قلم کا سفر
پیارے بچو! جس پین سے آپ آج لکھتے ہیں، اس تک پہنچنے کے لیے قلم کو ایک طویل سفر طے کرنا پڑا ہے۔ پرانے زمانے میں مور کے پنکھ کو قلم بنا کر بھوج پتوں پر لکھا جاتا تھا۔ بھوج ایک درخت ہے، جس کا تنا چمڑی جیسی کئی جلدوں سے بنتا ہے۔ اس تنے پر سے یہ پتلی پتلی جلدیں احتیاط کے ساتھ اتار لی جاتی تھیں اور ان کو ایک سائز کی پٹیوں میں کاٹ لیا جاتا تھا۔ ان پٹیوں پر تیل مل دیا جاتا تھا۔ جب یہ چکنی ہو جاتی تھیں تو ان کے اوپر مور کے پنکھ سے بنائے ہوئے قلم سے لکھا جاتا تھا۔ لکھنے کے بعد تحریر پر سیاہی مل دی جاتی تھی تو تحریر ابھر آتی تھی اور اس کو آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔ مصنف جو کتاب لکھ رہا ہوتا تھا، جب اس کا ایک باب مکمل ہو جاتا تھا تو متعلقہ پٹیوں کو دھاگے (سوتر) سے باندھ دیا جاتا تھا۔ اسی سے سنسکرت زبان میں باب کو سوتر کہا گیا۔ جب کتاب مکمل ہو جاتی تھی تو اس کے تمام ابواب کو ایک موٹی ڈوری سے باندھ کر گانٹھ لگا دی جاتی تھی۔ اس سے سنسکرت میں کتاب کو ’’گرنتھ‘‘ کہا گیا۔ گرنتھ کے لفظی معنی ہیں گانٹھ۔
پھر کاغذ ایجاد ہوا۔ گھاس پھوس کو کئی روز تک پانی میں بھگوکر گوندھ لیا جاتا تھا اور اس کی لوئی بنالی جاتی تھی۔ اس لوئی کو دیوار پر لیپ دیا جاتا تھا۔ جب یہ سوکھ جاتی تھی تو اس کو اتار کر ایک سائز میں کاٹ لیا جاتا تھا۔ اس پر لکھنے کے لیے مور پنکھ کی جگہ پر سرکنڈے کا قلم استعمال کیا جانے لگا۔ لکھنے کے لیے روشنائی ایجاد کی گئی۔ اخروٹ کے چھلکے کو جلاکر اس میں سرسوں کا تیل ملا دیا جاتا تھا اور سیاہ روشنائی تیار ہو جاتی تھی۔ اسی لیے آج تک لوگ روشنائی کو سیاہی کہتے ہیں۔ سرکنڈے کے قلم میں قط لگانا بھی ایک ہنر تھا۔ قلم کا قط صحیح ہو تو تحریر خوش خط ہو جاتی ہے۔ پھر نب ایجاد ہو گئے۔ قلم کو بار بار تراشنا اور اس میں قط لگانا پڑتا تھا۔ نب کو تراشنے یا اس میں قط لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ دونوں صورتوں میں بار بار دوات میں سے روشنائی لینا پڑتی تھی، جس کی مشقت سے بچنے کے لئے فاؤنٹین پین ایجاد کیا گیا ہے۔ پلاسٹک کے اس پین میں انجکشن کی طرح روشنائی بھرلی جاتی تھی اور یہ دیر تک چلتا تھا۔ اس کو بار بار دوات میں نہیں ڈبونا پڑتا تھا۔
لوگوں کو دوسرے تیسرے روز یا ہر ہفتے پین میں روشنائی بھرنا بھی مشقت کا کام ہو رہا تھا، اس لیے بال پین ایجاد کیا گیا۔ اس میں روشنائی نہیں بھرنا پڑتی تھی۔ گاڑھی روشنائی کی ایک پتلی سی پائپ اس کی ٹپ سے جڑی ہوتی تھی۔ نب کی جگہ پر ٹپ نے آکر خوش خطی کا معاملہ ہی ختم کر دیا۔ نب کئی قسم کے ہوا کرتے تھے۔ ان میں قط بنے ہوئے ہوتے تھے جو مختلف تحریروں کے لیے مختلف طرح کے ہوتے تھے۔ مثلاً انگریزی لکھنے کے لیے جی کا نب استعمال کیا جاتا تھا، اردو لکھنے کے لیے بیورلی کا نب استعمال کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں مدارس میں جب امتحان لیا جاتا تھا تو طلبا کو خوش خطی کے نمبر الگ سے دیے جاتے تھے۔ بال پین میں قط نہ ہونے کی وجہ سے بس لکھا جاتا ہے، تحریر کیسی ہی کیوں نہ ہو۔
قلم کی کوکھ میں سے خطاطی کا جنم ہوا۔ رومن رسم خط میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی میں خطاطی کے ذریعے بائیبل کو اور دسویں صدی میں قرآن دیدہ زیب بنانے کی غرض سے لفظوں، آیات و احادیث کو مختلف طرح کے قلموں سے لکھ کر نظر فریب بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ خطاطی ایک ایسا ہنر ہے جس کو ہم قلم کا جوہر کہہ سکتے ہیں۔
ایک بات یاد رکھئے کہ انسان کا خط اس کی شخصیت کا غماز ہوتا ہے۔ آپ کا خط جتنا خوبصورت ہوگا، اتنی ہی نکھری ہوئی آپ کی شخصیت ہوگی۔ اس لیے اپنے خط پر توجہ دیجئے اور اسے بہتر بنانے کا عزم کیجئے۔
- کتاب : بچوں کا ماہنامہ امنگ (Pg. 5)
- مطبع : اردو اکادمی دہلی (اگست 2019)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.