نرالا گڈا ہے‘‘۔ وہ آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے کہہ رہی تھی ’’بڑا ہی نرالا گڈا۔ ہاتھ پیر چلاتا ہے، آنکھیں بھی جھپکتا ہے، مجھے بھی لادونا ایسا ہی گڈا‘‘۔ وہ امی کے کندھے پر سر رکھ کر سسکنے لگی‘‘۔ اری پگلی، تیرے پاس تو اس سے بھی اچھا گڈا ہے‘‘ ’’کہاں؟‘‘ ’’وہ دیکھ‘‘ اور اس نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ جھولے پر ننھا اشفاق انگوٹھا منہ میں ڈالے چوس رہا تھا۔ ’’میرا گڈا‘‘ اس نےلپک کر ننھے کو اٹھا لیا۔ اور وہ مسکرا نے لگا ۔ ’’امی! میرا گڈا تو ہنس بھی لیتا ہے کیا شمیم کا گڈا بھی ہنس سکتا ہے’’ اور جواب میں امی اور ابا جان دونوں مسکرا دیے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ نہ جانے کیوں دونوں کی آنکھوں میں آنسو بھی جھلک رہے تھے؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.