Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیلی تانیہ

سلمیٰ جیلانی

پیلی تانیہ

سلمیٰ جیلانی

MORE BYسلمیٰ جیلانی

    گرمیوں کی چھٹیاں ہونے والی تھیں، ہم سب چھٹی کلاس پاس کر چکے تھے اور بہت خوش تھے کہ آخرکار اس چھوٹے سے کمرے سے ہماری جان چھوٹ جائےگی اور ہم ایک بڑی کلاس میں جا کر کھل کر سانس لے سکیں گے، لیکن ساتھ ہی ہمیں اپنی ہر دل عزیز ٹیچر رومانہ کو الوداع کہنے کا بھی افسوس تھا۔

    لائبہ نے تجویز پیش کی ’’کیوں نہ ہم سب پیسے اکھٹا کر کے ان کےلئے کوئی یادگار تحفہ خرید لیں‘‘۔

    ’’ارے واہ‘‘ یہ تو بہت اچھا آئیڈیا ہے ’’ہم سب کلاس فیلوز ایک ساتھ چلائیں، ابھی لائبہ نے کچھ اور کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ پیلی تانیہ ایک دم سامنے آ گئی اور جلدی سے بولی‘‘ میرے لئے یہ کچھ مشکل نہیں میرے گھر کے پاس ہی شاپنگ مال ہے اور میں نے وہاں ایک شیشے کی چیزوں کی بڑی اچھی شاپ دیکھی ہے وہاں سے کوئی بھی شیشے کا گلدان خرید کر لا سکتی ہوں۔

    اس کا نام تو تانیہ تھا لیکن اس کےکپڑے ہمیشہ استری کے بغیر ہوتے اور سفید یونی فارم پیلا پیلا رہتا تھا اسی لئے ہم نے اس کا نام پیلی تانیہ رکھ چھوڑا تھا۔

    لائبہ نے ناک سکوڑتے ہوئے پیلی تانیہ کی طرف دیکھا اور منہ بنا کر بولی ’’ہنہ۔ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں تم ہمارے کول (cool ) گروپ میں شامل کیسے ہو گئیں، تمہارا لایا ہوا تحفہ کول گروپ کی پسند نہیں ہو سکتا‘‘۔

    پیلی شرمندگی سے سرخ ہو گئی اور خاموشی سے اپنی سیٹ پر واپس چلی گئی، مجھے اس وقت پیلی پر بہت ترس آیا لیکن خاموش رہی کیونکہ لائبہ جو کول گروپ کی لیڈر تھی مجھے اپنے گروپ سے باہر کر سکتی تھی۔

    پیلی ایک غریب علاقے میں رہتی تھی اس کی امی اسکول میں صفائی کا کام کرتی تھیں اس لئے اسکول کی پرنسپل نے ان کی بیٹی یعنی تانیہ کو اس امیر اسکول میں پڑھنے کی اجازت دے دی تھی۔ پیلی کے بہت سارے بہن بھائی تھے جو اس سے چھوٹے تھے، پیلی کے ابو کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں تھے ،مجھے یہ ساری باتیں اس لئے معلوم تھیں کیونکہ اسکول میں کام کرنے سے پہلے اس کی امی ہمارے گھر صفائی کا کام کرتی تھیں اور امی کی سفارش پر ہی انہیں ہمارے اسکول میں نوکری ملی تھی۔

    میری امی غریبوں سے بڑی ہمدردی کرتی ہیں مجھے بھی ہمیشہ سمجھاتی تھیں پیلی سے اچھی طرح پیش آیا کرو لیکن مجھے وہ بلکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ اسکول میں اس کے نمبر ہر سبجیکٹ میں مجھ سے زیادہ جو آتے تھے، اگرچہ میں بہت کوشش کرتی کہ پیلی کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کروں لیکن اس کا چہرہ دیکھتے ہی میرا دل چاہتا اس کے بال کھینچ کر بھاگ جاؤں جو ہمیشہ ایک بدرنگے سے ربن سے بندھے رہتے تھے۔

    لائبہ نے اپنے سلیقے سے بنے بالوں کی پونی کو جھلاتے ہوئے کہا ’’کل تمام کلاس فیلوز گھر سے پیسے لے کر آئیں، میں ان سب لڑکیوں کے نام تجویز کروں گی جو اسکول کی چھٹی کے بعد تحفہ خریدنے جائیں گی۔۔۔ میں نے کلاس ٹیچر مس رومانہ سے پہلے ہی اجازت لے لی ہے‘‘۔

    اگلے دن اسکول کی چھٹی کے بعد ہم پانچ گروپ ممبرز اسکول کے قریب واقع شاپنگ مال کے باہر ایک گفٹ شاپ پہنچیں۔ بڑی تلاش کے بعد ایک نازک سا شیشے کا گلدان ہم سب کو بہت پسند آ گیا اس پر شیشے کی پھولوں کی پتیاں الگ سے لگی ہوئی تھیں اور ان پر بہت پیارا ہرا رنگ پینٹ ہوا تھا جو گلابی اور سنہرے رنگوں سے مل کر اور بھی اچھا لگ رہا تھا۔

    میرا دل چاہا کہ یہ گلدان میں لے لوں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ لائبہ نے اسے دکاندار کو دیتے ہوئے ہدایت کی ’’اسے ڈبے میں رکھ دیں لیکن ابھی پیک نہ کریں ہم اپنی سب ساتھیوں کو دکھا کر خود پیک کریں گے‘‘۔ دکان دار نے اسے ایک بڑے گتے کے ڈبے میں رکھا اور رنگین ریپر اور ربن کی تھیلی لائبہ کو تھماتے ہوئے کہا ’’یہ سامان اس کی پیکنگ کے لئے ہے‘‘۔ لائبہ نے ڈبہ مجھے دے دیا اور بولی ’’اسے تم اپنے لاکر میں رکھ دینا، ہم کل تمام کلاس کو دکھا کر پیک کر کے مس رومانہ کو تحفے میں دیں گے‘‘۔

    میں نے خوشی خوشی سر ہلایا، کول گروپ کی لیڈر نے یہ ذمہ داری مجھے دی تھی، میں بہت فخر محسوس کر رہی تھی، اسکول واپس آ کر تحفے کو لاکر میں رکھتے ہوئے میرا دل چاہا کہ ایک بار پھر اس خوب صورت گلدان کو دیکھوں میں نے چپکے سے ڈبے سے گلدان نکالا اور اس کی پتیوں کو چھو کر دیکھنے لگی لیکن وہ تو بہت ہی نازک تھیں ایک دم ٹوٹ کر میرے ہاتھ میں آ گئیں، ارے یہ کیسے ہو گیا، اس اچانک نقصان پر دھچکے سے سن سی ہو گئی، مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا جب سب کو معلوم ہوگا کہ میں نے گلدان توڑ دیا تو سب سہلیا ں اپنے گروپ سے نکال دیں گی اور اتنا مہنگا تحفہ دوبارہ کیسے خریدوں گی۔

    میں نے چپکے سے اسے واپس لاکر میں رکھ دیا اور خاموشی سے اپنی سیٹ پر جا کربیٹھ گئی۔۔۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا سب باتوں میں لگے تھے کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔

    اگلی صبح جیسے ہی میں اسکول پہنچی لائبہ نے مجھے دیکھ لیا اور دور ہی سے بولی ’’اوہ علینہ! میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی، لاؤ! وہ تحفہ اپنے لاکر سےلے آؤ ہم اسے سب کلاس فیلوز کو دکھاتے ہیں‘‘۔

    میں بہت پریشان تھی لیکن اس کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لائبہ نے کلاس کی سب لڑکیوں کے سامنے گلدان ڈبے سے نکالا۔

    ’’ارے! یہ کیا ہوا یہ پھول کیسے ٹوٹ گیا؟‘‘ وہ ایکدم غصہ سے چلائی۔

    ’’علینہ!‘‘ اس نے میری طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہا

    ’’تم بتاؤ یہ کیسے ٹوٹا، اسے تمہاری حفاظت میں رکھنے کو دیا گیا تھا‘‘۔

    میں گڑ بڑا گئی، سب کی سوالیہ نظریں میری طرف ہی تھیں۔

    میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیابہانہ بناؤں۔ لائبہ اور ساری لڑکیاں مجھے برا بھلا کہنے لگیں کہ اچانک پیلی تانیہ سامنے آ گئی اور بولی ’’ہم اس گلدان کی جگہ نیا گلدان لے لیں گے تم لوگوں کو علینہ کو نہیں ڈانٹنا چاہیے‘‘۔

    لائبہ نے جل کر کہا ’’اور اس کے لئے پیسےکہاں سے آئیں گے اتنا مہنگا گلدان ہم دوبارہ نہیں خرید سکتے، اب علینہ کو اپنے پاس سے سارے پیسے دے کر تحفہ خریدنا ہوگا‘‘۔

    میں تانیہ کا منہ دیکھنے لگی، ’’میں تو اپنی امی کو نہیں بتا سکتی وہ مجھے بہت ڈانٹیں گی‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

    لائبہ اور میری ساری دوستیں کندھے اچکاتی یہ کہہ کر چلی گئیں ’’ہم کچھ نہیں جانتے تم کو کل نیا گلدان لانا ہوگا ورنہ ٹیچر رومانہ سے تمہاری شکایت کریں گے اور تمہیں کول گروپ سے بھی نکال دیا جائےگا‘‘۔

    اب میں اور تانیہ وہاں رہ گئی تھیں، اس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’میرے پاس کچھ پیسے ہیں جو میں نے سپورٹس کے جوتے خریدنے کے لئے جمع کیے ہیں مجھے امید ہے ان پیسوں میں اچھا سا گلدان آ جائےگا، کوئی بات نہیں میں پرانے جوتوں میں ہی گزارہ کر لوں گی‘‘۔

    میں ہکا بکا تانیہ کی طرف دیکھنے لگی حیرت اور شرمندگی سے مجھ سے اس کا شکریہ تک ادا نہیں کیا گیا، میں نے آگے بڑھ کر اسےگلے لگا لیا آج وہ مجھے اجلی تانیہ لگ رہی تھی۔

    میری امی ٹھیک کہتی ہیں تانیہ ایک حقیقی دوست کہلانے کے لائق ہے جس نے مشکل وقت میں میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے