دن تھے برسات کے۔ ایک بار دوڑتے دوڑتے بنو ماں کے پاس آیا۔ اس نے پوچھا: ’’ماں، تم کیا کر رہی ہو؟‘‘
ماں نے مڑ کر دیکھا اور کہا: ’’بیٹا میں پھول کی قلمیں لگارہی ہوں۔‘‘
برسات کے دنوں میں یہ پھول پودے جلدی جڑیں پکڑ لیتے ہیں۔ پانی خوب ملنے کی وجہ سے نئی نئی کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں۔ بنو اپنے باغ میں کھیل رہا تھا۔
بنو کا باغ بہت خوبصورت تھا، طرح طرح کے پھول اس باغ میں کھلے ہوئے تھے۔ ان پھولوں پر رنگ برنگی تتلیاں آکر بیٹھتیں تو بنو انہیں پکڑنے کے لئے دوڑپڑتا۔ اسی بیچ بجلی چمکی، بنو نے اوپر دیکھا، کالے کالے بادل چھا رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں سارا آسمان بادلوں سے ڈھک گیا۔ ٹپ ٹپ بوندیں گرنے لگیں، بنو اور اس کی ماں برآمدے میں آکر بارش کا لطف لینے لگے۔ کچھ دیر میں بارش تھم گئی۔ بادلوں کے پیچھے سے سورج نکل آیا۔ بنو پھر باغ میں دوڑ گیا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ آسماں کے اس کنارے سے اس کنارے تک خوبصورت رنگوں والی کمان تنی ہوئی تھی۔ بنو نے ماں کو پکار کر پوچھا، ’’ماں، یہ کیا ہے؟‘‘
ماں نے کہا، ’’بیٹے، یہ قوس قزح ہے۔ اسے اندر دھنش بھی کہتے ہیں، یعنی اندر دیوتا کی کمان، اندر دھنش ہوا میں تیرتی پانی کی بوندوں پر سورج کی کرنیں پڑنے سے دکھائی دیتا ہے۔‘‘ بنو نے کہا، ’’ماں، مجھے اندر دھنش کی کہانی سناؤنا۔‘‘
ماں کہانی سنانے لگی، ’’راجا اندر کے دربار میں سات نٹ کھٹ بالک (بچے) تھے۔ وہ آپس میں ہر وقت لڑتے رہتے تھے۔ ایک بار وہ سب اسی طرح جھگڑنے لگے اور ہر ایک اپنا اپنا بڑا پن جتانے لگا۔‘‘
لال رنگ کا بالک بولا۔
’’سب سے اچھا میں، کیا پاؤگے پار سیب ٹماٹر دیکھو تم، تربوز انار‘‘ بولا بالک نارنگی رنگ:
’’گیہوں، سنترا، گاجر، سب میں میرا نام میں ہی تو کرتا ہوں ان سب کا کام‘‘ پھر بولا بالک پیلا:
’’پھلوں میں کھاؤ امرود، نہیں تو کیلے سورج مکھی، گلاب میں میرے رنگ ہیں پھیلے‘‘ باری آئی ہرے بھرے بالک کی۔
’’رہتا ہوں ہر ایک جگہ جہاں کہیں ہریالی آم ہو کچا، املی کچی یا طوطے کی بولی‘‘ بولا بالک وہ، رنگ تھا جس کا آسمانی:
’’اوپر نظر اٹھا کر دیکھو آسمان میں ہوں بڑا اسی کے سمان‘‘ بول اٹھا گہرا نیلا بالک:
’’دیکھا ہے مور ناچتا اور بہتا پانی نیل کمل، تالاب، سب ہے میری رام کہانی‘‘ اب باری تھی بینگنی بالک کی:
’’وہاں رکھے ہیں جامن، انگور، بینگن
میرے ہی رنگ سے رنگے ہیں ان کے تن من‘‘
وہ سارے بالک آپس میں جھگڑ رہے تھے کہ اندردیو وہاں آ پہنچے۔ انہوں نے کہا: ’’بچو! تم کیوں جھگڑ رہے ہو۔ جھگڑا کرنا اچھی بات نہیں۔ اچھے بچے جھگڑا نہیں کرتے۔‘‘
سب بچے چپ ہو گئے۔
بچوں نے جھگڑے کی وجہ اندر دیوتا کو بتائی اور پوچھنے لگے:
’’بتائیے، اب ہم میں سب سے اچھا کون ہے؟‘‘
اندردیو نے ہنس کر کہا، ’’بچو! تم سب برابر ہو، مل جل کر ہنسی خوشی سے رہو تو تم اور بھی خوبصورت نظر آؤگے۔ تم سب مل کر ہی تو اندر دھنش بنے ہو اور جب تک ملے رہوگے تو تمہیں کوئی تور نہیں سکتا۔‘‘
اندر دیو کا کہا سبھی بچوں نے مان لیا اور وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر آسمان میں ساتھ ساتھ ہنسی خوشی گھومنے لگے۔
کبھی کبھی دوہرا اندر دھنش بھی دکھائی دیتا ہے۔ عام طور سے لال رنگ سب سے اوپر ہوتا ہے اور بینگنی سب سے نیچے۔ جب یہ دوہرا دکھائی دیتا ہے تو دوسرے اندر دھنش میں سلسلہ الٹا ہوتا ہے۔ یعنی لال رنگ سب سے نیچے ہوتا ہے اور بینگنی سب سے اوپر۔
جب بھی یہ سات بالک کھڑے نظر آتے ہیں تو قوس قزح یعنی اندر دھنش دکھائی دیتا ہے۔ اوپر لال، نیچے بینگنی۔ ہمیشہ سورج کی الٹی سمت میں۔ دوپہر کے وقت اندر دھنش بالکل نہیں دکھائی دیتا۔
اندر دھنش دیکھ کر سبھی بچے خوش ہوتے ہیں۔ مور ناچنے لگتے ہیں اور چاروں طرف خوشی ہی خوشی چھا جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ساتوں نٹ کھٹ بچے ساتھ ساتھ کھیل رہے ہوں۔ کبھی لال آگے تو کبھی بینگنی
کہانی: اوشا جوشی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.