ایک دن کی بات ہے۔ رفیق اپنے والد کے ساتھ امرود توڑنے جنگل گیا۔ لال پیلے امرود توڑتے توڑتے وہ جنگل میں کافی دور نکل گیا۔
امرود کا مزہ لے ہی رہا تھا کہ اچانک اسے جھاڑیوں میں سے کسی کی کراہنے کی آواز سنائی دی۔ رفیق آہستہ آہستہ جھاڑی کے قریب گیا۔ پہلے تو وہ ڈرا پھر غور سے دیکھا تو جھاڑی کے پاس ایک کھڈ میں ایک ہرن کا بچہ دکھائی دیا۔ ہرن زخمی تھا۔ رفیق کو اس پر ترس آیا۔ وہ اپنے والد کی اجازت سے ہرن کے بچے کو گھر لے آیا۔
رفیق نے اس کی مرہم پٹی کی۔ ہرن کو ہری ہری گھاس کھلائی اور بوتل سے دودھ پلایا۔ اس کے رہنے کے لئے ایک ڈبہ اور اس میں گرم کپڑے رکھے۔ پھر رفیق نے ہرن کا نام مینوش رکھا۔
کچھ ہی دنوں میں مینوش تندرست ہوگیا۔ ہرن گھر ہی میں آہستہ آہستہ چلنے پھرنے لگا۔ رفیق کے دوست بھی مینوش کو دیکھنے آتے اور وہ ان سب سے گھل مل گیا۔ رفتہ رفتہ مینوش بہت ہی دلکش اور خوبصورت ہوگیا۔
جب رفیق اسکول جاتا تو مینوش بھی اس کے ساتھ جاتا۔ کلاس میں داخل ہونے پر مینوش باہر انتظار کرتا۔
لیکن جب بارہ بجے کی گھنٹی بجتی تو رفیق کے دوست مینوش کے ساتھ کھیلتے اور مینوش بھی ان سے خوب لطف اٹھاتا۔
اس کے جسم کے بال اتنے ملائم تھے کہ بچے اسے اکثر گود میں اٹھاتے اور اسے سہلاتے۔
مینوش رفیق کے ساتھ بازار بھی جاتا۔ سبزی والے اس کو اچھی طرح سے پہچانتے۔ سبزی والے اسے بڑے پیار سے گوبھی کے پتے اور دوسری سبزیاں کھلاتے۔ وہ بھی کچھ دیر کے لئے مینوش کو گود میں لے کر سہلاتے۔ مینوش بہت خوش ہوتا۔
کبھی کبھی مینوش رفیق کے ساتھ ندی کی طرف جاتا اور ندی کنارے ہی گھاس چرتا۔ دونوں ندی میں خوب کھیلتے۔ گھر لوٹتے وقت رفیق اس کے لئے گھاس بھی لاتا۔
راستے میں دونوں ساتھ کھیلتے اور دوڑ بھی لگاتے۔ لیکن مینوش اکثر ہار جاتا کیونکہ اس کا زخم ابھی اچھی طرح سے بھرا نہ تھا۔
ایک روز جب رفیق اسکول سے لوٹا تو مینوش نظر نہیں آیا۔ وہ اسے پکارتا رہا ’’مینوش! مینوش!‘‘ مگر مینوش کہیں دکھائی نہیں دیا۔ رفیق بہت غمگین تھا۔ مینوش جنگل واپس چلا گیا تھا۔
رفیق کے والد نے اسے روتے ہوئے دیکھ کر کہا : ’’تمہارا ہرن جنگل میں اپنے دوستوں کے ساتھ رہنے گیا ہے۔ ایک روز بڑا ہوجائے گا، اس کے سر پر سینگ ہوں گے اور شاید وہ ہرنوں کا سردار بھی ہوگا۔
وقت گزرتا گیا، دن مہینے گزرتے گئے۔ اب رفیق کو مینوش کی یاد نہیں آتی۔
ایک روز رفیق اپنے دوستوں کے ساتھ جماعت میں تھا، دروازے پر ایک بڑا جانور کھڑا نظر آیا۔ اس کے سر پر نوکیلے سینگ تھے یہ اس کا چھوٹا ہرن مینوش تھا وہ بہت بڑا ہوگیا تھا۔
مینوش کا قد رفیق سے بڑا تھا۔ لیکن رفیق اس سے ڈرا نہیں۔ وہ فوراً مینوش سے لپٹ گیا۔ مینوش بھی اس کو پیار سے چاٹنے لگا۔
مینوش گاؤں اور بازار کی سیر کرتا۔ سب بچے اس کے پیچھے دوڑتے اور یہی کہتے: ’’مینوش آگیا! مینوش آگیا!‘‘ اب اکثر مینوش رفیق کو دیکھنے آتا۔ جب وہ نظر نہ آتا تو رفیق اس سے ملنے خود جنگل چلا جاتا۔ رفیق کے والد نے کہا ‘ ’’بیٹا! ہر کوئی اپنی برادری میں ہی رہنا پسند کرتا ہے۔ پردیس کبھی کسی کو راس نہیں آتا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.