Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیڑ پیڑ مرا دانہ دے

غلام حیدر

پیڑ پیڑ مرا دانہ دے

غلام حیدر

MORE BYغلام حیدر

    ایک تھی گلہری۔ اس کا نام تھا کٹوؔ۔

    کٹو پیڑ پر بیٹھی ایک چنا کھا رہی تھی۔

    کٹو کا چنے کا دانا پیڑ کے ایک سوراخ میں گر گیا۔

    کٹو بولی: ’’پیڑ پیڑ مرا دانہ دے۔

    مرا دانہ دے!‘‘

    پیڑ بولا: ’’میں تو نہیں دیتا!‘‘

    کٹو نے سوچا۔ ’کون میری مدد کرےگا؟‘‘

    کٹو ایک بڑھئی کے پاس گئی اور کہا:

    ’’بڑھئی بڑھئی تو پیڑ کو کاٹ دے۔!‘‘

    ’’میں پیڑ نہیں کاٹوں گا۔! ‘‘ بڑھئی بولا۔

    پھر کٹو سپاہی کے پاس گئی اور بولی:

    ’’پیڑ مرا دانا نہیں دیتا۔ بڑھئی پیڑ کو نہیں کاٹتا،

    سپاہی تو بڑھئی کو پکڑلے!‘‘

    ’’نہیں۔ پیڑ اچھا ہوتا ہے۔ میں بڑھئی کو نہیں

    پکڑوں گا۔!‘‘ سپاہی نے کہا۔

    کٹو راجا کے پاس گئی اور بولی:

    ’’راجا راجا سپاہی کو نکال دے!‘‘

    ’’کیوں!؟‘‘ راجا نے پوچھا۔

    ’’پیڑ مرا دانہ نہیں دیتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، تو سپاہی کو نکال دے۔!‘‘

    مگر پیڑ تو اچھا ہوتا ہے۔!‘‘ راجا نے کہا:

    ’’مگر وہ مرا دانا نہیں دیتا!‘‘

    ’’پھر بھی، میں سپاہی کو نہیں نکالوں گا‘‘۔ راجا بولا۔

    اب کٹو رانی کے پاس گئی۔ کٹو نے رانی سے کہا:

    ’’رانی رانی، تو راجا سے روٹھ جا!‘‘

    ’’کیوں!؟‘‘ رانی نے پوچھا۔

    ’’پیڑ مرا دانہ نہیں دیتا، بڑھئی پیڑ کو نہیں کاٹتا،

    سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا‘‘

    ’’نہیں میں راجا سے نہیں روٹھوں گی اور پیڑ تو مجھے پھول دیتا ہے۔!‘‘ رانی نے کہا۔

    ’’مگر وہ مرا دانہ کیوں نہیں دیتا!؟‘‘

    پھر کٹو چوہیا کے پاس پہنچی اور چوہیا سے کہا: ’’چوہیا چوہیا تو رانی کے کپڑے کاٹ لے!‘‘

    ’’کیوں میں رانی کے کپڑے کیوں کاٹوں!؟‘‘ چوہیا نے پوچھا۔

    ’’پیڑ مرا دانا نہیں دیتا، بڑھئی پیڑ کو نہیں کاٹتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی‘‘

    چوہیا بولی: میں رانی کے کپڑے نہیں کاٹوں گی۔!

    اور پیڑ کی جڑ میں تو میری دادی رہتی ہے۔!‘‘

    ’’مگر پیڑ مرا دانہ کیوں نہیں دیتا۔!‘‘

    کٹو سیدھی بلی کے پاس آئی اور بولی!

    ’’بلی خالہ، بلی خالہ۔ تم چوہیا کو پکڑ لو!‘‘

    ’’کیوں میں چوہیا کو کیوں پکڑوں!؟‘‘ بلی نے پوچھا۔

    ’’بڑھئی پیڑ کو نہیں کاٹتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی‘‘

    ’’مگر میں چوہیا کو پھر بھی نہیں پکڑوں گی اور پیڑ کے نیچے تو سارے جانور آرام کرتے ہیں‘‘۔ بلی نے کہا۔

    ’’مگر پیڑ مرا دانا کیوں نہیں دیتا!؟‘‘

    اب کٹو ایک ڈنڈے کے پاس پہنچی اور بولی:

    ’’ڈنڈے ڈنڈے۔ تو بلی کو مار!‘‘

    ’’کیوں۔! میں بلی کو کیوں ماروں!؟‘‘ ڈنڈے نے پوچھا۔

    ’’پیڑ مرا دانہ نہیں دیتا، بڑھئی پیڑ نہیں کاٹتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی، بلی چوہیا کو نہیں پکڑتی۔‘‘

    ڈنڈے نے کہا۔

    ’’مگر میں بلی کو نہیں ماروں گا اور میں تو خود پیڑ سے نکلا ہوں!‘‘

    ’’مگر پیڑ مرا دانا کیوں نہیں دیتا!؟‘‘

    اس کے بعد کٹو آگ کے پاس گئی اور کہا:

    ’’آگ آگ تو ڈنڈے کو جلا دے!‘‘

    آگ نے پوچھا: ’’میں ڈنڈے کو کیوں جلاؤں!؟‘‘

    ’’پیڑ مرا دانہ نہیں دیتا

    بڑھئی پیڑ نہیں کاٹتا

    سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا

    راجا سپاہی کو نہیں نکالتا

    رانی راجا سے نہیں روٹھتی

    چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی

    بلی چوہیا کو نہیں پکڑتی

    ڈنڈا بلی کو نہیں مارتا!‘‘

    ’’مگر میں ڈنڈے کو نہیں جلاؤں گی

    اور ہاں پیڑ کی لکڑی سے

    تو آگ جلتی ہے۔!‘‘ آگ نے کہا۔

    ’’مگر پیڑ مرا دانا کیوں نہیں دیتا!‘‘

    تب کٹو پانی کے پاس پہنچی۔ کٹو نے کہا:

    ’’پانی پانی تو آگ کو بجھا دے!‘‘

    کیوں!؟‘‘ پانی نے پوچھا

    ’’پیڑ مرا دانا نہیں دیتا،

    بڑھئی پیڑ نہیں کاٹتا،

    سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا،

    راجا سپاہی کو نہیں نکالتا،

    رانی راجا سے نہیں روٹھتی

    چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی،

    بلی چوہیا کو نہیں پکڑتی،

    ڈنڈا بلی کو نہیں مارتا،

    آگ ڈنڈے کو نہیں جلاتی‘‘

    ’’مگر میں آگ کو نہیں بجھاؤں گا اور ہاں پیڑ کی وجہ سے

    تو بارش ہوتی ہے۔ بارش نہ ہو تو پانی کہاں سے آئے!‘‘ پانی نے کہا۔

    پھر کٹو ہاتھی کے پاس گئی اور بولی:

    ’’ہاتھی ہاتھی، تو سارا پانی پی جا!‘‘

    ’’میں سارا پانی کیوں پی جاؤں!؟‘‘ ہاتھی نے پوچھا۔

    ’’پیڑ مرا دانا نہیں دیتا، بڑھئی پیڑ نہیں کاٹتا، سپاہی بڑھئی کو نہیں پکڑتا، راجا سپاہی کو نہیں نکالتا، رانی راجا سے نہیں روٹھتی، چوہیا رانی کے کپڑے نہیں کاٹتی، بلی چوہیا کو نہیں پکڑتی، ڈنڈا بلی کو نہیں مارتا، آگ ڈنڈے کو نہیں جلاتی، پانی آگ کو نہیں بجھاتا۔‘‘

    ’’مگر میں سارا پانی نہیں پیوں گا اور رہی پیڑ کی بات۔ تو میں خود پیڑ کے پتے کھاتا ہوں!‘‘

    کٹو اداس ہو گئی۔

    ’’کوئی میری مدد نہیں کرتا!‘‘ مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔

    آخر کیوں چھوٹی سی چیونٹی کے پاس پہنچی اور بولی:

    ’’چھوٹی چیونٹی، چھوٹی چیونٹی۔ کیا تم میری مدد کروگی!؟‘‘

    ہاں میں تمہاری مدد ضرور کروں گی!‘‘ چیونٹی نے کہا۔

    ’’تو چلو میرے ساتھ۔ ہاتھی کی سونڈ میں گھس جاؤ!‘‘

    ’’ہاں، مجھے ہاتھی کے موٹے موٹے پیروں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں ہاتھی کی سونڈ میں کاٹ لوں گی۔‘‘

    اور پھر چلے چیونٹی اور کٹو ہاتھی کی طرف۔

    اور ہاتھی، چیونٹی اور کٹو کو ساتھ ساتھ دیکھ کر ڈر گیا اور وہ چلا۔

    اور پانی نے دیکھا۔ کہ:

    آگے آگے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو چلے آ رہے ہیں۔ تو پانی سمجھ گیا۔ پانی ہاتھی سے ڈر گیا۔

    اور وہ چلا آگ کی طرف۔

    اور جب آگ نے دیکھا کہ:

    آگے آگے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو دوڑے آرہے ہیں۔ تو آگ ساری بات سمجھ گئی۔ آگ پانی سے ڈر گئی۔

    اور وہ چلی ڈنڈے کی طرف۔

    اور ڈنڈے نے جو دیکھا کہ:

    آگے آگے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو۔ تیز تیز آ رہے ہیں۔ تو ڈنڈا سب کچھ سمجھ گیا۔ وہ آگ سے ڈر گیا۔

    اور پھر ڈنڈا چلا بلی کی طرف۔

    اب جو بلی نے دیکھا کہ:

    آگے آگے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو چلے آ رہے ہیں۔ تو بلی سمجھ گئی۔ بلی ڈنڈے سے ڈر گئی۔

    اور وہ لپکی چوہیا کو پکڑنے۔

    پھر جب چوہیا نے دیکھا۔ کہ:

    آگے آگے بلی۔ بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ،

    آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ تو چوہیا سب کچھ سمجھ گئی۔ اسے بلی سے بہت ڈر لگا۔

    اور بس وہ بھاگی رانی کے کپڑے کاٹنے۔

    اب جو رانی نے دیکھا۔ کہ:

    آگے آگے چوہیا، چوہیا کے پیچھے بلی، بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو، اس کے کپڑوں کی طرف جا رہے ہیں۔ تو رانی ساری بات سمجھ گئی۔

    رانی چوہیا سے ڈر گئی۔

    اور وہ چلی راجا سے لڑنے اور روٹھنے۔

    راجہ نے دیکھا۔ کہ:

    آگے آگے رانی، رانی کے پیچھے چوہیا، چوہیا کے پیچھے بلی، بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو تیز چلے آ رہے ہیں۔

    تو راجا کو ساری بات یاد آگئی۔ وہ گھبرا گیا۔

    اور وہ اٹھا سپاہی کو نکال دینے کے لیے۔

    اب سپاہی نے جو دیکھا کہ:

    آگے آگے راجا، راجا کے پیچھے رانی، رانی کے پیچھے چوہیا، چوہیا کے پیچھے بلی، بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی، ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ تو وہ بہت ڈرا۔

    اور وہ چلا بڑھئی کو پکڑنے۔

    اور بڑھئی سمجھ گیا کہ:

    سب سے آگے سپاہی، سپاہی کے پیچھے راجا، راجا کے پیچھے رانی، رانی کے پیچھے چوہیا، چوہیا کے پیچھے بلی، بلی کے پیچھے ڈنڈا، ڈنڈے کے پیچھے آگ، آگ کے پیچھے پانی، پانی کے پیچھے ہاتھی اور ہاتھی کے پیچھے چیونٹی اور چیونٹی کے پیچھے کٹو۔ کیوں دوڑے چلے آ رہے ہیں!

    اور بس اس نے اٹھائی کلہاڑی اور چلا پیڑ کی طرف۔

    پیڑ ان سب کو دیکھ کر خوب ہنسا اور بولا:

    ’’تم مجھے کاٹوگے۔؟‘‘ تو

    گرمی میں ٹھنڈا ٹھنڈا سایا کون دے گا؟

    بارش کیسے ہوگی؟

    پھول پھل کہاں سے آئیں گے؟

    چڑیاں، طوطے اور بندر کہاں رہیں گے؟

    تم مجھے مت کاٹو۔ میں تو سب کے کام آتا ہوں!‘‘

    ’’تو پھر پیڑ پیڑ مرا دانا دے!‘‘ کٹو نے جلدی سے کہا

    اور پیڑ نے دانا فوراً زمین پر گرا دیا۔

    پھر سب خوش ہو گئے۔ پیڑ کے ٹھنڈے سایے میں ناچنے لگے۔

    پیڑ جھوما، کٹو ناچی، ہاتھی اچھلا، بلی کو دی۔

    اور پھر سب خوش خوش اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے