قصہ ایک بھیڑیے کا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے، سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیئے، موٹے تازے کتّے سے ملاقات ہوئی۔ دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا، ’’اے دوست! تُو تو خوب تر و تازہ دکھائی دیتا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔ بھائی! یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟ میں تجھ سے دس گنا زیادہ محنت کرتا ہوں اور اس کے باوجود بھوکا مرتا ہوں۔‘‘
کتا یہ سن کر خوش ہوا اور اس نے بے نیازی سے جواب دیا، ‘’اے دوست! اگر تو بھی میری طرح کرے تو مجھے یقین ہے کہ تو بھی میری طرح خوش رہےگا۔‘‘
بھیڑیے نے پوچھا ’’بھائی! جلدی بتا، وہ بات کیا ہے؟‘‘
کتے نے جواب دیا ’’تو بھی میری طرح رات کو گھر کی چوکیداری کر اور چوروں کو گھر میں نہ گھسنے دے۔ بس یہی کام ہے۔”
بھیڑیے نے کہا ’’بھائی! میں دل و جان سے یہ کام کروں گا۔ اس وقت میری حالت بہت تنگ ہے۔ میں ہر روز کھانے کی تلاش میں سارے جنگل میں حیران و پریشان مارا مارا پھرتا ہوں۔ بارش، پالے اور برف باری کے صدمے اٹھا تا ہوں، پھر بھی پیٹ پوری طرح نہیں بھرتا۔ اگر تیری طرح مجھے بھی گرم گھر رہنے کو اور پیٹ بھر کھانے کو ملے تو میرے لیے اس سے بہتر کیا بات ہے۔‘‘
کتے نے کہا، ’’یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، سچ ہے۔ اب تو فکر مت کر۔ بس میرے ساتھ چل۔‘‘
یہ سن کر بھیڑیا کتے کے ساتھ ساتھ چل دیا۔ ابھی وہ کچھ دور ہی گئے تھے کہ بھیڑیے کی نظر کتے کے گلے پر پڑے ہوئے اس نشان پر پڑی جو گلے کے پٹے سے پڑ گیا تھا۔ بھیڑیے نے پوچھا، ’’اے دوست! تیرے گلے کے چاروں طرف یہ کیا نشان ہے؟
کتّے نے کہا، ’’کچھ نہیں۔‘‘
بھیڑیے نے پھر کہا، ’’اے دوست! بتا تو سہی یہ کیا نشان ہے؟‘‘
کتے نے دوبارہ پوچھنے پر جواب دیا ’’اگر تو اصرار کرتا ہے تو سن، میں چونکہ درندہ صفت ہوں۔ دن کو میرے گلے میں پٹا ڈال کر وہ باندھ دیتے ہیں تاکہ میں سو رہوں اور کسی کو نہ کاٹوں اور رات کو پٹا کھول کر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ میں چوکیداری کروں اور جدھر میرا دل چاہے جاؤں۔ رات کو کھانے کے بعد میرا مالک میرے لیے ہڈیوں اور گوشت سے تیار کیا ہوا راتب میرے سامنے ڈالتا ہے اور بچوں سے جو کھانا بچ جاتا ہے، وہ سب بھی میرے سامنے ڈال دیتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی مجھ سے پیار کرتا ہے۔ جمع خاطر رکھ، یہی سلوک، جو میرے ساتھ کیا جاتا ہے، وہی تیرے ساتھ ہوگا۔‘‘
یہ سن کر بھیڑیا رک گیا۔ کتے نے کہا، ’’چلو چلو! کیا سوچتے ہو۔‘‘
بھیڑیے نے کہا، ’’اے دوست! مجھے تو بس معاف کرو۔ یہ خوشی اور آرام تجھے ہی مبارک ہوں۔ میرے لیے تو آزادی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ جیسا تو نے بتایا اس طرح اگر کوئی مجھے بادشاہ بھی بنا دے تو مجھے قبول نہیں۔‘‘
یہ کہہ کر بھیڑیا پلٹا اور تیزی سے دوڑتا ہوا جنگل کی طرف چل دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.