Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پیاری امی جان

شاذیہ فرحین

پیاری امی جان

شاذیہ فرحین

MORE BYشاذیہ فرحین

    فرخ نے پردہ سرکایا، صبح کی تازہ ہوا کے ساتھ ہی اصلی گھی کے گرما گرم پراٹھوں کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی یقیناً شیخ صاحب کے گھر گرم گرم پراٹھے بن رہے تھے اس نے سوچا اور دیر تک یہ خوشبو اپنی سانسوں میں اتارتا رہا۔

    ’’آہا کتنا مزہ آئے گا یہ پراٹھے کھاتے ہوئے‘‘ فرخ نے ایک آہ سے اوپر کی جانب سانس بھری ایک ہماری امی جان ہیں روزانہ ناشتے میں ڈبل روٹیوں پر ٹرخا دیتی ہیں جام اور مکھن پنیر سے بھی کبھی ناشتہ ہوا ہے۔ اس نے دل ہی دل میں اپنی قسمت پر آنسو بہائے اور تیزی سے اٹھ کر نیچے گیا۔

    چھوٹے بہن بھائیوں کی آدھی درجن فوج امی کے ارگرد منڈلا رہی تھی۔ ثانیہ امی کے دوپٹے سے جھولتی ہوئی اسکول نہ جانے کی ضد کر رہی تھی۔ ببلی اپنی واکر میں بیٹھی فیڈر کے لیے چلا رہی تھی۔

    بلال باتھ روم میں گھسا امی جان سے ٹوتھ پیسٹ نکلوانے کے لیے آوازیں بلند کر رہا تھا جبکہ گڈو اور پپو امی کی مصروفیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ماچس کی تیلیوں کو جلانے کا تجربہ کر رہے تھے۔

    ’’یہ کیا کر رہے ہو۔‘‘ فرخ نے اچک کر ان دونوں سے تیلیاں چھینیں دونوں نے رنگ ہاتھوں پکڑے جانے پر فوراً ہی تیلیاں چھوڑ دیں۔

    ’’بیگم میری جرابیں کہاں ہیں؟‘‘ دائیں سمت سے ابو جان چلائے اور امی جان بچوں کے کاموں کو نظرانداز کرتے ہوئے فوراً ابو جان کے جرابوں کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں۔

    ’’رات ہی تواستری کر کے ادھر رکھے تھے۔‘‘ امی جان بڑ بڑائیں کیونکہ ابو جان کا غصہ عروج پر تھا آفس کی دیر جو ہو رہی تھی اور پھر بالآخر شرارتی پپو کے کھلونوں کے ڈبے سے جرابیں بر آمد ہو گئیں۔

    ’’یہ لیجئے۔‘‘ امی جان نے کسی فاتح کی طرح جرابیں ابو جان کو لاکر پیش کیں اور پھر کچھ دیر بعد وہی ہنگامہ اپنے عروج پر تھا۔

    ’’امی جان۔‘‘ فرخ نے امی جان کو ڈرائننگ ٹیبل پر بیٹھا دیکھ کر کہا۔

    ’’امی وہ شیخ صاحب کے گھر سے اتنی اچھی پراٹھوں کی خوشبو آ رہی ہے آپ مجھے بھی آلوکی بھجیا کے ساتھ پراٹھا بنا کر دے دیں۔‘‘ فرخ نے انتہائی ندیدے پن سے کہا۔

    ’’آج تو نہیں البتہ چھٹی والے دن تمہاری یہ فرمائش پوری کر دوں گی۔‘‘ امی جان نے عجلت میں سلائس پر مکھن لگایا اور تانیہ کے لنچ باکس میں ڈال دیا۔

    ’’بدھ جمعرات، جمعہ، ہفتہ یعنی چار دن کے بعد میری خواہش پوری ہو سکےگی۔‘‘ فرخ نے تاسف سے سوچا اور پھر صبر کے گھونٹ پیتا ہوا اسکول جانے کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔

    انتظار کی شدت کے ساتھ اس نے یہ دن گزارے اور پھر جیسے اتوار کی آمد کے ساتھ ہی وہ امی کو اپنی فرمائش یاد دلانے لگا۔

    ’’ہاں ہاں فرخ مجھے تمہاری فرمائش یاد ہے بھاات کے لیے آلو میں نے کل ہی خرید لیے تھے البہے گھی کا پیکٹ تم جاکر لے آؤ۔ یہ کہتے ہوئے امی جان نے فرخ کے ہاتھ میں پیسے تھمائے اور خود باورچی خانے میں گھس گئیں۔

    فرخ نے اپنی سائیکل نکالی اور تیزی کے ساتھ وہ گھی لے کر لوٹا مگر یہاں تو نقشہ بدلا ہوا تھا۔ آلو کی بھجیا کے لے آلو تو سلیب پر رکھے تھے البتہ امی جان ابو کے محلے کے دوستوں کے لئے چائے بنانے میں مصروف تھیں۔ چائے کی کیتلی چولہے پر چڑھی تھی۔ ٹرے میں کپ سجائے امی جان پیالیوں میں چینی ڈال رہی تھیں جبکہ عین سلیب کے نیچے گڈو اور پپو کھڑے چینی کا ڈبہ کیج کرنے میں مصروف تھے۔

    ’’یہ کیا ہو رہا ہے، فرخ نے آج پھر ان کا منصوبہ خاک میں ملانا تھا۔

    ’’کچھ نہیں ہم تو چائے کیسے بنتی ہے یہ دیکھ رہے تھے۔‘‘ گڈو نے پپو کو کہنی ماری۔

    ’’نہیں جناب چائے جب بنتی ہے تو چینی کیسے گرتی ہے، پیالی کے ٹوٹنے سے چھناک سی آواز کیے آتی ہے؟ آپ تو کچھ ایسی ہی صورتحال کے لیے تدبیریں بن رہے تھے۔‘‘ فرخ نے کہا اور دونوں کے ہاتھ پکڑ کر کچن سے باہر نکالا۔

    تانیہ کی روز کی اسکول نہ جانےکی ضد تھی تو آج اسے انڈے کی زردی کے ٹوٹنے کا غم کھائے جا رہا تھا۔

    ’’بھئی زردی کو توڑکر ہی تو کھاؤگی پھر کیوں چلا رہی ہو۔‘‘ فرخ نے اسے زور سے ڈانٹا۔

    ’’خود کھا لیں نا اگر ایسا ہی ہے تو ؟‘‘ تانیہ نے پیشکش کی۔

    ’’لو کھا لیتا ہوں اس میں حرج ہی کیا ہے۔‘‘ فرخ نے ہاتھ بڑھا کر سلائس تھاما۔

    ’’مگر نہیں مجھے تو آج ناشتے میں گھر کے پراٹھے اور آلو کی بھجیا کھانا ہے۔‘‘ فرخ نے بیساختگی سے نوالہ واپس پلیٹ میں رکھا اور امی جان کی طرف دیکھا۔

    ببلی کا پیٹ خراب ہو گیا تھا اس لیے بار بار ان صاحبہ کی نیپی تبدیل کرنے کے لیے امی جان واش روم کی طرف دوڑ لگا رہی تھیں۔

    واش روم سے باہر آئیں تو انہوں نے ببلی کے لیے نمکول کا پانی بنانے کی تیاری شروع کر دی۔ نمکول بنا کر ببلی کو واکر میں بٹھایا اور جب باہر آئیں تو فرخ ان کا منتظر تھا۔

    ’’ہاں بیٹا بس یہ ببلی کا طبیعت خراب ہو گئی تھی میں ابھی آلو کاٹنے لگی ہوں۔‘‘

    ’’بیگم بھئی بیگم کہاں ہو؟‘‘ دوستو کو فارغ کر کے ابو جان اندر آتے ہوئے چلائے۔

    ’’جی جی فرمائیے۔‘‘ امی جان نےکچن سے آواز لگائی۔

    ’’امی جان کا فون آیا تھا وہ ہمارے گھر آنا چاہ رہیں ہیں۔ میں ان کو لینے جارہا ہوں تم کچھ کرو نہ کرو ذرا یہ گھر پہلے صاف کر لینا، وہ صفائی کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔‘‘ ابو جان نے ہدایت دی۔

    ’’مگر ابھی تو فرخ کے لیے گھر کے پراٹھے اور آلو کی بھجیا بنانی ہے۔‘‘ امی جان نے دھیرے سے کہا۔

    ’’گھر کے پراٹھے اور آلو کی بھجیا آج نہ بنے تو کچھ نہیں ہوگا۔ عورت کا سلیقہ گھر کی صفائی ستھرائی میں ہی نظر آتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ابو جان نے گاڑی کی چابی نکالی اور باہر نکل گئے۔

    فرخ نے جو یہ صورتحال دیکھی تو منہ بناتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ فرخ نے آج ٹھان لی تھی کہ کچھ بھی ہو وہ ناشتہ نہیں کرےگا۔

    امی جان نے بچوں کو ایک کمرے میں بٹھاکر باہر سے کنڈی چڑھا دی تھی اور اب وہ جلدی جلدی گھر کی صفائی میں مشغول تھیں۔

    کچھ دیر بعد ہی مہمانوں کی آمد ہو چکی تھی۔ امی جان مہمانوں کی ضیافت میں مصروف تھیں کہ اچانک ہی امی جان کو چکر آنے لگے اور وہ چائے بناتے بناتے قریبی اسٹول پر بیٹھ گئیں۔ فرخ جو احتجاجا امی جان مصروفیت دیکھنے آیا تھا امی جان کی حالت دیکھ کر گڑ بڑا گیا۔ ٹھنڈے پسینے امی کی پیشانی پر نمودار تھے۔

    ’’امی جان امی جان کیا ہوا؟‘‘ فرخ نے جلدی سے امی کے گلے میں ہاتھ ڈالا۔

    ’’بیٹا بس ناشتہ نہ کرنے سے شاید چکر آ گیا تھا۔‘‘

    ’’مگر کیوں آپ تو ناشتہ کر لیتیں۔‘‘ فرخ نے گڑبڑاکر کہا۔

    ’’واہ بھئی واہ اپنے بیٹے کی فرمائش پوری نہ کر کے میں بھلا کیسے ناشتے کا ایک لقمہ بھی اپنے حلق سے اتار سکتی ہوں۔‘‘امی جان کے لہجے میں سنجیدگی ملال اور نجانے کیا کچھ تھا۔

    فرخ نے شرمندہ شرمندہ نظروں سے امی جان کو دیکھا اور پھر جلد ہی سلائس پر مکھن لگاکر پہلا لقمہ امی جان کو اپنے ہاتھ سے کھلایا اور دوسرا لقمہ اپنے منہ میں ڈالا۔

    امی جان پہلے تو مسکرائیں یہ سوچتے ہوئے کہ آج کا سب سے اہم کام فرخ کی فرمائش کو پورا کرنا ہے اور پھر اسے اپنے سے قریب کرتے ہوئے اس کے گھنگھریالے بالوں میں اپنی نرم و نازک انگلیاں پھیرنے لگیں، امی جان کی محبت کا یہ اعزاز دنیا جہاں کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے